Maarif-ul-Quran - Aal-i-Imraan : 64
قُلْ یٰۤاَهْلَ الْكِتٰبِ تَعَالَوْا اِلٰى كَلِمَةٍ سَوَآءٍۭ بَیْنَنَا وَ بَیْنَكُمْ اَلَّا نَعْبُدَ اِلَّا اللّٰهَ وَ لَا نُشْرِكَ بِهٖ شَیْئًا وَّ لَا یَتَّخِذَ بَعْضُنَا بَعْضًا اَرْبَابًا مِّنْ دُوْنِ اللّٰهِ١ؕ فَاِنْ تَوَلَّوْا فَقُوْلُوا اشْهَدُوْا بِاَنَّا مُسْلِمُوْنَ
قُلْ : آپ کہ دیں يٰٓاَھْلَ الْكِتٰبِ : اے اہل کتاب تَعَالَوْا : آؤ اِلٰى : طرف (پر) كَلِمَةٍ : ایک بات سَوَآءٍ : برابر بَيْنَنَا : ہمارے درمیان وَبَيْنَكُمْ : اور تمہارے درمیان اَلَّا نَعْبُدَ : کہ نہ ہم عبادت کریں اِلَّا : سوائے اللّٰهَ : اللہ وَلَا نُشْرِكَ : اور نہ ہم شریک کریں بِهٖ : اس کے ساتھ شَيْئًا : کچھ وَّلَا يَتَّخِذَ : اور نہ بنائے بَعْضُنَا : ہم میں سے کوئی بَعْضًا : کسی کو اَرْبَابًا : رب (جمع) مِّنْ دُوْنِ : سوائے اللّٰهِ : اللہ فَاِنْ : پھر اگر تَوَلَّوْا : وہ پھرجائیں فَقُوْلُوا : تو کہ دو تم اشْهَدُوْا : تم گواہ رہو بِاَنَّا : کہ ہم مُسْلِمُوْنَ : مسلم (فرمانبردار)
تو کہہ اے اہل کتاب آؤ ایک بات کی طرف جو برابر ہے ہم میں اور تم میں کہ بندگی نہ کریں مگر اللہ کی اور شریک نہ ٹھہراویں اس کا کسی کو اور نہ بناوے کوئی کسی کو رب سوائے اللہ کے پھر اگر وہ قبول نہ کریں تو کہہ دو گواہ رہو کہ ہم تو حکم کے تابع ہیں۔
خلاصہ تفسیر
(اے محمد ﷺ آپ فرمادیجیے کہ اے اہل کتاب آؤ ایک ایسی بات کی طرف جو کہ ہمارے اور تمہارے درمیان (مسلم ہونے میں) برابر ہے (وہ) یہ (ہے) کہ بجز اللہ تعالیٰ کے ہم کسی اور کی عبادت نہ کریں اور اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائیں، اور ہم میں سے کوئی کسی دوسرے کو رب قرار نہ دے اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر پھر اگر (اس کے بعد بھی) وہ لوگ (حق سے) اعراض کریں تو تم (مسلمان) لوگ کہہ دو کہ تم (ہمارے) اس (اقرار) کے گواہ رہو کہ ہم تو (اس بات کے) ماننے والے ہیں (اگر تم نہ مانو تو تم جانو)۔
معارف و مسائل
تبلیغ و دعوت کے اہم اصول(تعالوا الی کلمۃ سواء بیننا وبینکم) اس آیت سے تبلیغ و دعوت کا ایک اہم اصول معلوم ہوتا ہے، وہ یہ کہ اگر کوئی شخص کسی ایسی جماعت کو دعوت دینے کا خواہش مند ہو جو عقائد و نظریات میں اس سے مختلف ہو تو اس کا طریقہ یہ ہے کہ مخالف العقیدہ جماعت کو صرف اسی چیز پر جمع ہونے کی دعوت دی جائے جس پر دونوں کا اتفاق ہوسکتا ہو، جیسے رسول اللہ ﷺ نے جب روم کے بادشاہ ہرقل کو اسلام کی دعوت دی تو ایسے مسئلہ کی طرف دی جس پر دونوں کا اتفاق تھا، یعنی اللہ تعالیٰ کی وحدانیت پر، وہ دعوت نامہ ذیل میں نقل کیا جاتا ہے
بسم اللہ الرحمن الرحیم، من محمد عبداللہ و رسولہ الی ھرقل عظیم الروم، سلام علی من اتبع الھدی، اما بعد ! فانی ادعوک بدعایۃ الاسلام اسلم تسلم یوتک اللہ اجرک مرتین فان تولیت فان علیک اثم الیریسین، یاھل الکتاب تعالوا الی کلمۃ سواء بیننا وبینکم الا نعبد الا اللہ ولا نشرک بہ شیئا ولا یتخذ بعضنا بعضا اربابا من دون اللہ۔ (بخاری) " میں شروع کرتا ہوں اللہ کے نام سے جو نہایت مہربان اور رحم کرنے والا ہے۔ یہ خط محمد ﷺ اللہ کے بندے اور اس کے رسول کی جانب سے، روم کے بادشاہ ہرقل کی جانب ہے۔ سلامتی ہو اس شخص کے لئے جو راہ ہدایت کی پیروی کرے بعد اس کے میں تجھے اسلام کے بلاوے کی طرف دعوت دیتا ہوں، اسلام لا تو سلمات رہے گا، اور اللہ تعالیٰ تجھ کو دوہرا اجر دے گا، اور اگر تو اعراض کرے گا تو تجھ پر ان سب کسانوں کا وبال ہوگا جو تیری رعایا ہیں، اے اہل کتاب ! ایک ایسی بات پر آکر جمع ہوجاؤ جو ہم اور تم دونوں میں برابر ہے، یہ کہ ہم سوائے اللہ کے کسی کی عبادت نہ کریں اور نہ اس کے ساتھ شریک کریں اور نہ ہم اللہ کو چھوڑ کر آپس میں اپنوں کو رب بنائیں۔
(فقولو اشھدوا بانا مسلمون) اس آیت میں جو یہ کہا گیا کہ تم گواہ رہو، اس سے تعلیم دی گئی ہے کہ جب دلائل واضح ہونے کے بعد بھی کوئی حق کو نہ مانے تو اتمام حجت کے لئے اپنا مسلک ظاہر کر کے کلام ختم کردینا چاہئے، مزید بحث و تکرار کرنا مناسب نہیں ہے۔
Top