Maarif-ul-Quran (En) - Aal-i-Imraan : 65
قُلْ یٰۤاَهْلَ الْكِتٰبِ تَعَالَوْا اِلٰى كَلِمَةٍ سَوَآءٍۭ بَیْنَنَا وَ بَیْنَكُمْ اَلَّا نَعْبُدَ اِلَّا اللّٰهَ وَ لَا نُشْرِكَ بِهٖ شَیْئًا وَّ لَا یَتَّخِذَ بَعْضُنَا بَعْضًا اَرْبَابًا مِّنْ دُوْنِ اللّٰهِ١ؕ فَاِنْ تَوَلَّوْا فَقُوْلُوا اشْهَدُوْا بِاَنَّا مُسْلِمُوْنَ
ان سے کہ اے کتاب والو یہود اور نصایٰ ایسی بات پر آجاؤ جو برابر مانی جاتی ہے ہم میں اور تم میں یعنی ہم سوا خدا کے کسی اور کو نہ پوجیں ج اور للہ کا شریک کی چیز کو نہ بنائیں اور ہم آپس میں ایک دوسرے کر رب نہ بنائیں اللہ ہی کو رب سمجھیں پھر اگر وہ اتنا سمجھا نے پر بھی3 نہ مانیں تو تم اے مسلمانو اور پیمبر کہ دو تم گواہ ہو ہم تو ایک خدا کے تابعدار ہیں4
3 یعنی اہل کتاب کو اس مشترکہ عقیدہ کی طرف دعوت دو ۔ ، چناچہ آنحضرت ﷺ نے جب ہرقل (شاہ روم) کو خط لکھا تو یہی آیت لکھ کر اس کے سامنے دعوت اسلام پیش کی جیسا کہ صحیح بخاری میں مذکور ہے۔ اور مدینہ کے یہود کے سامنے بی اسی کلمہ سوائ کی دعوت پیش کی اور آپس میں ایک دوسرے کو رب بنانے کے مفہوم میں سجدہ کرنا بھی شامل ہے۔ ، اور یہ بھی کہ کسی کے قول کو بلاد لیل اسی طرح مان لینا کہ جس چیز کو حلال کہے اسے حلال سمجھا جائے اور جس چیز کو حرام کہے اسے حرام خیال کیا جائے اور کتاب وسنت سے صرف نظر کرلی جائے۔ مزید دیکھئے۔ التو بہ آیت :31 ۔ (شوکانی۔ وحیدی بتصرف) حاٖفظ ابن کثیر (رح) نے اس آیت پر ایک اشکال پیش کیا ہے اور وہ یہ کہ محمد بن اسحاق نے اس آیت کے مطابق اگر آل عمران کی ابتدائی 83 آیتوں کا سبب نزول وفد نجران کی آمد کو قرار دیا جائے جو بالا تفاق 5 ھ میں مدینہ آیا تو پھر آپ ﷺ نے ہرقل کی طرف یہ آیت کیسے لکھ کر بھیج دی جو 7 ھ کا واقعہ ہے۔ پھر اس کے چار حل پیش کیے ہیں۔ فی الجملہ یہ کہ آیت 1 کا نزول دو مرتبہ تسلیم کیا جائے یا 2 38 آیتوں کی تعین کو محمد بن اسحاق کا وہم قرار دیا جائے۔ آنحضرت ﷺ نے دعوت اسلام کے لیے یہ جملے اپنے طور پر لکھ کر بھیجے ہوں۔ بعد میں یہ آیت اس کے مطابق نازل ہوئی ہوجیسا کہ بہت سے آیات حضرت عمر ؓ کے موافق نازل ہوئیں۔ ہوسکتا ہے کہ وفد نجران کی آمد صلح حدیبیہ سے قبل ہو۔ (ابن کثیر)4 یعنی اگر اہل کتاب اس عقیدہ کے ماننے سے انحراف کریں تو تم اپنی طرف سے عقیدہ پر قائم رہنے کا اعلان کردو۔ اس میں متتبہ کیا ہے کہ اہل کتاب اس عقیدہ سے منحرف ہوچکے ہیں کیونکہ انہوں نے حضرت عزیر ( علیہ السلام) اور حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) کو اللہ تعالیٰ کے بیٹے قرردے لیا تھا۔ (ابن کثیر۔ )
Top