Tafseer-e-Baghwi - Al-A'raaf : 9
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَوْفُوْا بِالْعُقُوْدِ١ؕ۬ اُحِلَّتْ لَكُمْ بَهِیْمَةُ الْاَنْعَامِ اِلَّا مَا یُتْلٰى عَلَیْكُمْ غَیْرَ مُحِلِّی الصَّیْدِ وَ اَنْتُمْ حُرُمٌ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ یَحْكُمُ مَا یُرِیْدُ
يٰٓاَيُّھَا : اے الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا : جو لوگ ایمان لائے (ایمان والے) اَوْفُوْا : پورا کرو بِالْعُقُوْدِ : عہد۔ قول اُحِلَّتْ لَكُمْ : حلال کیے گئے تمہارے لیے بَهِيْمَةُ : چوپائے الْاَنْعَامِ : مویشی اِلَّا : سوائے مَا : جو يُتْلٰى عَلَيْكُمْ : پڑھے جائینگے (سنائے جائینگے تمہیں غَيْرَ : مگر مُحِلِّي الصَّيْدِ : حلال جانے ہوئے شکار وَاَنْتُمْ : جبکہ تم حُرُمٌ : احرام میں ہو اِنَّ اللّٰهَ : بیشک اللہ يَحْكُمُ : حکم کرتا ہے مَا يُرِيْدُ : جو چاہے
اے ایمان والو ! اپنے اقراروں کو پورا کرو۔ تمہارے لئے چار پائے جانور ( جو چرنے والے ہیں) حلال کردیے گئے بجز انکے جو تمہیں پڑھ کر سنائے جاتے ہیں۔ مگر احرام (حج) میں شکار کو حلال نہ جاننا۔ خدا جیسا چاہتا ہے حکم دیتا ہے۔
آیت نمبر 1 تفسیر : اللہ تعالیٰ کا فرمان ( یایھا الذین امنوا اوفوابالعقود) عہد کو پورا کرو۔ امام زجاج (رح) فرماتے ہیں۔ عقود پختہ ترین عہد کو کہتے ہیں۔ عرب کے محاورات میں کہا جاتا ہے ” عاقدت فلانا و عقدت علیہ “ یعنی میں نے فلاں کو ازسرنو یہ (معاہدہ) لازم کیا اور اس (عقود) کی اصل یہ ہے کہ ایک شک کو دوسری کے ساتھ گرہ لگاکر جوڑ دینا جیسا کہ رسی کو رسی کے ساتھ گرہ لگا کر جوڑا جاتا ہے۔ اوفوابالعقود کی تفسیر۔ عقود (جو آیت میں مذکور ہیں ) کی تعیین میں مفسرین کے مختلف اقوامل ہیں۔ ابن جریج (رح) فرماتے ہیں یہ خطاب اہل کتاب کو ہے۔ مطلب آیت کا یہ ہے کہ ” اے وہ لوگو ! جو پہلی کتب پر ایمان لائے ان عہدوں کو پورا کرو جو میں نے تم سے محمد ﷺ کے بارے میں کیے اور وہ (عہد جو یہود سے کیا گیا) “ اللہ تعالیٰ کا فرمان ” واذاخذاللہ میثاق الذین اوتوا الکتاب الایۃ “ میں ہے۔ اور دیگر مفسرین رحمہما اللہ فرماتے ہیں آیت میں عقود کا لفظ عام ہے ( یعنی ہر معاہدہ دنیاوی و اخروی مراد ہے) اور حضرت قتادہ (رح) فرماتے ہیں اللہ تعالیٰ نے اس (ایفاء عقود) سے وہ قسمیں مراد لی ہیں جو یہ لوگ زمانہ جاہلیت میں کرتے تھے۔ حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ فرماتے ہیں کہ اس سے مراد ایمان اور قرآن کے عہد ہیں اور بعض حضرات کی طرف سے یہ کہا گیا ہے کہ آیت میں ” اوفوا بالعقود “ سے مراد وہ معاہدے ہیں جو لوگ آپس میں کرتے ہیں۔ بھیمۃ الانعام کی وضاحت (احلت لکم بھیمۃ الانعام) حضرت حسن اور قتادہ رحمہما اللہ فرماتے ہیں کہ یہ ” بھیمۃ الانعام “ سے مراد تمام چوپائے ہیں یعنی اونٹ ، گائے، بکری اور اللہ تعالیٰ کی مراد ان تمام جانوروں کو حلال کرنا ہے جو اہل جاہلیت نے اپنے اوپر حرام کیے ہوئے تھے۔ ابوظبیان (رح) نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ وہ ” بھیمۃ الانعام “ سے مراد جنین ہیں (یعنی جانوروں کے وہ بچے جن کے اعضاء مکمل ہوں اور ان کی ولادت سے قبل ماں فوت ہوجائے) ۔ اور اسی کی مثل حضرت شعبی (رح) سے منقول ہے۔ وہ فرماتے ہیں کہ ” بھیمۃ الانعام “ سے مراد وہ بچے ہیں جن کی والدہ کو جب ذبح یانحر کیا جائے تو وہ مردہ حالت میں ماں کے پیٹ میں ہوں۔ اکثر اہل علم اس بچہ کے حلال ہونے کے قائل ہیں۔ حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے ، وہ فرماتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ ﷺ کو عرض کیا یا رسول اللہ (ﷺ) ہم اونٹنی کو نحر کرتے ہیں اور گائے کو ذبح کرتے ہیں تو ہم ان کے پیٹ میں مردہ بچہ پاتے ہیں کیا ہم اس بچہ کو کسی گڑھے میں ڈال دیں یا کھالیں ؟ تو آپ (علیہ السلام) نے فرمایا اگر تمہارا دل چاہے تو اس بچہ کو بھی کھالو کیونکہ اس کی ماں کا ذبح کرنا اس بچہ کو ذبح کرنا ہے۔ (ابودائود، کتاب الاضاحی، الترمذی کتاب الصید) اور ابوالزبیر (رح) نے حضرت جابر ؓ سے روایت کیا ہے وہ حضور ﷺ کا قول نقل کرتے ہیں کہ جنین کا ذبح اس کی ماں کا ذبح ہے اور بعض حضرات نے جنین کے حلال ہونے کے لیے اس کے بال نکلنا شرط قرار دیا ہے۔ ابن عمر ؓ فرماتے ہیں کہ مادہ جانور کا ذبح اس کے پیٹ کے بچہ کو اس وقت کافی ہوگا جب اس بچہ کے اعضاء مکمل ہوچکے ہوں اور جسم پر بال آچکے ہوں اور حضرت سعید بن المسیب سے بھی اسی کی مثل روایت ہے۔ اور امام اعظم ابوحنیفہ (رح) کے نزدیک مادہ جانور کے ذبح ہونے کے بعد جب اس کا مردہ بچہ نکلے تو اس کا کھانا حلال نہیں ہے۔ اور کلبی (رح) فرماتے ہیں ” بھیمۃ الانعام “ سے جنگلی جانور مراد ہیں جیسے ہرن، نیل گائے ، جنگلی گدھا، جنگلی جانوروں کو ” بھیمۃ “ اس وجہ سے کہکتے ہیں کہ ان کی پہچان پوشیدہ ہے اور بعض نے وجہ تسمیہ یہ بیان کی کہ ان کو قوت گویائی حاصل نہیں ہے۔ (الامایتلیٰ علیکم)… ” مایتلیٰ علیکم “ سے مراد وہ جانور ہیں جو آیت ” حرمت علیکم المیتۃ “ میں ” وما ذبح علی النصب “ تک بیان کیے گئے ہیں۔ ( غیر محلی الصید) یہ حال ہونے کی وجہ سے منصوب ہے۔ آیت کا معنی یہ ہے کہ ” تمہارے لیے تمام چوپائے حلال کیے گئے ہیں ۔ سوائے جنگلی جانوروں کے کیونکہ یہ شکار ہونے کی وجہ سے حالت احرام میں تمہارے لیے حلال نہیں ہیں۔ “ اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کی وجہ سے وانتم حرم ان اللہ یحکم مایرید۔
Top