بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Asrar-ut-Tanzil - Al-Hashr : 1
سَبَّحَ لِلّٰهِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِی الْاَرْضِ١ۚ وَ هُوَ الْعَزِیْزُ الْحَكِیْمُ
سَبَّحَ : پاکیزگی بیان کرتا ہے لِلّٰهِ : اللہ کی مَا : جو فِي السَّمٰوٰتِ : آسمانوں میں وَمَا فِي الْاَرْضِ ۚ : اور جو زمین میں وَهُوَ : اور وہ الْعَزِيْزُ : غالب الْحَكِيْمُ : حکمت والا
جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے ، سب اللہ کی پاکی بیان کرتے ہیں۔ اور وہ غالب ، حکمت والے ہیں
آیات 1 تا 10۔ اسرار ومعارف۔ یہود کے قبیلہ بنونظیر کے ساتھ مسلمانوں کا صلح کا معاہدہ تھا جب آپ ﷺ ایک کام سے ان کے ہاں تشریف لے گئے تو انہوں نے قتل کی سازش کی جس کی اطلاع بذریعہ وحی ہوگئی۔ آپ واپس تشریف لائے انہیں حکم دیا کہ تم نے معاہدے کی خلاف ورزی کی لہذا دس روز کے اندر گھر سے چلے جاؤ ورنہ تمہارے ساتھ جنگ ہوگی ۔ منافقین نے انہیں مدد کا یقین دلایا وہ نہ گئے تو آپ نے محاصرہ کرلیاچنانچہ جانے پر رضامند ہوگئے آپ نے مال لے جانے کی اجازت دے دی صرف ہتھیار ضبط فرمالیے تو کواڑ تک اکھاڑ کرلے گئے کچھ خیبر میں اور کچھ شام وغیرہ میں چلے گئے پھر خلافت عمر میں سب کو شام کی طرف نکال دیا گیا یہی دو جلاوطنیاں حشر اول اور حشرثانی کہلاتی ہیں۔ اسلام زیادتی نہیں کرتا۔ بات اللہ کی پاکی سے شروع فرمائی کہ وہ کسی پر زیادتی نہیں کرتا اور رسول اللہ ﷺ اسی کے حکم کے مطابق سلوک فرماتے ہیں لہذا کسی بھی طرح اسلامی احکام کسی فریاد یا قوم پر زیادتی نہیں کرتے کہ آسمانوں اور زمین کی ہر شے اللہ کی پاکیزگی اور تقدس پر دال ہے اور اللہ غالب بھی ہے اور بہت بڑا حکمت والا بھی لہذا اسی نے ان لوگوں کو جو کتاب الٰہی پر ایمان نہ لائے مراد (بنونضیر ہیں ) ان کو گھروں سے جلاوطنی کے لیے نکالا ، کہ انہوں نے بدعہدی کی منافقین بھی ان کے ساتھ مل گئے اور ان کی اپنی طاقت اور قلعے بھی مضبوط تھے۔ رسول اللہ ﷺ کا حکم اللہ ہی کا حکم ہے۔ مگر جب رسول اللہ ﷺ نے انہیں مدینہ بدر ہونے کا حکم دیاتو اللہ نے اسے اپناحکم بیان فرمایا نیز ایک لطیف بات ارشاد فرمادی کہ پہلی بار نکالے گئے گویا اشارہ ہے کہ بغاوت سے باز نہ آئیں گے اور دو بار بھی نکالے جائیں گے چناچہ عہد فاروقی میں شام کی طرف نکال دیے گئے نیزا نہیں اپنی طاقت کا بڑاگھمنڈ تھا یہاں تک مسلمان بھی یہی یقین رکھنے کے باوجود کہ جب آپ نے فرمایا توایساضرور ہوگا ظاہری اسباب الٹا ان کے حق میں پاتے تھے اور وہ سمجھتے تھے کہ ان کے قلعے ان کی حفاظت کے لیے کافی ہیں انہیں کوئی نہیں توڑ سکتا اور یہ قلعے ہمیں اللہ کی گرفت سے بچالیں گے مگر اللہ نے انہیں ایسی ذلت آمیز شکست سے دوچار کردیا کہ جس کا انہیں گمان بھی نہ تھا مسلمانوں نے محاصرہ کرلیا تھا۔ منافقین دبک گئے تھے اور یہود پر قلعوں کے اندارایسی ہیبت طاری ہوگئی اور اللہ نے ان کے دلوں میں مسلمانوں کا رعب ڈال دیا کہ وہ جلاوطنی پر مجبور ہوگئے آپ نے اجازت دے دی کہ ایک اونٹ پر اپنا سامان اور مال دولت لے جاسکتے ہو چناچہ کچھ توقلعے مسلمانوں کے ہاتھوں ٹوٹے اور انہیں نقصان پہنچا باقی وہ خود اپنے ہاتھوں توڑ رہے تھے کہ دروازے کھڑکیاں وغیرہ نکال کرلے جاسکیں مسلمانوں کی پوری کوشش اور صلح کے معاہدوں کے باوجود سازشوں سے باز نہ آئے حتی کہ رسول اللہ کے قتل کی سازش کی مگر اس کے باوجود ادھر اس قدر کرم تھا کہ مال سمیت جانے کی اجازت دے دی گئی۔ فتح کی شرط۔ ان واقعات میں سمجھدار لوگوں کے لیے بہت بڑی عبرت کی دلیل ہے کہ فتح نری وسائل کی محتاجی نہیں بلکہ تائید باری سے ممکنہ وسائل کے ساتھ ہی نصیب ہوجاتی ہے بشرطیکہ مسلمان اتباع نبوی میں میدان میں تواتریں۔ اگر اللہ نے ان کے لیے یہ بات مقدرن ہ کردی ہوتی تو ان کا جرم اتنا بڑا تھا کہ دنیا میں انہیں سخت ترین سزا دی جاتی اور آخرت میں تو ان کے لیے دوزخ کا عذاب ہے اس لیے کہ انہوں نے اللہ کی مخالفت کی کیونکہ اس کے رسول ﷺ کی مخالفت کی اور جو کوئی اللہ کی مخالفت کرتا ہے تو پھر اس پر اللہ کا بہت سخت عذاب آتا ہے۔ مقام فنافی اللہ۔ اس محاصرے میں کچھ درخت بھی ان کے کاٹے گئے کچھ صحابہ نے نہ کاٹے کہ یہ تو چلے جائیں گے اور درخت مسلمانوں کے کام آئیں گے اللہ کریم نے دونوں کا کام اپنا کام قرار دیا کہ دونوں راہیں اللہ کی رضا کے لیے تھیں اور وہ لوگ فنا فی اللہ تھے چناچہ فرمایا تم نے اگر کوئی کھجور کاٹی تو وہ میرے حکم سے تھی اور کوئی باقی رہنے دی تو وہ بھی میرا حکم تھا۔ اجتہاد۔ یہ اجتہاد تھا جس میں اختلاف رائے بہتری کے لیے تھا لہذا دونوں کو پسند فرمایا لہذا اجتہاد میں کسی رائے کو گناہ قرار نہیں دیاجاسکتا ۔ مسئلہ۔ جنگ میں کفار کے درخت یافصلیں وغیرہ برباد نہ کی جائیں گی اور نہ ان کے گھرجلائے یامنہدم کیے جائیں گے لیکن اگر جنگی نقطہ نظر سے یہ ضروری ہوا کہ اس کے بغیر فتح نہ ہوسکتی ہوتویہ جائز ہوگا کہ اس سے کفار کی شوکت کو توڑا جائے۔ مال فئی۔ کہ یہاں بھی ارشاد ہوا ہے کہ یہ سب اس لیے کیا گیا ان بدکاروں کو ذلیل کیا جائے اور یہ شکست سے دوچار ہوں جہاں کفار بغیر جنگ کے مال یا گھر بار چھوڑ جائیں جیسے یہاں بنونضیر نے جنگ کے بغیر جلاوطنی قبول کرلی تو اس مال کوفی کہاجائے گا فئی کا معنی سایہ ڈھلنے کا ہے جیسے بعد دوپہر سایہ ڈھلتا ہے ایسے ہی جب کفار بغیر جنگ کے مال چھوڑ دیں تو وہ اللہ کی طرف جو اصل مالک ہے پلٹ گیا لہذا اللہ نے اس کی تقسیم کا طریق کار غنیمت سے الگ ارشاد فرمایا غنیمت کا مال قتال سے حاصل ہوتا ہے اور ایک حصہ بیت المال کودے کر باقی چار حصے مجاہدین میں تقسیم کیے جاتے ہیں لیکن جو مال اللہ نے فئی کا اپنے رسول ﷺ کو عطا فرمایا جس پر کسی کو قتال نہیں کرنا پڑا بلکہ اللہ نے اپنے رسول کو کفار پر غلبہ دے دیا کہ وہ ہر چیز پر قادر ہے تو ان بستیوں کا حاصل شدہ مال جو بغیرجنگ کے کفار نے خالی کردیں صرف اللہ کا مال ہے جو اس نے اپنے رسول کو دیا اب وہ اس میں سے خود رکھیں قرابت داروں کو عطا کریں کہ رسول اللہ اور ان کے قرابت داروں پہ زکوہ جائز نہ تھی ) کہ یہ مال اللہ نے ان کے لیے حلال فرمادیا یا پھر یتیموں مساکین اور مسافروں کو بھی اس میں سے عطا کریں یہ سب ان کی مرضی پہ ہے۔ مسئلہ۔ مال فے رسول اللہ ﷺ یا ان کے خلفاء یا مسلمان حکمران تقسیم کرنے کا حق بھی رکھتا ہے اور اگر قومی امور عامۃ المسلمین کے لیے روک لے اور بیت المال میں داخل کرے تو بھی درست ہے یہ اس لیے کہا گیا ہے کہ مال صرف امراء کے درمیان ہی گردش نہ کرتا رہے۔ اسلام ارتکاذ دولت کے خلاف ہے۔ اسلام کے معاشی نظام نے دولت اس انداز سے تقسیم کی ہے کہ اللہ نے غریب اور امیر ہی کا نہیں مومن وکافر کا بھی حق متعین فرمادیا ، انسانی ضروریات کے حصے ہیں ایک اصلی اور فطری جیسے سورج ، ہوا ، بارش ، ان کو اپنے دست قدرت میں رکھ کر ہر ایک تک پہنچاتا ہے دوسری چیز زمین کی پیداوار ہے اور اس میں پہاڑوں جنگلوں اور قدرتی چشموں کو وقف عام قرار دیاپھرملکیتی زمین میں اول تو مزدور کسان کے بغیر کچھ حاصل نہیں کرسکتا اس کے بعد اس میں عشر مساکین وفقراء کے لیے مقرر فرمادیا اور مال وزر جو تکمیل ضرورت کا سبب بنتا ہے اس میں ایک طرف تو حق ملکیت کو ایسا تحفظ دیا کہ ناجائز طور پر لینے کے لیے کوئی بڑھے تو اسے کاٹ دیاجائے دوسری طرف وہ راستہ بند کردیے کہ کچھ لوگ قابض ہوکربیٹھ جائیں اور باقی محروم رہیں لہذا ، جوا ، سود ، ستہ ، وغیرہ حرام قرار دے کر شراکت کا نظام دیا اور پھر جو کچھ نہ کرسکنے والے معذور ہوں ان کے لیے زکوۃ ، عشر صدقہ فطر اور کفارات وغیرہ کی صورت میں تقسیم زر کا قاعدہ عطا فرمایا اور تیسراذریعہ حصول زر کا غنیمت یافے تھا اس کے بھی قاعدے مقرر فرمادیے اور سب سے بڑا قانون یہ عطا فرمایا کہ جو کچھ بھی رسول عطا کردیں لے لو اور جہاں سے روک دیں وہاں سے رک جاؤ۔ رسول اللہ ﷺ کا حکم قرآن کے حکم کی طرح واجب التعمیل ہے۔ یہ سب سے بڑا اور سنہری اصول ہے جو تمام اختلافات کو ختم کردیتا ہے کہ رسول اللہ جو حکم دیں وہی اللہ کا حکم ہے اور صحابہ کرام نے اس کا یہی مفہوم اختیار فرمایا ہے لہذا قرآنی احکام کی تشریح کوئی شخص اپنی مرضی سے نہیں کرسکتا وہاں بھی آپ کے ارشادات اور سنت ہی حق ہے علاوہ ازیں جو بھی حکم آپ کی ذات سے ثابت ہو وہ قرآن کی طرح ہی واجب التعمیل ہوگا اور ذرا منکرین حدیث غور فرمالیں نیز حدیث کو کم اہم سمجھنے والوں کے لیے بھی لمحہ فکریہ ہے۔ نظام باطل سے انکار۔ مال فے اگرچہ عام فقراء کے لیے ہے مگر اولیت ان مہاجرین فقرا کو ہے جو اپنے گھروں اور اموال سے محض اس لیے محروم کردیے گئے کہ وہ اللہ کی رضامندی کے طالب تھے اور کفار کے بنائے ہوئے باطل نظام کو قبول کرنے سے انہوں نے انکار کردیا اور اللہ کے دین پر عمل پیرا ہونے کے جرم میں ہجرت کرنا پڑی یہ سب کچھ برداشت کرکے وہ اللہ کے دین اور اللہ کے رسول کے معاون مددگار بنے یہی لوگ جہان میں سچے ہیں۔ عظمت صحابہ کامنکر کافر ہے۔ جب کتاب اللہ نے ان کے صادق ہونے کی گواہی دی تو اب ان کی ذات پر الزام تراشی کرنے والا یا ان کی دیانت وامانت اور صدق میں شبہ کرنے والا یامثل روافض ان پر الزام لگانے والا منکر قرآن ہوگا۔ جبکہ مفسرین کرام کے مطابق ان کا درجہ رسول اللہ ﷺ کے نزدیک یہ تھا کہ اپنی دعاؤں میں ان کا وسیلہ دیا کرتے تھے۔ فضائل انصار۔ یا پھر وہ لوگ جو اپنے گھروں میں مقیم تھے یعنی انصار اور ایمان پر پختہ تر تھے انہوں نے ہجرت کرکے آنے والوں سے محبت کا حق ادا کردیا اپنے گھروں اور اموال میں انہیں شریک کرلیا اور جب کبھی مہاجرین کو کوئی نعمت دی گئی کبھی ان کے دلوں میں اس کے خلاف کوئی بات نہ آئی اگرچہ یہ ثابت ہے کہ بعد فتوحات اور فراخی کے مہاجرین نے بھی انصار کو دینے میں کسر نہ چھوڑی مگر یہ باہمنی محبت کا معاملہ تھا دلوں میں کوئی ناگوار بات کسی طرف سے نہ تھی بلکہ انصار کی کیفیت یہ تھی کہ اگر خود حاجت مند ہوتے پھر بھی ایثار کرتے اور دوسروں کی حاجت روائی ضرور کرتے جس کے بدلے میں اللہ نے ان کے دل لالچ سے آزاد کردیے تھے اور جس کے دل سے لالچ نکال دیا گیا گویا اس نے دوعالم کی کامیابی حاصل کرلی۔ امت مرحومہ کے تین طبقے۔ اور تیسرا طبقہ جو ان کے بعد آنے والے لوگ ہیں جو اپنی ہر دعا میں جہاں اپنی بخشش چاہتے ہیں وہاں یہ دعا بھی کرتے ہیں کہ ہم سے پہلے گزرنے والے ان کامل الایمان لوگوں کی بخشش فرما اور ہمارے دلوں میں کوئی ناگوار بات پیدا نہ ہونے دے جو ان کی شان کے خلاف ہو کہ اے پروردگار تونرمی والا اور رحم کرنے والا ہے ۔ حضرت عمر ؓ نے جب دور دراز تک ممالک فتح فرمائے تو بعد میں آنے والے مسلمانوں کے فائدے کے لیے ان ممالک کی زمینیں تقسیم نہ فرما کر بیت المال میں داخل کردیں تاکہ حکومت اسلامیہ مالی اعتبار سے مضبوط رہے اور آنے والوں کو بھی فلاحی ریاست میسر ہو نیز یہ بات بھ یطے ہوگئی کہ امت کے تین طبقے ہیں اول مہاجرین دوم انصار ، اور تیرے قیامت تک آنے والے وہ مسلمان ہیں جن کے دل ان کی عظمت و محبت سے سرشار ہوں گے ۔ قرطبی نے اس آیت سے محبت صحابہ کے واجب ہونے کا لکھا ہے اور حضرت امام مالک فرماتے تھے کہ جو شخص مہاجرین اور انصار کی عظمت میں شبہ کرے وہ مال فئی سے حصہ نہیں لے سکتا اور جسے اس قابل نہ سمجھاجائے اس کا ایمان مشکوک ہوگیا۔ فضیلت مدینہ منورہ۔ نیز انصار کے ساتھ حضرت امام مالک فرماتے ہیں کہ مدینہ منورہ دنیا میں واحد شہر ہے جو صرف ایمان کے زور پر فتح ہوا باقی سب جہاد سے فتح ہوئے حتی کہ مکہ مکرمہ بھی۔
Top