Baseerat-e-Quran - Ibrahim : 64
قُلْ یٰۤاَهْلَ الْكِتٰبِ تَعَالَوْا اِلٰى كَلِمَةٍ سَوَآءٍۭ بَیْنَنَا وَ بَیْنَكُمْ اَلَّا نَعْبُدَ اِلَّا اللّٰهَ وَ لَا نُشْرِكَ بِهٖ شَیْئًا وَّ لَا یَتَّخِذَ بَعْضُنَا بَعْضًا اَرْبَابًا مِّنْ دُوْنِ اللّٰهِ١ؕ فَاِنْ تَوَلَّوْا فَقُوْلُوا اشْهَدُوْا بِاَنَّا مُسْلِمُوْنَ
قُلْ : آپ کہ دیں يٰٓاَھْلَ الْكِتٰبِ : اے اہل کتاب تَعَالَوْا : آؤ اِلٰى : طرف (پر) كَلِمَةٍ : ایک بات سَوَآءٍ : برابر بَيْنَنَا : ہمارے درمیان وَبَيْنَكُمْ : اور تمہارے درمیان اَلَّا نَعْبُدَ : کہ نہ ہم عبادت کریں اِلَّا : سوائے اللّٰهَ : اللہ وَلَا نُشْرِكَ : اور نہ ہم شریک کریں بِهٖ : اس کے ساتھ شَيْئًا : کچھ وَّلَا يَتَّخِذَ : اور نہ بنائے بَعْضُنَا : ہم میں سے کوئی بَعْضًا : کسی کو اَرْبَابًا : رب (جمع) مِّنْ دُوْنِ : سوائے اللّٰهِ : اللہ فَاِنْ : پھر اگر تَوَلَّوْا : وہ پھرجائیں فَقُوْلُوا : تو کہ دو تم اشْهَدُوْا : تم گواہ رہو بِاَنَّا : کہ ہم مُسْلِمُوْنَ : مسلم (فرمانبردار)
(اے نبی ﷺ کہہ دیجیے : اے اہل کتاب ! آؤ ایک ایسی بات کی طرف جو ہمارے اور تمہارے درمیان بالکل برابر ہے کہ ہم اللہ کے سوا کسی کی بندگی نہ کریں اور اس کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ ٹھہرائیں اور نہ ہم میں سے کوئی ایک دوسرے کو اللہ کے سوا رب ٹھہرائے پھر اگر وہ منہ موڑ لیں تو (اے مسلمانو !) تم کہو آپ لوگ گواہ رہیں کہ ہم تو مسلمان ہیں
سورة آل عمران کے نصف اوّل کا تیسرا حصہ 38 آیات 64 تا 101 پر مشتمل ہے اور یہ سورة البقرۃ کے نصفِ اوّل کے تیسرے حصے رکوع 15 تا 18 سے بہت مشابہ ہے جن میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کا ذکر ‘ بیت اللہ کا ذکر ‘ اہل کتاب کو دعوت ایمان اور تحویل قبلہ کا حکم ہے۔ کم و بیش وہی کیفیت یہاں ملتی ہے۔ فرمایا : آیت 64 قُلْ یٰٓاَہْلَ الْکِتٰبِ تَعَالَوْا اِلٰی کَلِمَۃٍ سَوَآءٍم بَیْنَنَا وَبَیْنَکُمْ یہاں اہل کتاب کے صیغۂ خطاب میں یہود و نصاریٰ دونوں کو جمع کرلیا گیا ‘ جبکہ سورة البقرۃ میں یٰبَنِیْ اِسْرَآءِ ‘ یْلَ کے صیغۂ خطاب میں زیادہ تر گفتگو یہود سے تھی۔ یہاں ابھی تک حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا تذکرہ تھا اور گویا صرف نصرانیوں سے خطاب تھا ‘ اب اہل کتاب دونوں کے دونوں مخاطب ہیں کہ ایک ایسی بات کی طرف آؤ جو ہمارے اور تمہارے مابین یکساں مشترک اور متفق علیہ ہے۔ وہ کیا ہے ؟ اَلاَّ نَعْبُدَ الاَّ اللّٰہَ وَلاَ نُشْرِکَ بِہٖ شَیْءًا وَّلاَ یَتَّخِذَ بَعْضُنَا بَعْضًا اَرْبَابًا مِّنْ دُوْنِ اللّٰہِ ط یہود و نصاریٰ نے اپنے احبارو رہبان کا یہ اختیار تسلیم کرلیا تھا کہ وہ جس چیز کو چاہیں حلال قرار دے دیں اور جس چیز کو چاہیں حرام ٹھہرا دیں۔ یہ گویا ان کو رب مان لینے کے مترادف ہے۔ جیسا کہ سورة التوبۃ میں فرمایا گیا : اِتَّخَذُوْا اَحْبَارَھُمْ وَرُھْبَانَھُمْ اَرْبَابًا مِّنْ دُوْنِ اللّٰہِ آیت 31۔ مشہور سخی حاتم طائی کے بیٹے عدی بن حاتم رض جو پہلے عیسائی تھے ایک مرتبہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ قرآن کہتا ہے : انہوں نے اپنے احبارو رہبان کو اللہ کے سوا اپنا رب بنا لیا۔ حالانکہ ہم نے تو انہیں رب کا درجہ نہیں دیا۔ اس پر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : أَمَا اِنَّھُمْ لَمْ یَکُوْنُوْا یَعْبُدُوْنَھُمْ وَلٰکِنَّھُمْ اِذَا اَحَلُّوْا لَھُمْ شَیْءًا اسْتَحَلُّوْہُ وَاِذَا حَرَّمُوْا عَلَیْھِمْ شَیْءًا حَرَّمُوْہُ 1 وہ ان کی عبادت تو نہیں کرتے تھے ‘ لیکن جب وہ ان کے لیے کسی شے کو حلال قرار دیتے تو وہ اسے حلال مان لیتے اور جب وہ کسی شے کو حرام قرار دے دیتے تو وہ اسے حرام مان لیتے۔ چنانچہ حلت و حرمت کا اختیار صرف اللہ کا ہے ‘ اور جو کوئی اس حق کو اختیار کرتا ہے وہ گویا رب ہونے کا دعویٰ کرتا ہے۔ اب یہ ساری قانون سازی جو شریعت کے خلاف کی جا رہی ہے یہ حقیقت کے اعتبار سے ان لوگوں کی جانب سے خدائی کا دعویٰ ہے جو ان قانون ساز اداروں میں بیٹھے ہوئے ہیں ‘ اور جو وہاں پہنچنے کے لیے بےتاب ہوتے ہیں اور اس کے لیے کروڑوں روپیہ خرچ کرتے ہیں۔ اگر تو پہلے سے یہ طے ہوجائے کہ کوئی قانون سازی کتاب و سنت کے منافی نہیں ہوسکتی تو پھر آپ جایئے اور وہاں جا کر قرآن و سنت کے دائرے کے اندر اندر قانون سازی کیجیے۔ لیکن اگر یہ تحدید نہیں ہے اور محض اکثریت کی بنیاد پر قانون سازی ہو رہی ہے تو یہ شرک ہے۔ اہل کتاب سے کہا گیا کہ توحید ہمارے اور تمہارے درمیان مشترک عقیدہ ہے۔ اس طرح انہیں غور و فکر کی دعوت دی گئی کہ وہ موازنہ کریں کہ اس قدر مشترک کے معیار پر اسلام پورا اترتا ہے یا یہودیت اور نصرانیت ؟ فَاِنْ تَوَلَّوْا فَقُوْلُوا اشْہَدُوْا بِاَنَّا مُسْلِمُوْنَ ۔ ہم نے تو اللہ کی اطاعت قبول کرلی ہے اور ہم متذکرہ بالا تینوں باتوں پر قائم رہیں گے۔ آپ کو اگر یہ پسند نہیں تو آپ کی مرضی !
Top