Mualim-ul-Irfan - An-Nahl : 42
اَفَلَمْ یَسِیْرُوْا فِی الْاَرْضِ فَتَكُوْنَ لَهُمْ قُلُوْبٌ یَّعْقِلُوْنَ بِهَاۤ اَوْ اٰذَانٌ یَّسْمَعُوْنَ بِهَا١ۚ فَاِنَّهَا لَا تَعْمَى الْاَبْصَارُ وَ لٰكِنْ تَعْمَى الْقُلُوْبُ الَّتِیْ فِی الصُّدُوْرِ
اَفَلَمْ يَسِيْرُوْا : پس کیا وہ چلتے پھرتے نہیں فِي الْاَرْضِ : زمین میں فَتَكُوْنَ : جو ہوجاتے لَهُمْ : ان کے قُلُوْبٌ : دل يَّعْقِلُوْنَ : وہ سمجھنے لگتے بِهَآ : ان سے اَوْ : یا اٰذَانٌ : کان (جمع) يَّسْمَعُوْنَ : سننے لگتے بِهَا : ان سے فَاِنَّهَا : کیونکہ درحقیقت لَا تَعْمَى : اندھی نہیں ہوتیں الْاَبْصَارُ : آنکھیں وَلٰكِنْ : اور لیکن (بلکہ) تَعْمَى : اندھے ہوجاتے ہیں الْقُلُوْبُ : دل (جمع) الَّتِيْ : وہ جو فِي الصُّدُوْرِ : سینوں میں
کیا یہ لوگ نہیں چلے زمین میں ، پس ان کے دل ہوتے جن کے ساتھ وہ سمجھتے یا کان ہوتے جن کے ساتھ وہ سنتے۔ بیشک نہیں اندھی ہوتیں آنکھیں بلکہ دل اندھے ہوتے ہیں جو سینوں میں ہیں
ربط آیات : گزشتہ آیات میں اللہ تعالیٰ نے جہاد کی اجازت مرحمت فرمائی اور ساتھ مظلوم اہل ایمان کی مدد کا وعدہ فرمایا۔ پھر فرمایا کہ جن لوگوں کو اپنے گھروں سے ناحق نکالا گیا ، اگر اللہ انہیں زمین میں اقتدار عنایت فرمائے گا تو وہ نماز قائم کریں گے ، زکوٰۃ ادا کریں گے ، نیکی کا حکم کریں گے اور برائی سے روکیں گے۔ یہ ان کا منشور ہوگا۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے مکذبین کو تنبیہ فرمائی اور حضور ﷺ اور آپ کے رفقاء کو تسلی دی کہ یہ کوئی نئی بات نہیں ہے بلکہ ہر قوم نے اپنے اپنے نبی کی تکذیب کی۔ پھر اللہ نے مہلت دے کر انہیں مبتلائے عذاب کیا۔ بہت سی بستیوں کے باشندے ظالم تھے جنہیں اللہ نے ہلاک کیا اور تمام بستیاں ویران ہوگئیں ، وہ اپنی چھتوں پر گری پڑی تھیں ، کنوئیں معطل اور ان کے محلات ویران ہوگئے ، فرمایا اگر اہل مکہ بھی تکذیب کرتے ہیں تو ان کا حال بھی سابقہ اقوام سے مختلف نہیں ہوگا۔ نشانات عبرت : اب آج کی آیات میں منکرین اور مکذبین کو مزید تنبیہ کی گئی ہے۔ ارشاد ہوتا ہے افلم یسیروا فی الارض کیا انہوں نے زمین میں چل کر نہیں دیکھا۔ انسان مختلف مقامات کی سیر کرے تو بہت سی پرانی تہذیبوں کے کھنڈرات ملتے ہیں ، انسان کو غوروفکر کا موقع ملتا ہے۔ بہت سی معلومات حاصل ہوتی ہیں جو کہ انسان کے لئے باعث عبرت ہوتی ہیں۔ دوسری جگہ اللہ نے مشرکین مکہ کے متعلق فرمایا کہ یہ لوگ تجارت کے سلسلے میں مکہ اور شام کے درمیان شاہراہ پر سے گزرتے ہیں۔ اس شاہراہ پر بڑی بڑی قوموں کے کھنڈرات موجود ہیں۔ کیا یہ لوگ انہیں دیکھ کر عبرت حاصل نہیں کرتے ؟ فرمایا کیا یہ زمین میں سیر نہیں کرتے فتکون لھم قلوب یعقلون بھا ، تاکہ ان کے دل ہوتے جن کے ذریعے وہ غور وفکر کرتے اور بات کو سمجھتے اواذن یسمعون بھا یا ان کے کان ہوتے جن کے ذریعے وہ سن سکتے ۔ جب پرانی تہذیبوں کے آثار دیکھیں تو ان کے کان کھل جائیں کہ کبھی یہ لوگ بھی بڑی شان و شوکت کے ساتھ آباد تھے۔ یہ لوگ بھی اپنے انبیاء کی تکذیب کرتے تھے اور اکٹر دکھاتے تھے مگر کچھ لیں کہ ان کا کیا حشر ہوا۔ دل کا اندھا پن : حقیقت یہ ہے فانھا لا تعمی الابصار کہ ان کی آنکھیں تو اندھی نہیں ہوتیں ولکن تعمی القلوب التی فی الصدور بلکہ سینوں میں رکھے ہوئے دل اندھے ہوتے ہیں۔ دل کا اندھا پن بڑا خطرناک ہے۔ کسی فردواحد کا اندھا ہوجانا تو کسی حد تک زیادہ نقصان دہ ہیں ہوتا مگر جہاں پوری قوم ہی اندھی ہوجائے تو پھر ان کی تباہی لازمی ہوجاتی ہے سورة الاعراف میں نوح (علیہ السلام) کی پوری قوم کے متعلق فرمایا قوما عمین (آیت 64) کہ وہ سب کے سب دل کے اندھے ہوچکے تھے۔ وہ نشانات قدرت کو دیکھنے اور اپنے نبی کی تعلیم میں غوروفکر کرنے سے عاری ہوچکے تھے۔ یہی نہیں بلکہ ان کے کانوں میں بھی ڈاٹ لگ چکے تھے اور وہ کوئی صحیح بات سننے کے لئے تیار نہ تھے۔ نتیجہ ظاہر ہے کہ چند گنتی کے اہل ایمان کے سوا جو کشتی میں سوار ہوگئے ، باقی ساری قوم طوفان میں غرق ہوگئی۔ حضرت عبداللہ بن عباس ؓ کی روایت میں آتا ہے کہ حضور ﷺ کے ایک نابینا صحابی حضرت عبداللہ بن ام مکتوم ؓ نے آپ کے سامنے عرض کیا ، حضور ﷺ ! اللہ کا فرمان ہے ومن کان…………اعمی (بنی اسرائیل 72) جو شخص اس دنیا میں اندھا ہوگا وہ آخرت میں بھی اندھا ہی ہوگا۔ تو کیا میں آخرت میں نابینا اٹھایا جائوں گا ؟ اس سوال کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی فانھا لا تعمی الابصار ولکن تعمی القلوب التی فی الصدور ، مطلب یہ کہ آخرت میں اندھے وہ ہوں گے دنیا میں جن کے دلوں کی آنکھیں اندھی تھیں اور وہ کفر ، شرک ، الحاد اور نفاق کی تاریکیوں میں بھٹکتے رہے۔ دنیا میں انہیں نیکی کا راستہ نظر نہیں آتا تھا اور نہ وہ ایمان اور توحید کو دیکھ سکے۔ دنیا میں اگرچہ وہ بینا تھے۔ مگر دل کے اندھے تھے۔ ایمان اور نیکی والے لوگ اگر دنیا میں نابینا بھی رہے ہوں تو آخرت میں وہ بینا ہوں گے۔ کان ، آنکھ اور دل : اللہ تعالیٰ نے کان ، آنکھ اور دل جیسی عظیم نعمتوں کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا ان السمع…………مسئولا (بنی اسرائیل 36) یعنی کان ، آنکھ اور دل کے متعلق باز پرس ہوگی ، پوچھا جائیگا کہ میں نے دنیا میں تمہیں یہ نعمتیں عطا کی تھیں ، تم نے انہیں کس کام پر لگایا۔ اور پھر ان کا شکریہ ادا کیا ؟ ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کانوں کی نعمت اس لئے عطا کی ہے کہ ان سے اچھی باتیں سنی جائیں ، ارشادات خداوندی ، فرامین نبوی اور اللہ کے نیک بندوں کی باتیں سنی جائیں ، نہ کہ کھیل تماشے اور گانے بجانے سنے جائیں۔ اسی طرح آنکھوں سے شعائر اللہ کی زیارت کی جائے ، قرآن پاک کی تلاوت ہو ، کتب دینیہ کا مطالعہ ہو ، بزرگان دین کی زیارت ہو۔ اور قلب ایسی چیز ہے جس میں ہر نیکی کی بات سماجانی چاہیے۔ دل کو برا ظرف نہیں بنانا چاہیے۔ دل و دماغ کے ساتھ مشاہدات قدرت میں غوروفکر کرے تو اس طرح ان نعمتوں کا شکریہ ادا ہوگا۔ اگر ان حواس سے کماحقہ فائدہ نہیں اٹھایا نہ اچھی بات سنی اور نہ اچھی چیز دیکھی بلکہ اللہ کی وحدانیت میں غور وفکر ہی نہیں کیا ، تو پھر ظاہر ہے کہ ان نعمتوں کے متعلق سخت باز پرس ہوگی۔ قرآن پاک میں غور وفکر کے معاملہ کو اکثر دل کی طرف منسوب کیا گیا ہے حقیقت یہ ہے کہ سوچنے کی قوت دماغ میں ہوتی ہے مگر اس کے ساتھ دل کی شراکت بھی ہوتی ہے۔ اسی لئے عقل کا اطلاق دل پر کیا جاتا ہے۔ بعض قدیم فلسفی کہتے ہیں کہ سوچنے کی قوت دل میں ہوتی ہے۔ امام شافعی (رح) کا بھی یہی قول ہے۔ تاہم امام ابوحنیفہ (رح) اور اطباء کہتے ہیں کہ اللہ نے سوچنے کی وقت دماغ میں رکھی ہے۔ البتہ عمل کی طاقت دل میں ہے۔ ان دونوں کے اشتراک سے اللہ نے انسان میں قوت نظری اور قوت عملی رکھ دی ہے قوت نظری دماغ کی شراکت کے ساتھ حاصل ہوتی ہے۔ جب کہ قوت عملی دل کی شراکت سے میسر آتی ہے۔ تاہم اچھے عزائم یا برے ارادے دل میں ہی ہوتے ہیں۔ اسی لئے فرمایا کہ جس طرح انسان کی ظاہری آنکھیں ہیں ، اسی طرح اس کے دل کی آنکھیں بھی ہیں۔ جب انسان گمراہ ہوتے ہیں تو وہ دل کے اندھے ہوجاتے ہیں اور صحیح راستے کو ترک کردیتے ہیں۔ گویا وہ دل کے اندھے اور بہرے ہوجاتے ہیں اللہ نے فرمایا ہے اگر یہ دل کے اندھے اور بہرے نہ ہوں تو نشانات قدرت اور اقوام عالم کے حالات میں غوروفکر کریں مگر یہ لوگ غفلت میں پڑے ہوئے ہیں۔ جس کا نتیجہ خرابی کی صورت میں ظاہر ہوگا۔ عذاب میں جلدی : ارشاد ہوتا ہے ویستعجلونک بالعذاب لوگ آپ سے جلدی عذاب لانے کا مطالبہ کرتے ہیں ، کافر ، مشرک اور نافرمان پوچھتے تھے۔ متی ھذا الوعد (الملک 25) قیامت کا وعدہ کب پورا ہوگا ، محاسبے کی منزل کب آئے گی ؟ اور کہتے تھے کہ جو عذاب لانے کا وعدہ کررکھا ہے اس کو جلدی پورا کردو۔ اس کی جواب میں اللہ نے فرمایا ولن یخلف اللہ وعدہ ، اللہ تعالیٰ اپنے وعدے کا ہرگز خلاف نہیں کرے گا۔ نافرمانوں کو سزا مل کر رہیگی مگر اس کا وقت اللہ کے علم میں ہے ۔ وہ جانتا ہے کہ کسی قوم کس وقت سزا میں مبتلا کرنا ہے۔ ساتھ یہ بھی فرمادیا کہ تم اپنے حساب سے دن ، مہینے اور سال شمار کرکے عذاب کا جلدی مطالبہ کر رہے ہو مگر اللہ کے ہاں تقویم مختلف ہے۔ وان یوما عندربک کالف سنۃ مما تعدون تیرے پروردگار کے ہاں کا ایک دن تمہارے یہاں کے ہزار سال کے برابر ہے۔ سورة المعارج میں فرمایا فی یوم………سنۃ (آیت 4) اللہ کے ہاں ایک دن تمہارے پچاس ہزار سال کے برابر ہوگا۔ اللہ تعالیٰ تمہیں مہلت دے رہا ہے لہٰذا عذاب طلب کرنے میں جلدی نہ کرو ، وہ اپنے وقت پر آجائے گا۔ بعض مفسرین فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے ہاں دن کی طوالت ماہ وسال کے اعتبار سے نہیں بلکہ جزا وسزا کی شدت کے اعتبار سے ہوگی جب کوئی شخص تکلیف میں مبتلا ہوجاتا ہے تو اسے تھوڑا سا عرصہ بھی بہت طویل محسوس ہوتا ہے ۔ جن لوگوں پر قیامت کا دن بھاری ہوگا ، انہیں یہ ایک دن ہزاروں سال کے برابر محسوس ہوگا۔ اور اہل ایمان کے متعلق فرمایا کہ ان کے لئے یہ وقت اتنا مختصر ہوگا جتنے وقت میں چار رکعت نماز ادا کرلی جاتی ہے۔ مولانا شاہ اشرف علی تھانوی (رح) فرماتے ہیں کہ ہم دنیا میں بھی دیکھتے ہیں کہ مختلف خطوں میں اوقات میں بڑا تفاوت پایا جاتا ہے۔ مثلاً خط استوا سے قریبی خطوں میں دن اور رات چوبیس گھنٹے کا ہوتا ہے ڈنمارک کے عقبی خطوں میں دن رات دو ماہ کا ہوتا ہے جب کہ قطبین پر چھ ماہ کا دن اور چھ ماہ کی رات ہوتی ہے۔ اسی طرح ممکن ہے کہ قیامت کا دن بھی بعض اعتبار سے ایک ہزار سال کے برابر اور بعض لحاظ سے پچاس ہزار لال کے برابر ہو۔ اور یہ طوالت تکلیف کی شدت کے اعتبار سے بھی ہوسکتی ہے ، اسی لئے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کے کام تو ایسے ہیں کہ قیامت کا ایک دن تمہارے ہاں کے ہزار سال کے برابر ہو۔ حدیث شریف میں یہ بھی آتا ہے کہ غریب مہاجرین دولت مند اہل ایمان سے پانچ سو سال پہلے جنت میں جائیں گے۔ صاحب ثروت تو اپنے حساب کتاب میں پھنسے رہیں گے مگر غربا جلدی اپنے مقام پر پہنچ جائیں گے۔ بستیوں کی ہلاکت : اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے وکاین من قریۃ املیت لھا بہت سی بستیاں ایسی ہیں کہ میں نے ان کو مہلت دی وھی ظالمہ اور وہاں کے باشندے ظالم لوگ تھے۔ ثم اخذ تھا پھر میں نے پکڑا اس کو عذاب میں مبتلا کردیا۔ وہ میری گرفت سے بھاگ کر نہیں جاسکتے والی المصیر ، اور بالآخر سب کو میری ہی طرف لوٹ کر آنا ہے۔ میں ان سے باز پرس کرلوں گا کہ یہ دنیا میں کیا کچھ کرتے رہے۔ پھر اللہ نے اپنے نبی (علیہ السلام) سے فرمایا قل آپ کہہ دیجئے۔ یایھا الناس اے لوگو ! تمہاری فرمائشیں پوری کرنا میرا کام نہیں ہے۔ تم عذاب کا مطالبہ کر رہے ہو مگر یہ تو اللہ تعالیٰ کی مشیت پر موقوف ہے ، وہ جب چاہے گا ، اپنا وعدہ پورا کردے گا۔ جہاں تک میری ذات کا تعلق ہے انما انا لکم نذیر مبین میں تو تمہارے لئے کھول کر ڈر سنانے والا ہو۔ میرا کام تمہیں آگاہ کرنا ہے ، عذاب لانا نہیں ، باز پرس کرنا اور ہر نیک وبد کی جزاوسزا کا فیصلہ اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے ، وہ ہر ایک کے مناسب حال فیصلہ کردیگا۔ مغفرت اور باعزت روزی : فرمایا ، یادرکھو ! فالذین امنو وعملوالصلحت پس وہ لوگ جو ایمان لائے اور جنہوں نے اچھے اعمال انجام دیے لھم مغفرۃ ورزق کریم ان کے لئے مغفرت اور باعزت روزی ہے۔ یہاں پر اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کے لئے دو چیزوں کا وعدہ فرمایا ہے۔ ایک مغفرت اور دوسری باعزت روزی ، یہاں پر اشکال پیدا ہوتا ہے کہ مغفرت یا گناہوں کی معافی تو گنہگاروں کے لئے ہوتی ہے۔ مگر اس آیت کریمہ میں اللہ نے ایمان اور اعمال صالحہ اختیار کرنے والوں کو بخشش کا مژدہ سنایا ہے۔ تو مفسرین کرام فرماتے ہیں کہ یہاں پر اعمال صالحہ سے مراد اخلاص ہے یعنی جنہوں نے ایمان میں اخلاص پیدا کیا۔ سورة الانعام میں ہے الذین…………بظلم (آیت 83) جو ایمان لائے اور انہوں نے اپنے ایمان میں کفر ، شرک ، یا نفاق کی ملاوٹ نہیں کی بلکہ خالص توحید کو قبول کیا اور تقویٰ اختیار کیا ، تو اگرچہ اعمال میں کوتاہی بھی ہوگی تو اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے معاف فرمادے گا ۔ پھر عمل صالحہ کے ساتھ یہ شرط بھی ہے کہ وہ شریعت مطہرہ کے بتلائے ہوئے طریقے کے مطابق انجام دیا گیا ہو۔ فاتبعون کا یہی مطلب ہے کہ ہر نیک کام حضور ﷺ کے مقررہ طریقے پر کیا جائے۔ اگر ایسا نہیں کریگا تو عمل برباد جائیگا کیونکہ کسی عمل کے متعلق پورے وثوق کے ساتھ نہیں کہا جاسکتا کہ یہ ضروری ہی مقبول ہوگا۔ ہوسکتا ہے کہ اس میں کوئی کوتاہی رہ گئی ہو یا کسی شرط کو پورا نہ کیا ہو ، اس لئے ہر عمل کی موجودگی میں بھی بخشش ومغفرت کی ضرورت ہے۔ جس کا اللہ نے یہاں وعدہ فرمایا ہے۔ باعزت روزی بھی اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی نعمت ہے۔ دنیا میں بسا اوقات روزی غلط طریقے سے حاصل کی جاتی ہے۔ کتنے لوگ ہیں جو جھوٹ ، فریب ، چوری ، ڈاکہ ، رشوت اور سمگلنگ کے ذریعے روزی حاصل کرتے ہیں۔ ایسی روزی باعزت روزی ہرگز نہیں ہوسکتی بلکہ یہ تو ذلت کی روزی ہوگی۔ اس کے برخلاف جنتیوں کو جو روزی ملے گی۔ وہ حلال ، طیب اور بغیر کسی مشقت کے نصیب ہوگی۔ دنیا میں بسا اوقات انسان ایک دوسرے کے دست نگر ہوتے ہیں مگر جنت میں اللہ تعالیٰ بغیر کسی کے احسان کے اپنی رحمت سے رزق عطا فرمائے گا ، اسی کو باعزت روزی کہا گیا ہے۔ آج کل کے محاورہ میں الخبزبالکرامۃ کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے یعنی ہر شخص کو باعزت روزی میسر آنی چاہیے ، مگر یہ صرف نعرہ ہی ہے جب تک دنیا میں ظلم وتعدی کا دور دورہ ہے کسی کو باعزت روٹی نصیب نہیں ہوسکتی۔ یہاں کا نظام معیشت ہی غلط ہے جس کی وجہ سے اکثر ایک دوسرے کی حق تلفی ہوتی ہے۔ بعض اوقات روزی کی خاطر بڑی ذلت برداشت کرنی پڑتی ہے۔ تو ایسے حالات میں باعزت روزی کہاں سے میسر آئیگی ؟ یہ دنیا تو آزمائش کا مقام ہے۔ نہ حکمران طبقہ نظام معیشت کی اصلاح میں مخلص ہے اور نہ دولت مند گروہ کو محتاجوں کا خیال ہے اس لئے اس دنیا میں روزی تو ملتی ہے مگر اکثر تذلیل کے ساتھ اللہ نے فرمایا کہ وہ اپنے نیک بندوں کو جنت میں باعزت روزی عطا فرمائے گا اور یہ بہت بڑا انعام ہوگا۔ آیات الٰہی سے عناد : آگے ارشاد ہے والذین سعوا فی ایتنا معجزین وہ لوگ جو ہماری آیتوں کو نیچا دکھانے یا کمزور کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یعنی جو دین اللہ کی طرف سے اس کے نبی لے کر آئے ہیں ، جو شریعت انہوں نے پیش کی ہے ، وہ تو انہیں پسند نہیں۔ وہ تو اپنی خواہشات اور رسم و رواج کا نظام جاری کرنا چاہتے ہیں ، آج کل مسلمان قوم کا اکثر وبیشتر یہی حال ہے ، زبان سے تو اقرار کرتے ہیں کہ اللہ کا مقرر کردہ نظام ہی برحق ہے۔ مگر عمل میں اس کے خلاف چلتے ہیں۔ وہاں ذاتی مفادات اور مصلحت آڑے آجاتی ہے اور اللہ کا پسندیدہ دین دھرے کا دھرا رہ جاتا ہے۔ یہ تو اللہ کی آیات اور اس کے دین کو مغلوب کرنے والی بات ہے ایسے ہی لوگوں کے متعلق اللہ تعالیٰ نے فرمایا الئک اصحب الجحیم ، کہ یہ لوگ دوزخ والے ہیں۔ یہ عذاب الٰہی سے بچ نہیں سکیں گے دنیا میں بھی ان کو امن و سکون نصیب نہیں ہوگا بلکہ ہمیشہ ظلم وتعدی کا شکار رہیں گے۔ موجودہ زمانے میں یہودیت ، عیسائیت ، اشتراکیت یا کوئی بھی مغربی ازم ہو سب آیات الٰہی کو زیر کرنے والے نظام ہیں۔ ان باطل نظاموں کے حامی مسلمانوں کو بھی اپنے ساتھ شریک کرنا چاہتے ہیں۔ حالانکہ مسلمانوں کو تو بڑی احتیاط سے کام لینا چاہیے۔ اور خلاف قرآن و شریعت کیسی غلط نظام کا شکار نہیں ہونا چاہیے۔ مگر افسوس ہے خود مسلمانوں کی حالت پر جو غیر اقوام سے بھی برائی میں دو قدم آگے ہیں۔ یہ خود مسلمان کہلانے کے باوجودایسی قبیح حرکات کرتے ہیں جن کی وجہ سے لوگ اسلام سے مزید متنفر ہوتے ہیں۔ ہندو بھی اسلام اور مسلمانوں کا ازلی دشمن ہے۔ وہ بھی ان کی تذلیل کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتا۔ آج کل ہندوستان میں قرآنی قوانین کے خلاف تحریک چل رہی ہے۔ کبھی طلاق کے مسئلہ کو اچھا لاجاتا ہے اور کبھی تعداد ازواج کو۔ عیسائی اور یہودی تو روز اول سے ہی چاہتے ہیں کہ مسلمانوں کے دلوں سے ان کے نبی اور قرآن کی محبت نکال دی جائے۔ اشتراکی لوگ اسلامی نظام کو رجعت پسندانہ نظام کہتے ہیں حالانکہ رجعت پسندانہ نظام تو خود کفر ، شرک اور اشتراکیت کا نظام ہے۔ سرمایہ دارانہ اور اشتراکی نظام دونوں مخلوق کے بنائے ہوئے ہیں۔ جب کہ خدا تعالیٰ کی کتاب قرآن میں اس کا عطا کردہ نظام موجود ہے جس کی کوئی شق خلافت فطرت نہیں۔ بہرحال فرمایا کہ جن لوگوں نے ہماری آیتوں کو عاجز کرنے کی کوشش کی ، وہ لامحالہ دوزخ کا شکار ہوں گے۔ آیات الٰہی تو انشاء اللہ قائم رہیں گی ، مگر یہی لوگ جہنم کے کندہ ناتراش بنیں گے۔
Top