Tafseer-e-Madani - An-Nisaa : 120
یَعِدُهُمْ وَ یُمَنِّیْهِمْ١ؕ وَ مَا یَعِدُهُمُ الشَّیْطٰنُ اِلَّا غُرُوْرًا
يَعِدُھُمْ : وہ ان کو وعدہ دیتا ہے وَيُمَنِّيْهِمْ : اور انہیں امید دلاتا ہے وَمَا يَعِدُھُمُ : اور انہیں وعدے نہیں دیتا الشَّيْطٰنُ : شیطان اِلَّا : مگر غُرُوْرًا : صرف فریب
وہ ان سے (جھوٹے) وعدے کرتا، اور ان کو طرح طرح کی امیدیں دلاتا ہے اور شیطان ان سے وعدے نہیں کرتا مگر محض دھوکے (اور فریب) کے،
308 شیطان کا کام جھوٹے وعدے کرنا، اور بےبنیاد امیدیں دلانا : سو ارشاد فرمایا گیا کہ شیطان ان سے جھوٹے وعدے کرتا اور ان کو طرح طرح کی امیدیں دلاتا ہے کہ بس جی یہ دنیا ہی سب کچھ ہے۔ اسی کے مزے جس نے لوٹ لئے اس نے سب کچھ پا لیا۔ اور آخرت واخرت کچھ نہیں۔ یہ ایسے ہی دلوں کو خوش کرنے والی باتیں اور بھلاوے و خام خیالیاں ہیں۔ جن میں پڑ کر دنیاوی عیش و عشرت اور یہاں کی لذتوں کا مزہ بھی کر کرا ہوجاتا ہے۔ اور اگر کوئی قیامت ویامت ہوئی بھی تو تم کسی کا لڑ پکڑ لو۔ اور فلاں فلاں سرکار میں سے کسی کے غلام بن جاؤ۔ بس وہ تمہارے سب کام خود کرا دے گی۔ اور یہ کہ ابھی بڑی لمبی عمر پڑی ہے۔ آخر میں جا کر توبہ کر کے سب کچھ بخشوا لینا اور نیک و صالح انسان بن جانا۔ ابھی سے ایسی نادیدہ اور ان دیکھی شئی کے خوف میں مبتلا ہو کر اپنی عیاشیوں اور عیش کوشیوں کو چھوڑ دینے کی کیا ضرورت ہے وغیرہ وغیرہ۔ یہاں تک کہ اسی طرح کے شیطانی دھوکوں میں پڑ کر اور اس کی ان فریب کاریوں کے جال میں پھنس کر فرصت عمر تمام ہوجاتی ہے اور انسان خالی ہاتھ اپنی آخرت کو لوٹ کر وہاں کے دائمی اور ہولناک خسارے میں مبتلا ہوجاتا ہے ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ 309 شیطان کے وعدے محض دھوکہ : سو ارشاد فرمایا گیا کہ شیطان ان سے وعدے نہیں کرتا مگر محض دھوکے کے۔ جن کا ظاہر تو بڑا خوبصورت اور دلربا ہوتا ہے، مگر ان کا باطن سراسر مکر و فریب ہوتا ہے۔ مگر لوگ شیطان کی دھوکہ دہی اور ملمع سازی کی بناء پر ان میں مبتلا ہوجاتے ہیں اور اس طرح وہ ہولناک خسارے سے دوچار ہوجاتے ہیں ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ اس لئے دین حنیف کی تعلیمات مقدسہ طرح طرح سے اس سے متنبہ اور خبردار کرتی ہیں کہ کہیں تم لوگ تلبیس ابلیس کے اس دام ہمرنگ زمین میں پھنس کر اپنی دنیا و آخرت کو تباہ نہیں کردینا۔ اور لوگوں کو یہ دھوکہ ایک طرف تو دنیا کی چمک دمک اور اس کی مادی اور ظاہری چکا چوند سے لگتا ہے اور دوسری طرف تلبیس ابلیس اور القائ شیطانی کی باطنی تغریر لگتا ہے۔ اس لئے قرآن حکیم ان دونوں سے جابجا اور طرح طرح سے خبردار کرتا ہے۔ مثلاً سورة لقمان میں ارشاد فرمایا گیا { اِنَّ وَعْدَ اللّٰہ حَقٌّ فَلَا تَغُرََّنَّکُمُ الْحَیَاۃَ الدُّنْیَا وَلَا یَغُرَّنَّکُمْ باللّٰہ الْغَرُوْر } (اللقمان : 33)
Top