Tafseer-e-Baghwi - Al-Hajj : 46
اَفَلَمْ یَسِیْرُوْا فِی الْاَرْضِ فَتَكُوْنَ لَهُمْ قُلُوْبٌ یَّعْقِلُوْنَ بِهَاۤ اَوْ اٰذَانٌ یَّسْمَعُوْنَ بِهَا١ۚ فَاِنَّهَا لَا تَعْمَى الْاَبْصَارُ وَ لٰكِنْ تَعْمَى الْقُلُوْبُ الَّتِیْ فِی الصُّدُوْرِ
اَفَلَمْ يَسِيْرُوْا : پس کیا وہ چلتے پھرتے نہیں فِي الْاَرْضِ : زمین میں فَتَكُوْنَ : جو ہوجاتے لَهُمْ : ان کے قُلُوْبٌ : دل يَّعْقِلُوْنَ : وہ سمجھنے لگتے بِهَآ : ان سے اَوْ : یا اٰذَانٌ : کان (جمع) يَّسْمَعُوْنَ : سننے لگتے بِهَا : ان سے فَاِنَّهَا : کیونکہ درحقیقت لَا تَعْمَى : اندھی نہیں ہوتیں الْاَبْصَارُ : آنکھیں وَلٰكِنْ : اور لیکن (بلکہ) تَعْمَى : اندھے ہوجاتے ہیں الْقُلُوْبُ : دل (جمع) الَّتِيْ : وہ جو فِي الصُّدُوْرِ : سینوں میں
کیا ان لوگوں نے ملک میں سیر نہیں کی تاکہ ان کے دل (ایسے) ہوتے کہ ان سے سمجھ سکتے اور کان (ایسے) ہوتے کہ ان سے سن سکتے بات یہ ہے کہ آنکھیں اندھی نہیں ہوتیں بلکہ دل جو سینوں میں ہیں (وہ) اندھے ہوتے ہیں
تفسیر۔ 46۔ افلم یسیروا فی الارض۔ اس سے مراد کفار مکہ ہیں کہ یہ نہیں دیکھتے کہ ہم نے ماقبل امتوں کا کیا حشر کیا جنہوں نے انبیاء کرام کو جھٹلایا۔ ” فتکون لھم قلوب یعقلون بھا اور آذان یسمعون بھا، جو ہم نے ماقبل اقوام کا تذکرہ کیا ان سے عبرت حاصل کرو۔ فانھالاتعمی ۔۔ التی فی الصدور کو بطور تاکید کے ذکر کیا۔ جیسا کہ اللہ کا قول ہے ، یطیر بجناحیہ، اس کا معنی ہوگا کہ اعمی ضار سے مراد دل کا اندھا، اور اعمی البصر یہ دین کے امور میں ضرر نہیں دیتا۔ قتادہ کا قول ہے کہ آنکھ کی بینائی پہنچنے اور فائدہ اٹھانے کا ایک ذریعہ ہے اور دل کی بینائی حقیقت میں فائدہ بخش بینائی ہے۔
Top