Tafseer-e-Mazhari - Al-Maaida : 53
وَ یَقُوْلُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَهٰۤؤُلَآءِ الَّذِیْنَ اَقْسَمُوْا بِاللّٰهِ جَهْدَ اَیْمَانِهِمْ١ۙ اِنَّهُمْ لَمَعَكُمْ١ؕ حَبِطَتْ اَعْمَالُهُمْ فَاَصْبَحُوْا خٰسِرِیْنَ
وَيَقُوْلُ : اور کہتے ہیں الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا : جو لوگ ایمان لائے (مومن) اَهٰٓؤُلَآءِ : کیا یہ وہی ہیں الَّذِيْنَ : جو لوگ اَقْسَمُوْا : قسمیں کھاتے تھے بِاللّٰهِ : اللہ کی جَهْدَ : پکی اَيْمَانِهِمْ : اپنی قسمیں اِنَّهُمْ : کہ وہ لَمَعَكُمْ : تمہارے ساتھ حَبِطَتْ : اکارت گئے اَعْمَالُهُمْ : ان کے عمل فَاَصْبَحُوْا : پس رہ گئے خٰسِرِيْنَ : نقصان اٹھانے والے
اور اس (وقت) مسلمان (تعجب سے) کہیں گے کہ کیا یہ وہی ہیں جو خدا کی سخت سخت قسمیں کھایا کرتے تھے کہ ہم تمہارے ساتھ ہیں ان کےعمل اکارت گئے اور وہ خسارے میں پڑ گئے
ویقولون الذین امنوا ہولآء الذین اقسموا باللہ جہد ایمانہم اور مسلمان کہیں گے کہ کیا یہ وہی لوگ ہیں جنہوں نے اللہ کی پختہ قسمیں کھا کر کہا تھا۔ یقول جملہ استینافیہ ہے مطلب یہ ہے کہ جب اللہ فتح سامنے لے آئے گا تو منافق اس وقت نادم ہوں گے اور مسلمان بطور تعجب کہیں گے۔ جہد ایمان سے مراد ہیں پختہ قسمیں۔ یہ فعل محذوف کا مفعول مطلق ہے یعنی یجتہدون جہد ایمانہم اور چونکہ جہد ایمانہم جملۂ حالیہ محذوف کا قائم مقام ہے۔ اسی لئے (باوجود مفعول مطلق ہونے کے) اس کا معرفہ لانا درست ہے یا جہد ایمان اوراقسموا کا معنوی اشتراک ہے ‘ دونوں کا ایک ہی معنی ہے اس لئے جہد ایمانہم اقسموا کا مفعول مطلق ہے۔ انہم لمعکم کہ ہم یقیناً تمہارے ساتھ ہیں یعنی مسلمان آپس میں بطور تعجب کہیں گے کہ کیا یہ وہی لوگ ہیں جنہوں نے قسمیں کھا کھا کر کہا تھا کہ ہم مسلمانوں کے ساتھ ہیں یا اظہار مسرت کے طور پر مذکورہ بالا قول کہیں گے یا یہودیوں سے کہیں گے کہ انہی لوگوں نے پختہ قسمیں کھا کر کہا تھا کہ ہم تمہارے ساتھ ہیں اگر تم کو نکالا گیا تو ہم بھی تمہارے ساتھ نکل جائیں گے اور اگر تم سے جنگ کی گئی تو ہم تمہاری مدد کریں گے۔ حبطت اعمالہم فاصبحو خاسرین ان کی ساری کارروائیاں برباد گئیں اور دنیا و دین میں یہ ناکام ہوگئے ‘ یہ آیت یا مؤمنون کا مقولہ ہے یا اللہ کا مقولہ ہے ‘ اللہ نے منافقوں کے اعمال کی بربادی اور ان کی نامرادی کی شہادت دی ہے۔
Top