Kashf-ur-Rahman - Al-Maaida : 53
وَ یَقُوْلُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَهٰۤؤُلَآءِ الَّذِیْنَ اَقْسَمُوْا بِاللّٰهِ جَهْدَ اَیْمَانِهِمْ١ۙ اِنَّهُمْ لَمَعَكُمْ١ؕ حَبِطَتْ اَعْمَالُهُمْ فَاَصْبَحُوْا خٰسِرِیْنَ
وَيَقُوْلُ : اور کہتے ہیں الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا : جو لوگ ایمان لائے (مومن) اَهٰٓؤُلَآءِ : کیا یہ وہی ہیں الَّذِيْنَ : جو لوگ اَقْسَمُوْا : قسمیں کھاتے تھے بِاللّٰهِ : اللہ کی جَهْدَ : پکی اَيْمَانِهِمْ : اپنی قسمیں اِنَّهُمْ : کہ وہ لَمَعَكُمْ : تمہارے ساتھ حَبِطَتْ : اکارت گئے اَعْمَالُهُمْ : ان کے عمل فَاَصْبَحُوْا : پس رہ گئے خٰسِرِيْنَ : نقصان اٹھانے والے
جو انہوں نے اپنے دلوں میں چھپا رکھی تھیں اور مسلمان یوں کہیں کہ یہ وہی لوگ ہیں جو سخت ترین قسمیں کھا کھا کھا کر یقین دلایا کرتے تھے کہ وہ تمہارے ساتھ ہیں ان منافقین کی تمام ریشہ دوانیاں بیکار ہوگئیں اور آخر کار یہ خائب و خاسر ہو کر رہ گئے۔1
1 اے ایمان والو ! تم یہود و نصاریٰ کو اپنا دوست اور رفیق نہ بنائو یہ لوگ آپس ہی میں ایک دوسرے کے رفیق اور دوست ہوسکتے ہیں اور جو شخص تم میں سے ان یہود و نصاریٰ کو اپنا دوست بنائے گا اور دوستی ورفاقت کرے گا تو یقین جانو ! کہ وہ انہی میں سے شمار ہوگا کیونکہ اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کی رہنمائی نہیں کیا کرتا جو اپنی جانوں پر ظلم کرتے ہیں اور مسلمانوں کو چھوڑ کر یہود و نصاریٰ پر اعتماد کرتے ہو۔ سو اے پیغمبر آپ ملاحظہ کرتے ہوں گے جن لوگوں کے دل میں نفاق کا روگ ہے وہ ان یہود و نصاریٰ میں گھسنے اور ان سے دوستانہ تعلق بڑھانے میں جلدی کر رہے ہیں اور ان سے مودت و محبت بڑھانے میں جلد بازی سیک ام لے رہے ہیں ان کا حال یہ ہے کہ یوں کہتے ہیں کہ ہم کو اس بات کا خوف ہے کہ کوئی حادثہ پیش آجائے اور ہم زمانہ کی کسی گردش میں مبتلا ہوجائیں سو وہ وقت قریب ہے کہ اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو فتح مند کر دے یا اپنی طرف سے کسی اور بات کا ظہور فرما دے جس کا اثر یہ ہو کہ یہ منافق ان باتوں پر جو انہوں نے اپنے دلوں میں چھپا رکھی ہیں نادم ہو کر رہ جائیں اور ان کو شرمندگی اور ندامت کا منہ دیکھنا پڑے اور مسلمان ان منافقوں کی ندامت کو دیکھ کر یوں کہیں کہ اچھا یہ وہ منافق ہیں کہ جو سخت ترین اور مبالغہ آمیز قسمیں کھا کھا کر ہمیں اس بات کا یقین دلایا کرتے تھے کہ وہ تمہارے ساتھ ہیں اور ان منافقین کے تمام اعمال اور دو طرفہ ریشہ دوانیاں بےکار اور ضائع ہوگئیں اور یہ ناکام اور زیاں کار ہو کر رہ گئے۔ (تیسیر) ہم یہ بات پہلے عرض کرچکے ہیں کہ اگر مدینہ منورہ میں مسلمانوں کا تدریجی اقتدار بڑھ رہا تھا اپنے حقوق کی حفاظت کے لئے جنگ کرنے کی اجازت مل چکی تھی لیکن لڑائی میں کبھی فتح اور کبھی شکست لازمی ہے غرض ! مسلمانوں کے لئے ایک صبر آزما دور تھا جب بدر میں فتح ہوئی تو اچھی خاصی ساکھ بندھ گئی لیکن جب احد میں شکست ہوئی تو رنگ برنگ کی بولایں سننے میں آنے لگیں۔ الحرب بیننا وبینہ سبحال نیال متنا و سال منہ جب کبھی آپ رسی میں دو ڈول باندھ کر کنوئیں سے پانی بھریں گے تو کبھی ایک ڈول اوپر آئے گا اور دوسرا ڈول پانی میں ہوگا پھر اوپر والا ڈول نیچے جائے گا اور نیچے والا اوپر آجائیگا مسلمانوں ہی کو ہر جنگ میں فتح ہو یہ اصول فطرت نہیں ایسا کرنے میں جبراً کفار کو اسلام کی طرف مائل کرنا ہے اور یہ لا اکراہ فی الدین کے منافی ہے اور جب مسلمان فتح و شکست کی الجھنوں میں مبتلا ہوں تو ظاہر ہے کہ مخلصین کے علاوہ دوسرے لوگوں کو اطمینان کس طرح میسر ہو ۔ یہی وجہ تھی کہ کفار کی زندگی امید وہم اور خوف و طمع کی زندگی تھی ایک طرف فتح و شکست کا سامنا دوسری طرف امید وہم کی توقعات اور خطرات اوپر کی آیتوں میں انہی باتوں کا ذکر ہے مخلص مسلمانوں کے لئے بشارت ہے اور منافقوں کے لئے زجر و توبیخ ہے اور دو رخی پالیسی رکھنے والوں کی مذمت ہے ہم نے عام حالات کی بنا پر تفسیر کردی ہے۔ اگرچہ مفسرین نے شان نزول کی بحث میں بہت اختلاف کیا ہے ہوسکتا ہے کہ غزوئہ احد کی بنا پر بعض منافقین نے یہ خیال کیا ہو کہ اگر مسلمان ختم ہوجائیں تو ہمارے تعلقات اہل کتاب سے مضبوط رہنے چاہئیں تاکہ ادھر سے ادھر کا سہارا لے لیں ہوسکتا ہے کہ عبداللہ بن ابی اور عبادہ بن صامت کا قصہ ہو کہ حضرت عبادہ بن صامت نے آیت سنتے ہی اپنے یہودی دوستوں سے تعلقات منقطع کر لئے لیکن عبداللہ بن ابی نے قائم رکھے اور مسلمانوں سے یہ کہہ دیا کہ قحط وغیرہ کا خطرہ ہے ہم اپنے دوستوں کو جو ہماری مصیبت میں کام آتے ہیں کس طرح چھوڑ دیں یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ابو لبابہ کے واقعہ سے متعلق ہو کہ ان کو یہود کی فہمائش کے لئے جب آنحضرت ﷺ نے بھیجا اور جب یہود نے ان سے پوچھا تو انہوں نے زبان سے تو کچھ نہیں کہا لیکن ہاتھ اپنے گلے پر پھیر کر اشارہ کردیا کہ نیچے اترو گے تو سب ذبح کردیئے جائو گے۔ ہم نے تمام اقوال کو سامنے رکھ کر ایک عام تفسیر کردی ہے۔ بہرحال ان آیتوں میں مخلص مسلمانوں کو تنبیہہ ہے کہ وہ اہل کتاب پر اعتماد نہ کریں اور ان سے راز دارانہ دوستیاں نہ پیدا کریں۔ بعضھم اولیاء بعض میں عدم موالات کی علت فرمائی کہ دوستی کے لئے ہم جنس اور ہم خیال ہونا ضرویر ہے وہ اسلام میں تمہارے ہم خیال نہیں ہیں تو خفیہ دوستی کرنے سے سوائے نقصان کے کیا فائدہ پہنچ سکتا ہے ایسی دوستی وہ منافق ہی کرسکتے ہیں جو اسلام کی ترقی سے اور مسلمانوں کی یہودی کے متعلق مذبذب اور مشکوک ہیں۔ اسی دوستی کے لئے قحط وغیرہ مصائب کو بہانہ بناتے ہیں اور دل میں یہ بات رکھتے ہیں کہ اگر کل کو مسلمان ختم ہوئے اور ان کا اقتدار مٹاتو ہم کو اور ہمارے وطن کو یہود و نصاریٰ مکہ والوں کی دست برد سے بچا لیں گے۔ فتری۔ کے ترجمہ میں ہم نے نبی کریم ﷺ کو مخاطب بنایا ہے ہوسکتا ہے کہ یہ خطاب عام ہو جیسا کہ بعض نے اختیار کیا ہے۔ دائرہ ۔ سے مراد زمانے کے وہ ہیر پھیر ہیں جس سے ہر شخص کو دو چار ہونا پڑتا ہے اور پریشانی کے وقت اپنے احباب اور مددگاروں کی کثرت کو اپنے لئے مفید سمجھتا ہے اور اسی دور اندیشی کی بنا پر منافقین سرمایہ دار اہل کتاب سے دوستی بھڑھانے کی فکر میں رہتے تھے۔ فتح جس کا وعدہ فرمایا ہے وہ فتوحات عامہ میں سے کوئی خاص نمایاں فتح ہوسکتی ہے اور یہ بھی ممکن ہے کہ اس فتح سے مراد مکہ کی فتح ہو ۔ ام من عندہ سے مراد کوئی ایسی چیز ہوسکتی ہے جو یہود پر اثر انداز ہو اور وہ منافق جو یہود پر نازاں تھے اور ان کی خفیہ دوستی پر بھروسہ کر رہے تھے ان کو اپنا انجام معلوم ہوجائے جیسا کہ واقعات سے معلوم ہوتا ہے کہ اہل کتاب مدینہ سے نکالے گئے ۔ ان کے گھر منہدم ہوگئے اور وہ خود جلا وطن ہوئے اس وقت ان منافقین پر جو گذری اس کا نقشہ آگے کی آیتوں میں ظاہر کیا گیا ہے کہ منافقین مسلمانوں کی فتوحات اور یہود کی جلا وطنی کو دیکھ کر بہت نادم اور رسوا ہوئے مسلمانوں نے کہا ارے یہ بدبخت تو ہماری معیت کی قسمیں کھا کھا کر یقین دلایا کرتے تھے۔ جھد ایمانھم سے مراد موکد اور مبالغہ آمیز قسمیں ہیں ایک طرف مسلمانوں کو قسمیں کھا کر اپنی وفاداری کا اظہار اور دوسری طرف یہود سے ساز باز اس دورخہ پالیسی کا حشر یہ ہوا کہ یہود جلا وطن ہو کر گئے اور مسلمانوں میں اعتبار نہ رہا نہ ادھر کے رہے نہ اندھر کے رہے اسی حالت اعمالھم فاصبحوا خاسرین جب تمام جدوجہد اور دوڑ دھوپ اکارت ہوگئی تو سوائے نقصان اور ٹوٹا پانے کے اور کیا رہ گیا آگے پھر فرماتے ہیں کہ اگر مسلمانوں میں سے کوئی مرتد ہوجائے یا یہ لوگ کفر کے کیمپ میں چلے جائیں تو اللہ تعالیٰ ان کو ہٹا کر کسی اور ایسی قوم کو لے آئے گا جو اس کی مطیع و فرمانبردار ہوگی۔ حضرت شاہ صاحب نادمین پر کہتے ہیں یعنی منافق کافروں سے دوستی لگائے جاتے ہیں کہ ہم پر گردش نہ آجائے یعنی مسلمان مغلوب ہوجائیں تو ان کی دوستی ہمارے کام آوے سو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اب قریب ہے کہ کافر ہلاک ہوں یعنی مسلمانوں کو ان پر فتح ہو یا کچھ اور حکم آوے یعنی کافر ملک سے ویران ہوں آخر یہود کو حکم فرمایا جلا وطن کرنے کا 12 منہ (تسہیل)
Top