Tadabbur-e-Quran - Aal-i-Imraan : 141
وَ لِیُمَحِّصَ اللّٰهُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ یَمْحَقَ الْكٰفِرِیْنَ
وَلِيُمَحِّصَ : اور تاکہ پاک صاف کردے اللّٰهُ : اللہ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا : جو ایمان لائے وَيَمْحَقَ : اور مٹادے الْكٰفِرِيْنَ : کافر (جمع)
اور تاکہ اللہ مومنوں کو چھانٹ کر الگ کردے اور کافروں کو مٹا دے۔
’ تمحیص ‘ کا مفہوم : وَلِيُمَحِّصَ اللّٰهُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا الایۃ میں تمحیص کے معنی کسی چیز کو میل کچیل اور کھوٹ سے بالکل پاک صاف کردینا ہے محص الذھب بالنار کے معنی ہوں گے سونے کو غل و غش اور کھوٹ سے پاک صاف کردیا۔ آیات 139 تا مذکورہ آیت کے الفاظ کی تحقیق کے بعد اب ان آیات کے مطالب ترتیب کے ساتھ ہم پیش کرتے ہیں۔ احد کی شکست سے کمزور قسم کے لوگوں پر جو دل شکستگی طاری ہوئی اس نے بہت سے ذہنوں میں یہ خیال بھی پیدا کردیا کہ اسلام کے لیے فتح و غلبہ کی جو بشارتیں سنائی جاتی رہی ہیں وہ سب بس یوں ہی پا در ہوا باتیں تھیں۔ مقصود ان سے محض اپنی ہوا باندھنا اور لوگوں کو اپنے مقصد کے لیے استعمال کرنا تھا۔ اب ساری حقیقت کھل گئی۔ منافقین اور مخالفین نے موقع غنیمت پا کر اس خیال کو خوب ہوا دی تاکہ مسلمانوں کو اسلام کے مستقبل کی طرف سے بالکل مایوس کردیں۔ قرآن نے یہاں اس پروپیگنڈے کا رد کیا اور مسلمانوں کو اطمینان دلایا کہ احد کے حادثہ سے دل شکستہ اور پست ہمت نہ ہو۔ حق و باطل کی اس کشمکش میں غالب اور سربلند، جیسا کہ اللہ نے فرمایا ہے، تمہی رہو گے بشرطیکہ تم سچے اور پکے مومن بن جاؤ۔ اس کے بعد فرمایا کہ اگر تمہیں کوئی نقصان پہنچ جائے جیسا کہ جنگ احد میں پہنچ گیا تو یہ کوئی مایوس ہوجانے کی بات نہیں ہے۔ تمہارے دشمنوں کو بھی خود اسی جنگ میں اور اس سے پہلے بدر میں کافی چوٹ پہنچ چکی ہے۔ فتح و شکست کے یہ رد و بدل جو ہوتے ہیں خدا کی حکمت کے تحت اور اس کے حکم سے ہوتے ہیں، ان سے یہ نتیجہ نکال لینا جائز نہیں ہے کہ خدا کی سنت میں کوئی تبدیلی ہوگئی ہے اور اب وہ نیکوں کے بجائے بدوں کو ہی پیار کرنے لگا ہے بلکہ اس سے مقصود لوگوں کو جانچنا پرکھنا اور ان کی صلاحیتوں کو ابھارنا ہوتا ہے۔ اسی سے سچے اور کچے، مخلص اور منافق میں امتیاز ہوتا ہے اور حق کے لیے جان کی بازی کھیلنے والے شہدا کو اپنے جوہر دکھانے کا موقع نصیب ہوتا ہے۔ توحید سے مقصود کفر کو مٹانا ہے : پھر فرمایا کہ یہ نہ خیال کرو کہ احد میں اگر قریش کو فتح ہوگئی تو اللہ تعالیٰ اب اہل ایمان کے بجائے ان ظالموں ہی سے محبت کرنے لگا ہے بلکہ درحقیقت یہ بھی اہل کفر کو مٹانے ہی کی ایک تدبیر ہے۔ اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو امتحان کی بھٹی سے گزار کر یہ چاہتا ہے کہ ان کے اندر سے ہر قسم کا کھوٹ نکال کر ان کو بالکل زرِ خالص بنا دے اور کفر واہل کفر سے ان کو چھانٹ کر بالکل الگ کردے۔ اس علیحدگی کے بعد اہل ایمان اس زنجیر سے بالکل آزاد ہوجائیں گے جو ان کی ترقی میں مزاحم ہے اور ساتھ ہی پھر اہل کفر کا مٹ جانا بھی قطعی ہے، کیونکہ اس دنیا میں باطل صرف اسی وقت تک باقی رہ سکتا ہے جب تک اس کو کچھ حق کا سہارا حاصل رہے۔ اگر حق کا سہارا اس سے بالکل ہی چھن جائے تو اس کا نابود ہوجانا یقینی ہوجاتا ہے۔ اس دنیا کو اللہ تعالیٰ نے بالحق پیدا کیا ہے، اس وجہ سے کسی باطل مجرد کی پرورش اس کے مزاج کے بالکل خلاف ہے۔ تمحیص کے ذکر کے بعد یمحق الکفرین سے اسی فلسفہ کی طرف اشارہ مقصود ہے۔ نبی اور اس کے ساتھیوں کی ہجرت کے بعد اہل کفر پر جو عذاب آتا ہے اس میں بھی یہی رمز ہے۔ تفصیل اس کی سورة براءت میں آئے گی۔
Top