Baseerat-e-Quran - Al-Israa : 23
وَ قَضٰى رَبُّكَ اَلَّا تَعْبُدُوْۤا اِلَّاۤ اِیَّاهُ وَ بِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًا١ؕ اِمَّا یَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ اَحَدُهُمَاۤ اَوْ كِلٰهُمَا فَلَا تَقُلْ لَّهُمَاۤ اُفٍّ وَّ لَا تَنْهَرْهُمَا وَ قُلْ لَّهُمَا قَوْلًا كَرِیْمًا
وَقَضٰى : اور حکم فرمادیا رَبُّكَ : تیرا رب اَلَّا تَعْبُدُوْٓا : کہ نہ عبادت کرو اِلَّآ اِيَّاهُ : اس کے سوا وَبِالْوَالِدَيْنِ : اور ماں باپ سے اِحْسَانًا : حسن سلوک اِمَّا يَبْلُغَنَّ : اگر وہ پہنچ جائیں عِنْدَكَ : تیرے سامنے الْكِبَرَ : بڑھاپا اَحَدُهُمَآ : ان میں سے ایک اَوْ : یا كِلٰهُمَا : وہ دونوں فَلَا تَقُلْ : تو نہ کہہ لَّهُمَآ : انہیں اُفٍّ : اف وَّلَا تَنْهَرْهُمَا : اور نہ جھڑکو انہیں وَقُلْ : اور کہو لَّهُمَا : ان دونوں سے قَوْلًا : بات كَرِيْمًا : ادب کے ساتھ
(اے نبی ﷺ آپ کے رب نے فیصلہ فرما دیا ہے کہ تم اس کے سوا کسی کی عبادت و بندگی نہ کرو اور ماں باپ سے حسن سلوک کرو۔ اگر ان میں سے کوئی ایک یا دونوں تمہارے سامنے بڑھاپے کی عمر کو پہنچ جائیں تو انہیں اف تک نہ کہو اور نہ ہی انہیں جھڑکو اور ان سے (نرمی اور) ادب سے بات کہو۔
لغات القرآن آیت نمبر 23 تا 25 قضیٰ فیصلہ کردیا، حکم دیا۔ ایاہ اسی کا۔ احسان نیکی، حسن سلوک۔ یبلغن وہ پہنچ جائیں۔ الکبر بڑھاپا۔ کلاھما وہ دونوں۔ لاتقل تم مت کہو۔ لاتنھر نہ ڈانٹو، نہ جھڑکو۔ اخفض جھکا دے۔ جناح بازو۔ الذل عاجزی، انکساری۔ ربینی مجھے پرورش کیا، پالا۔ صغیر چھوٹا پن، بچپن۔ نفوس دل ، جانیں۔ اوابین لوٹنے والے، رجوع کرنے الے۔ غفور بخشنے والا، معاف کرنے والا۔ تشریح : آیت نمبر 23 تا 25 اس سورت میں معراج النبی ﷺ بنی اسرائیل کی نافرمانیوں اور ان پر عذاب الٰہی اور چند انتہائی ضروری بنیادی باتوں کے بعد آنے والے دورکوعوں میں اللہ تعالیٰ نے اپنے حق کے ساتھ ساتھ آدمی کے والدین، اعزاء و اقرباء سے حسن سلوک اور معاشرہ کی بہتری کے وہ بنیادی اصول ارشاد فرمائے ہیں جن پر عمل کرنے سے ایک معاشرہ بہترین انسانی معاشرہ کہلانے کا مستحق بن جاتا ہے دین و دنیا کی تمام بھلائیاں اور نیکیاں حاصل کرنے کی سعادت مل جاتی ہے۔ قرآن کریم میں کئی مقامات پر اللہ تعالیٰ نے اپنے حق کے بعد والدین کے ساتھ بہترین سلوک اور برتاؤ کا حکم دیا ہے جس سے یہ حقیقت نکھر کر سامنے آتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے حقوق کے بعد بندوں کے حقوق کو ادا کرنا ضروری ہے۔ لیکن بندوں کے حقوق میں سب سے پہلا حق یہ ہے کہ والدین کے ساتھ بہتر سے بہتر سلوک کیا جائے۔ خاص طور پر جب والدین بڑھاپے کی عمر کو پہنچ جائیں تو ان سے ادب اور نرمی کا ایسا معاملہ کرنا چاہئے کہ ان کو غیر محسوس تکلیف بھی نہ پہنچنے پائے۔ ان سے ہمیشہ اس طرح بات کی جائے جس سے ان کا دل خوش ہوجائے۔ ان کی بعض بڑھاپے کی کمزوریوں کی وجہ سے انہیں ڈانٹنے یا اف تک کہنے کی اجازت نہیں ہے بلکہ ان کے لئے ایسا خیر خواہانہ جذبہ موجود ہونا چاہئے کہ ان کے سامنے خدمت کے لئے کاندھے جھکانے کے ساتھ ساتھ ان کے لئے یہ دعا بھی کرتا رہے کہ الٰہی جس طرح انہوں نے ہمیں اس وقت پرورش کیا تھا جب ہم کمزور تھے الٰہی اب ہمارے ماں باپ کمزور ہیں ان کی خدمت کر کے ان کے بڑھاپے کا سہارا بننے کی توفیق عطا فرما۔ فرمایا کہ اللہ کو یہ بات تو اچھی طرح معلوم ہے کہ کون کس جذبے سے والدین کی خدمت کرتا ہے لیکن اگر واقعی اللہ کی رضا و خوشنودی کے جذبے سے والدین کی خدمت کی جائے گی تو ایسے لوگوں کو اللہ تعالیٰ نہ صرف دین و دنیا کی بھلائیاں عطا کرے گا بلکہ ان کی مغفرت اور رحمت کا سامان بھی عطا کیا جائے گا۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں اس بات کو بھی واضح طریقے پر ارشاد فرما دیا کہ اگر کسی کے والدین کافر و مشرک ہیں تب بھی ان کے ادب و احترام اور خدمت میں کوئی کمی نہ کی جائے البتہ اگر وہ اپنی اولاد کو اللہ کی نافرمانی یا کسی گناہ کا حکم دیں تو اس سے انکار کردینا خلاف ادب نہیں ہے کیونکہ معصیت اور گناہ کے کسی کام میں کسی کی اطاعت و فرماں برداری کی اجازت نہیں ہے۔ نبی کریم ﷺ کی لاتعداد حدیثیں وہ ہیں جن میں نہ صرف والدین کی اطاعت و فرماں برداری اور ان سے حسن سلوک کا حکم دیا گیا ہے بلکہ یہاں تک فرمایا گیا کہ اگر والدین ظالم بھی ہوں تب بھی ان کی اطاعت کرنا فرض اور لازم ہے۔ یقینا وہی لوگ جنت کے مستحق ہیں جو اپنے والدین کی خدمت اور حسن سلوک کا معاملہ کرتے ہیں۔ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا۔ 1- وہ شخص بڑا خوش قسمت ہے جس کو والدین کا بڑھاپا ملا اور وہ خدمت کر کے جنت کا مستحق بن گیا۔ 2- فرمایا کہ والدین کی خدمت میں اللہ کی رضا و خوشنودی ہے اور ان کی ناراضگی میں اللہ کی ناراضگی ہے۔ 3- آپ نے ایک جگہ ارشاد فرمایا سب گناہوں کی سزا تو اللہ تعالیٰ اگر چاہیں گے تو قیامت تک موخر کردیں گے۔ لیکن والدین کے حقوق میں کمی اور نافرمانی کرنے والے کو آخرت سے پہلے اس دنیا میں بھی سزا دیدی جائے گی۔ 4 - حضرت عبداللہ ابن عباس سے روایت ہے رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا۔ جو شخص اللہ تعالیٰ کے لئے اپنے ماں باپ کی اطاعت و فرماں برداری کرتا رہا تو اس کے لئے جنت کے دو دروازے کھول دیئے جاتے ہیں اور جس نے نافرمانی کی اس کے لئے جہنم کے دو دروازے کھول دیئے جاتے ہیں۔ فرمایا کہ اگر والدین میں سے کوئی ایک ہو تو اس کے لئے جنت کا ایک دروازہ اور نافرمان کے لئے جہنم کا ایک دروازہ کھول دیا جاتا ہے۔ کسی صحابی رسول نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ کیا یہ جہنم کی وعید اس صورت میں بھی ہے جب کہ والدین نے اس پر ظلم کیا ہو آپ نے تین دفعہ فرمایا کہ اگر وہ دونوں ظلم بھی کرتے ہوں۔ ان مذکورہ احادیث سے معلوم ہوا کہ ہر حال میں والدین کا احترام، ان کی خدمت اور ان کے ساتھ زبان سے اور ہاتھ پیر سے بہتر معاملہ کرنا ہر مسلمان کی ذمہ داری ہے۔ اگر والدین مشرک بھی ہوں تو جائز امور میں ان کی اطاعت کرنا لازم ہے۔ خلاصہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے حقوق کے بعد بندوں میں سے والدین کی اطاعت کو ہر حال میں لازمی قرار دیا ہے۔ اس موقع پر میں یہ بات ضرور عرض کرنا چاہوں گا کہ اللہ تعالیٰ نے والدین کو جو احترام کا مقام عطا کیا ہے اس پر انہیں شکر ادا کرتے ہوئے اپنی اولاد کے بھی ہر جذبے کا خیال رکھنا چاہئے اور ایسے تمام راستوں کو بند کرنا بھی ضروری ہے جس سے ان میں نافرمانی کے جذبات پیدا ہونے کا امکان ہے ۔ موجودہ دور میں یہ تجربات سب کے سامنے ہیں کہ والدین یہ تو چاہتے ہیں کہ ان کی اطاعت کی جائے ان کے ہر سپید و سیاہ کے فیصلے کو مانا جائے لیکن وہ اپنے اس فرض کو بھول جاتے ہیں کہ جوان اولاد کے اپنے بھی کچھ جذبات ہوتے ہیں اگر ان کو نظر انداز کیا گیا تو یقینا اس سے نافرمانی کے جذبات ابھریں گے اور اس کی اولاد جہنم کی مستحق بن جائے گی۔ دنیا میں کون ماں باپ یہ چاہیں گے کہ وہ خود تو جنت میں جائیں اور ان کی اولاد جہنم کا ایندھن بن جائے۔ اصل میں اللہ تعالیٰ جس کو بڑائی عطا فرمائے اس کو بڑا بن کر ہی رہنا چاہئے اس سے ان کا وقار بلند ہوتا ہے اور بچے بھی مارے باندھے خدمت نہیں کرتے بلکہ وہ دل کی خوشی سے خدمت کرنے کو فخر سمجھتے ہیں۔
Top