Tafseer-e-Baghwi - Al-Maaida : 53
وَ یَقُوْلُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَهٰۤؤُلَآءِ الَّذِیْنَ اَقْسَمُوْا بِاللّٰهِ جَهْدَ اَیْمَانِهِمْ١ۙ اِنَّهُمْ لَمَعَكُمْ١ؕ حَبِطَتْ اَعْمَالُهُمْ فَاَصْبَحُوْا خٰسِرِیْنَ
وَيَقُوْلُ : اور کہتے ہیں الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا : جو لوگ ایمان لائے (مومن) اَهٰٓؤُلَآءِ : کیا یہ وہی ہیں الَّذِيْنَ : جو لوگ اَقْسَمُوْا : قسمیں کھاتے تھے بِاللّٰهِ : اللہ کی جَهْدَ : پکی اَيْمَانِهِمْ : اپنی قسمیں اِنَّهُمْ : کہ وہ لَمَعَكُمْ : تمہارے ساتھ حَبِطَتْ : اکارت گئے اَعْمَالُهُمْ : ان کے عمل فَاَصْبَحُوْا : پس رہ گئے خٰسِرِيْنَ : نقصان اٹھانے والے
اور (اس وقت) مسلمان (تعجب سے) کہیں گے کہ کیا یہ وہی ہیں جو خدا کی سخت سخت قسمیں کھایا کرتے تھے کہ ہم تمہارے ساتھ ہیں ان کے عمل اکارت گئے اور وہ خسارے میں پڑگئے۔
آیت نمبر 54, 53 تفسیر :(و) اور اس وقت (یقول الذین امنوا کہتے ہیں مسلمان) اہل کوفہ نے ” ویقول “ کو وائو کے ساتھ اور لام کے رفع سے پڑھا ہے کہ یہ نیا جملہ ہے اور اہل بصرہ نے وائو کے ساتھ اور لام کے نصب کے ساتھ پڑھا ہے کہ اس کا عطف ” ان یاتی “ پر ہے۔ معنی یہ ہوگا کہ قریب ہے کہ مومن لوگ یہ بات کہیں گے اور باقی حضرات وائو کو حذف کرکے لام کے پیش کے ساتھ پڑھا ہے اور اہل عالیہ کے مصاحف میں بھی اسی طرح لکھا ہوا ہے۔ اس صورت میں حرف عطف کی ضرورت نہیں کیونکہ یہ آیت اپنے ماقبل سے متصل ہے یعنی جس وقت اللہ تعالیٰ منافقین کا نفاق ظاہر کریں گے اس وقت مومنین کہیں گے (اھولاء الذین اقسموا باللہ جھد ایمانھم کیا یہ وہی لوگ ہیں جو قسمیں کھاتے تھے اللہ کی تاکید سے) یعنی پختہ قسمیں کھائیں (انھم لمعکم کہ وہ تمہارے ساتھ ہیں ) یعنی وہ مومنین ہیں یعنی اس دن مومن ان کے جھوٹ اور باطل قسموں سے تعجب کریں گے (حبطت اعمالھم برباد گئے ان کے عمل) جو نیک اعمال انہوں نے کیے وہ باطل ہوگئے (فاصبحوا خاسرین پھر رہ گئے نقصان میں ) رسوائی کی وجہ سے دنیا کا نقصان ہوا اور عذاب اور ثواب ختم ہونے کی سے اخرت کا۔ (یایھا الذین امنوا میں یرتد منکم عن دینہ فسوف یاتی اللہ بقوم یحیھم ویحبونۃ اے ایمان والو ! جو کوئی تم میں پھرے گا اپنے دین سے تو اللہ عنقریب لائے گا ایسی قوم کو کہ اللہ ان کو چاہتا ہے اور وہ اس کو چاہتے ہیں) اہل مدینہ اور شام ” یرتدد “ پڑھا ہے دو دال کے ساتھ (اپنے دین سے) پس کفر کی طرف لوٹ جائے۔ حسن فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں ایک ایسی قوم کی خبردی جو نبی کریم ﷺ کے بع اپنے دین سے پھر جائے گی اور اللہ تعالیٰ ان کے بدلے ایسی قوم لائیں گے جن کو اللہ چاہتا ہے اور وہ اللہ کو۔ یاتی اللہ بقوم یحبھم ویحبونہ کی تفسیر۔ اس سے کون سی قوم مراد ہے ؟ اس میں اختلاف ہے۔ حضرت علی ؓ ، حسن ، قتادہ رحمہما اللہ فرماتے ہیں کہ یہ پسندیدہ قوم حضرت ابوبکر ؓ اور ان کے وہ ساتھی ہیں جنہوں نے مرتدین اور زکوٰۃ نہ دینے والوں کے خلاف جہاد کیا۔ اس جہاد کا پس منظر یہ ہے کہ نبی کریم ﷺ کی رحلت کے بعد مکہ ، مدینہ اور بحرین کے قبیلہ عبدالقیس کے علاوہ اکثر عرب مرتد ہوگئے اور بعض نے زکوٰۃ دینے سے انکار کردیا تو حضرت ابوبکر ؓ نے ان سے قتال کا ارادہ کیا تو صحابہ کرام ؓ کو یہ بات ناگوار گزری اور حضرت عمر ؓ نے کہا کہ ہم ان سے لڑائی کیسے کرسکتے ہیں جبکہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا مجھے حکم دیا گیا ہے کہ لوگوں سے ” لاالہ الا اللہ “ کہنے تک قتال کروں جس نے ” لاالہ الا اللہ “ کہہ دیا تو مجھ سے اپنا مال اور جان بچا لیا مگر اس کے حق کے ساتھ اور اس کا حساب اللہ تعالیٰ پر ہے تو حضرت ابوبک صدیق ؓ نے فرمایا جس نے نماز اور زکوٰۃ میں فرق کیا اللہ کی قسم میں اس سے قتال کروں گا کیونکہ زکوٰۃ مال کا حق ہے۔ اللہ کی قسم اگر وہ مجھے بکری کا بچہ نہ دیں گے جو رسول اللہ ﷺ کو دیتے تھے تو میں اس کے نہ دینے کی وجہ سے ان سے قتال کروں گا۔ حضرت انس ؓ فرماتے ہیں کہ صحابہ کرام ؓ نے زکوٰۃ دینے والوں کے قتال کو ناپسند سمجھا اور کہا کہ یہ اہل قبلہ ہیں تو حضرت ابوبکر صدیق ؓ اپنی تلوار گلے میں ڈال کر تنہا نکل کھڑے ہوئے تو صحابہ کرام ؓ کے پاس ان کے ساتھ جانے کے علاوہ کوئی چارہ نہ بچا۔ ابن مسعود ؓ فرماتے ہیں ابتداء میں ہم نے اس بات کو ناپسند سمجھا پھر بعد میں اسی کام کی وجہ سے حضرت ابوبکر صدیق ؓ کی خوب تعریف کی۔ ابوبکر بن عیاش فرماتے ہیں کہ میں نے ابوحصین کو یہ کہتے سنان کہ انبیاء (علیہم السلام) کے بعد حضرت ابوبکر ؓ سے افضل کوئی پیدا نہیں ہوا۔ تحقیق انہوں نے مرتدین کے قتال میں انبیاء عہلیم السلام والی جرأت و حوصلہ دکھایا۔ نبی کریم ﷺ کی حیات مبارکہ میں تین جماعتیں مرتد ہوگئی تھیں۔ پہلا فرقہ ان میں سے ایک فرقہ بنو مدلج تھا۔ ان کا سردار ذوالحمار عیھلۃ بن کعب عنسی تھا۔ اس کا لقب اسود تھا یہ کاہن اور شعبدہ باز تھا۔ اس نے یمن میں نبوت کا دعویٰ کیا اور یمن کے شہروں پر قبضہ کرلیا تو نبی کریم ﷺ نے معاذ بن جبل ؓ اور وہاں کے مسلمانوں کی طرف خط لکھا اور ان کو حکم دیا کہ لوگوں کو ترغیب دیں کہ اپنے دین کو مضبوطی سے تھام لیں اور اسود کے لشکر کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں۔ اسود کو حضرت فیروز ویلمی ؓ نے اس کے بستر پر قتل کردیا ابن عمر ؓ فرماتے ہیں کہ جس رات اسود قتل کیا گیا اسی رات نبی کریم ﷺ پر آسمان سے ان کی موت کی خبر آئی تو رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا گزشتہ رات اسود مارا گیا ہے اور اس کو ایک بابرکت آدمی نے قتل کیا ہے۔ صحابہ ؓ نے پوچھا وہ کون ہے ؟ آپ (علیہ السلام) نے فرمایا فیروز اور صحابہ کرام ؓ کو اسود کی ہلاکت کی خوشخبری دی اور اگلے دن نبی کریم ﷺ دنیا سے رحلت فرما گئے اور سود عنسی کے قتل کی خبر ماہ ربیع الاول کے آخر میں مدینہ اس وقت آئی جب حضرت اسامہ ؓ کا لشکرن کل چکا تھا اور یہ پہلی فتح تھی۔ دوسرا فرقہ یمامہ کا بنو حنیفہ قبیلہ تھا۔ ان کا سردار مسلیمہ کذاب تھا۔ اس نے نبی کریم ﷺ کی زندگی میں سن دس ہجری میں نبوت کا دعویٰ کیا اور یہ گمان کیا کہ یہ نبی کریم ﷺ کے ساتھ نبوت میں شریک ہے اور نبی کریم ﷺ کی طرف خط بھیجاجس کا عنوان تھا۔ یہ خط اللہ کے رسول مسلیمہ کی جانب سے اللہ کے رسول محمد ﷺ کی طرف ہے۔ امابعد : بیشک زمین آدھی میر ہے اور آدھی آپ کی اور اس خط کے ساتھ اپنے دو آدھی بھیجے ۔ نبی کریم ﷺ نے ان سے ارشاد فرمایا کہ اگر قاصدوں کو قتل نہ کیا جاتا ہوتا تو میں تمہاری گردنیں اڑا دیتا۔ پھر خط کا جواب دیا۔ یہ خط اللہ کے رسول محمد ﷺ کی طرف سے جھوٹے مسلیمہ کی طرف ہے۔ حمد وصلٰوۃ کے بعد۔ اس زمین کا مالک اللہ ہے جس کو چاہتا ہے اس کا وارث بناتا ہے اور اچھا انجام پرہیز گاروں کے لیے ہے اس کے بعد نبی کریم ﷺ مریض ہوئے اور وفات پاگئے۔ پھر حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے حضرت خالد بن ولید ؓ کی قیادت میں ایک بہت بڑا لشکر مسلیمہ کذاب کی طرف بھیجا، اللہ تعالیٰ نے مسلیمہ کو حضرت وحشی ؓ کے ہاتھ پر ہلاک کردیا۔ یہ وحشی وہی ہیں جنہوں نے حضرت حمزہ بن عبدالمطلب ؓ کو شہید کیا تھا یہ مطعم بن عدی کے غلام تھے ۔ مسلیمہ کے لشکر سے بڑی زور دار لڑائی ہویئ۔ حضرت وحشی ؓ فرماتے تھے کہ جاہلیت میں میں نے لوگوں میں سے بہترین کو قتل کیا اور اسلام لانے کے بعد لوگوں میں سے بدترین شخص کو قتل کیا۔ تیسرا فرقہ بنو اسد ہے اور ان کا سردار طلیحۃ بن خویلد تھا۔ ان تین فرقوں میں آخری مرتد طلیحۃ تھا۔ اس نے نبی کریم ﷺ کی حیات مبا کہ میں نبوت کا دعویٰ کیا اور نبی کریم ﷺ کی وفات کے بعد مرتدین میں یہ سب سے پہلے مارا گیا۔ اس کی سرکوبی کے لیے حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے حضرت خالد بن ولید ؓ کو بھیجا۔ حضرت خالد ؓ نے بڑی سخت جنگ کے بعد ان کو شکست دی۔ طلیحہ وہاں سے غائب ہوگیا اور شام کی طرف بھاگ گیا پھر بعد میں اسلام لے آیا اور بڑا اچھا مسلمان بنا۔ نبی کریم ﷺ کی وفات کے بعد حضرت ابوبکر صدیق ؓ کے دور خلافت میں بہت سارے لوگ مرتد ہوگئے۔ یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو کافی ہوگیا اور اپنے دین کی مدد حضرت ابوبکر ؓ کے سہاتھ سے کرائی۔ حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ نبی کریم ﷺ وفات پاگئے اور عرب مرتد ہوگئے اور نفاق سر اٹھانے لگا اور حضرت ابوبکر ؓ پر اتنی ذمہ داریاں آگئیں کہ اگر ٹھوس پہاڑوں پر آتیں تو ریزہ ریزہ ہوجاتے اور ایک قوم نے کہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی پسندیدہ قوم سے اشعری لوگ مراد ہیں کیونکہ حضرت عیاض بن غنم الاشعری ؓ سے مروی ہے کہ جب ” فسوف یاتی اللہ بقوم یحبھم الخ “ آیت نازل ہوئی تو نبی کریم ﷺ نے حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ کی طرف اشارہ کرکے فرمایا کہ وہ ان کی قوم ہے اور اشعر یمن کا قبیلہ ہے۔ حضرت ابوہریرہ ؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تمہارے پاس اہل یمن آرہے ہیں ان کے دل بڑے نرم اور کمزور ہیں ایمان یمانی ہے اور حکمت یمانی ہے۔ کلبی (رح) فرماتے ہیں کہ اس سے یمن کے اس وقت زندہ لوگ مراد ہیں۔ وہ ہزار قبیلہ نخع کے اور پانچ ہزار کندہ اور بجیلہ کے اور تین ہزار دیگر اطراف کے قادسیہ کی لڑائی میں۔ حضرت عمر ؓ کے زمانہ میں انہوں نے جہاد کیا۔ (اذلۃ علی المومنین نرم دل ہیں مسلمانوں پر) یعنی نرم دل، شفیق ہی۔ لفولہ عزوجل واخفض جناح الذل من الرحمۃ اس سے ان کی کمزوری مراد نہیں ہے بلکہ یہ مراد ہے کہ ان کے پہلو مسلمانوں پر نرم ہیں اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ ” ذل “ سے لیا گیا ہے یعنی عاجزی انکساری کرنے والے ہیں۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان وعبادالرحمن الذین بمشون علی الارض ھونا۔ (اعزۃ علی الکافرین زبردست ہیں کافروں پر) یعنی سخت مزاج ہیں کافروں پر ان سے دشمنی رکھتے ہیں اور ان پر غالب آجاتے ہیں۔ عطاء (رح) فرماتے ہیں کہ مومنین پر ایسے نرم دل ہیں جیسے بچہ اپنے والد اور غلام اپنے آقا کے لیے اور کافروں پر ایسے زبردست ہیں جیسے درندہ اپنے شکار پر (یجاھدون فی سبیل اللہ ولا یخافون لومۃ لائم لڑتے ہیں اللہ کی راہ میں اور ڈرتے نہیں کسی کے الزام سے) یعنی للہ کے معاملہ میں کسی کی ملامت سے نہیں ڈرتے یہ اس وجہ سے کہا کہ منافقین کفار کی ملامت کا خوف کرتے تھے اور ان سے ڈرتے تھے۔ حضرت عبادہ بن صامت ؓ سے مروی ہے کہ ہم نے رسول اللہ ﷺ کی بیعت کی، سننے اور اطاعت کرنے پر اور اس بات پر کہ حق پر قائم ہوں گے اور حق بات کہیں گے ہم جہاں بھی ہوں ، اللہ کے معاملہ میں کسی ملامت کر کی ملامت سے نہ ڈریں گے ( ذلک فضل اللہ یوتیہ من یشاء یہ فضل ہے اللہ کا دے گا جس کو چاہے) یعنی ان کا اللہ سے محبت کرنا اور مسلمانوں کے لیے نرم ہونا اور کافروں پر سخت ہونا اللہ کے فضل کی وجہ سے ہے (واللہ واسع علیم اور اللہ کشادگی کرنے والا ہے خبردار)
Top