Urwatul-Wusqaa - Al-Israa : 23
وَ قَضٰى رَبُّكَ اَلَّا تَعْبُدُوْۤا اِلَّاۤ اِیَّاهُ وَ بِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًا١ؕ اِمَّا یَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ اَحَدُهُمَاۤ اَوْ كِلٰهُمَا فَلَا تَقُلْ لَّهُمَاۤ اُفٍّ وَّ لَا تَنْهَرْهُمَا وَ قُلْ لَّهُمَا قَوْلًا كَرِیْمًا
وَقَضٰى : اور حکم فرمادیا رَبُّكَ : تیرا رب اَلَّا تَعْبُدُوْٓا : کہ نہ عبادت کرو اِلَّآ اِيَّاهُ : اس کے سوا وَبِالْوَالِدَيْنِ : اور ماں باپ سے اِحْسَانًا : حسن سلوک اِمَّا يَبْلُغَنَّ : اگر وہ پہنچ جائیں عِنْدَكَ : تیرے سامنے الْكِبَرَ : بڑھاپا اَحَدُهُمَآ : ان میں سے ایک اَوْ : یا كِلٰهُمَا : وہ دونوں فَلَا تَقُلْ : تو نہ کہہ لَّهُمَآ : انہیں اُفٍّ : اف وَّلَا تَنْهَرْهُمَا : اور نہ جھڑکو انہیں وَقُلْ : اور کہو لَّهُمَا : ان دونوں سے قَوْلًا : بات كَرِيْمًا : ادب کے ساتھ
اور تمہارے پروردگار نے یہ بات ٹھہرا دی ہے کہ اس کے سوا کسی کی بندگی نہ کرو اور اپنے ماں باپ کے ساتھ بھلائی کرو اگر ان میں سے ایک یا دونوں تمہاری زندگی میں بڑھاپے کی عمر تک پہنچ جائیں تو ان کی کسی بات پر اف نہ کرو اور نہ جھڑکنے لگو ان سے بات چیت ادب و عزت کے ساتھ کرو
منشور اسلامی کی اصل اول کا اعلان عام : 29۔ ” اور تیرے رب نے فیصلہ کردیا ہے کہ تم لوگ کسی کی عبادت نہ کرو مگر صرف اس کی “ عبادت کے معنی عام طور پر وہ چند مخصوص اعمال سمجھے جاتے ہیں جن کو انسان اللہ کی عظمت اور کبریائی کے لئے بارگاہ صمدی میں بجا لاتا ہے لیکن یہ عبادت کا نہایت تنگ مفہوم ہے اس سلسلہ میں اللہ تعالیٰ نے محمد رسول اللہ ﷺ کے ذریعہ سے انسانوں پر جو حقیقت ظاہر فرمائی اس کا اصل جوہر یہ نہیں ہے کہ گزشتہ مذاہب کی عبادت کے طریقوں کی بجائے اسلام میں عبادت کے دوسرے طریقے مقرر کردیئے گئے بلکہ یہ ہے کہ انسانوں کو بتایا گاہ کہ عبادت کی حقیقت اور غایت کیا ہے ؟ اور ساتھ ہی عبادت کے گزشتہ ناقص طریقوں کی تکمیل ‘ مبہم بیانات کی تشریح اور مجمل تعلیمات کی تفصیل کی گئی ۔ اہل عرب جہاں آسمانی مذہب کی دوسری حقیقتوں سے بیخبر تھے وہاں عبادت کے مفہوم اور اس کے صحیح طریقوں سے بھی ناواقف تھے ، عرب میں جو یہود اور عیسائی تھے وہ بھی اس کے متعلق اپنے عمل اور تعلیم سے کوئی واضح حقیقت ان کے سامنے پیش نہ کرسکے تھے اس عہد میں جو عیسائی تھے وہ بھی اس کے متعلق اپنے عمل اور تعلیم سے کوئی واضح حقیقت ان کے سامنے پیش نہ کرسکے تھے اس عہد میں جو عیسائی فرقے عرب میں تھے ، عقائد میں ان کا سب سے بڑا کارنامہ یہ تھا کہ وہ حضرت مسیح (علیہ السلام) کی الوہیت کو تسلیم کرتے تھے اور عبادات میں یہ تھا کہ تمام دنیا کے عیش و آرام اور لذتوں کو اپنے اوپر حرام کر کے عرب کے سنسان بیابانوں اور پہاڑوں میں انہوں نے اپنی عبادت گاہیں اور خانقاہیں بنا لی تھیں اور ان میں بیٹھ کر تمام دنیا کی جدوجہد اور سعی و کوشش کے میدانوں سے ہٹ کر مجرد اور متقشفانہ زندگی بسر کرتے تھے اس لئے عربوں کی شاعری میں عیسائیت کا تخیل ایک ” راہب متبتل “ کی صورت میں تھا ‘ عرب کا سب سے بڑا شاعر امراء القیس کہتا ہے ۔ منارۃ مبسی راب متبتل : دنیا سے الگ تھلک زندگی بسر کرنے والے راہب کے نام کا چراغ ۔ عرب میں یہود اپنی اخلاقی اور مذہبی بدعملیوں کے سبب سے سخت بدنام تھے ان میں روحانی خلوص اور ایثار اور خدا پرستی نام کو نہ تھی وہ صرف سبت (سینچر) کے دن تورات کے حکم کے مطابق تعطیل منانا اور اس دن کوئی کام نہ کرنا بڑی عبادت سمجھتے تھے ۔ قرآن پاک نے ان دونوں فرقوں کی اس حالت کا نقشہ کھینچا ہے ‘ یہودیوں پر اس نے بےحکمی ‘ نافرمانی اکل حرام اور طاغوت کی پرستش کا اور عیسائیوں پر غلو فی الدین کا صحیح الزام قائم کیا ہے ۔ (سور المائدہ 5 : 57 تا 66) یہودی جادو ‘ ٹوٹکا اور عملیات کے توہمات میں گرفتار تھے اور جب کبھی موقع ملتا غیر قوموں کے بتوں کے سامنے بھی سر جھکا لیتے تھے ، عیسائی حضرت مریم (علیہا السلام) ‘ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) اور مسیح اولیاء اور شہیدوں کی تصویروں ‘ مجسموں ‘ یادگاروں اور مقبروں کو پوجتے تھے ‘ انہوں نے راہبانہ عبادت کے نئے نئے اور جسم کو سخت تکلیف اور آزار پہنچانے والے طریقے ایجاد کئے تھے اور ان کا نام انہوں نے دینداری رکھا تھا ، سورة حدید میں قرآن کریم نے یہود اور نصاری دونوں کا فاسق کہا ہے لیکن ان دونوں کے فسق میں نہایت نازک فرق ہے ‘ یہود کا فسق دین میں کمی اور سستی کرنا اور نصاری کا فسق دین میں زیادتی اور غلو کرنا تھا اور خدا کے مشروع دین میں کمی اور زیادتی دونوں گناہ ہیں ۔ اس لئے قرآن نے دونوں کو برابر کا فسق قرار دیا ۔ (آیت) ” وَلَقَدْ أَرْسَلْنَا نُوحاً وَإِبْرَاہِیْمَ وَجَعَلْنَا فِیْ ذُرِّیَّتِہِمَا النُّبُوَّۃَ وَالْکِتَابَ فَمِنْہُم مُّہْتَدٍ وَکَثِیْرٌ مِّنْہُمْ فَاسِقُونَ (26) ثُمَّ قَفَّیْْنَا عَلَی آثَارِہِم بِرُسُلِنَا وَقَفَّیْْنَا بِعِیْسَی ابْنِ مَرْیَمَ وَآتَیْْنَاہُ الْإِنجِیْلَ وَجَعَلْنَا فِیْ قُلُوبِ الَّذِیْنَ اتَّبَعُوہُ رَأْفَۃً وَرَحْمَۃً وَرَہْبَانِیَّۃً ابْتَدَعُوہَا مَا کَتَبْنَاہَا عَلَیْْہِمْ إِلَّا ابْتِغَاء رِضْوَانِ اللَّہِ فَمَا رَعَوْہَا حَقَّ رِعَایَتِہَا فَآتَیْْنَا الَّذِیْنَ آمَنُوا مِنْہُمْ أَجْرَہُمْ وَکَثِیْرٌ مِّنْہُمْ فَاسِقُونَ (27) اور ہم نے نوح (علیہ السلام) اور ابراہیم (علیہ السلام) کو بھیجا اور ان کی نسل میں نبوت اور کتاب رکھی تو ان میں سے کچھ راہ پر ہیں اور اکثر نافرمان ہیں ۔ پھر ان کے بعد ان کے پیچھے ہم نے اپنے اور پیغمبر بھیجے اور مریم کے بیٹے عیسیٰ (علیہ السلام) کو بھیجا اور ان کو انجیل عنایت فرمائی اور جنہوں نے عیسیٰ (علیہ السلام) کی پیروی کی ان کے دل میں نرمی اور رحمدلی بنائی اور ایک رہبانیت انہوں نے نئی چیز نکالی جو ہم نے ان پر نہیں لکھی تھی لیکن خدا کی خوشنودی حاصل کرنا تو انہوں نے اس رہبانیت کو بھی جیسا نباھنا چاہئے تھا نہیں نباہا تو ان میں جو ایماندار تھے ان کو ہم نے ان کی مزدوری دی اور ان میں بہت سے نافرمان ہیں ۔ ان آیتوں میں سے معلوم ہوا کہ عیسائی دین میں اضافہ اور افراط کے مرتکب ہوئے اسی لئے قرآن کریم نے ان کو بار بار کہا (آیت) ” لا تغلوا فی دینکم “۔ (النساء 4 : 171۔ المائدہ 5 : 77) اپنے دین میں غلو نہ کرو ۔ ان کا سب سے بڑا غلو یہ تھا کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو جن کو صرف رسول اللہ ماننے کا حکم دیا گیا تھا وہ ابن اللہ ماننے لگے اور یہود کا یہ حال تھا کہ وہ خدائے برحق کے رسولوں کو رسول بھی ماننا نہیں چاہتے تھے بلکہ ان کو قتل کرتے تھے (ویقتلون النبین) (البقرہ و آل عمران) ساتھ ہی وہ خدائے برحق کو چھور کر بت پرست ہمسایہ قوموں کے بتوں کو پوجنے لگے تھے چانچہ تورات میں یہودیوں کی بت پرستی اور غیر خداؤں کے آگے سرجھکانے کا بار بار تذکرہ ہے اور قرآن میں ان کے متعلق ہے : (وعبدالطاغوت) (المائدہ : 5۔ 6) اور جنہوں نے شیطان کو (یابتوں کو) پوجا۔ آنحضرت ﷺ نے عیسائیوں کو تبلیغ کی ۔ مَّا الْمَسِیْحُ ابْنُ مَرْیَمَ إِلاَّ رَسُولٌ قَدْ خَلَتْ مِن قَبْلِہِ الرُّسُلُ وَأُمُّہُ صِدِّیْقَۃٌ کَانَا یَأْکُلاَنِ الطَّعَامَ انظُرْ کَیْْفَ نُبَیِّنُ لَہُمُ الآیَاتِ ثُمَّ انظُرْ أَنَّی یُؤْفَکُونَ (75) قُلْ أَتَعْبُدُونَ مِن دُونِ اللّہِ مَا لاَ یَمْلِکُ لَکُمْ ضَرّاً وَلاَ نَفْعاً وَاللّہُ ہُوَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ (76) قُلْ یَا أَہْلَ الْکِتَابِ لاَ تَغْلُواْ فِیْ دِیْنِکُمْ غَیْْرَ الْحَقِّ وَلاَ تَتَّبِعُواْ أَہْوَاء قَوْمٍ قَدْ ضَلُّواْ مِن قَبْلُ وَأَضَلُّواْ کَثِیْراً وَضَلُّواْ عَن سَوَاء السَّبِیْلِ (77) مریم کا بیٹا مسیح ایک پیغمبر ہے اور بس ۔ اس سے پہلے پیغمبر گزر چکے ہیں اور اس کی ماں سچی تھی ، دونوں (انسان تھے) کھانا کھاتے تھے (خدا نہ تھے) دیکھ کر ہم ان (عیسائیوں) کے لئے اس طرح کھول کر دلیلیں بیان کرتے ہیں پھر بھی دیکھ وہ کدھر الٹے جاتے ہیں (ان سے) کہہ کہ کیا تم خدا کو چھوڑ کر ان (انسانوں) کو پوجتے ہو جن کے ہاتھ میں نہ نقصان ہے نہ نفع ۔ اللہ ہی سننے والا اور جاننے والا ہے جو نفع نقصان پہنچا سکتا ہے ، کہہ اے کتاب والو ! اپنے دین میں ناحق زیادتی نہ کرو اور ان لوگوں کے خیال پر نہ چلو جو بہک گئے اور بہتوں کو بہکایا اور سیدھے راستہ سے بھٹک گئے ۔ ان کی حالت یہ تھی : (آیت) ” اتخذوا احبارھم ورھبانھم اربابا من دون اللہ “۔ (التوبہ 9 : 31) خدا کو چھوڑ کر اپنے عالموں اور درویشوں کو خدا بنا لیا تھا ۔ اس زمانہ میں عیسائیوں کے جو گرجے اور پرستش گاہیں عرب میں اور خصوصا ملک حبش میں تھیں ان میں حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) ‘ حضرت مریم (علیہ السلام) اور حواریوں ‘ ولیوں اور شہیدوں کی تصویریں اور مجسمے نصب تھے ، عبادت گزار ان کے آگے دھیان اور مراقبہ میں سربسجود رہتے تھے ، صحابہ میں سے جن لوگوں کو حبشہ کی ہجرت کے اثناء میں ان معبدوں کو دیکھنے کا اتفاق ہوا تھا ان میں سے شاید بعض بیبیوں کی نگاہ میں ان بزرگوں کی تعظیم و تکریم کی یہ مناسب صورت معلوم ہوتی تھی ، چناچہ آنحضرت ﷺ کے مرض الموت میں بعض ازواج مطہرات نے آپ ﷺ سے اس کا تذکرہ کیا اور ان کی تصویروں اور مجسموں کے حسن و خوبی کو بیان کیا ، آنحضرت ﷺ نے فرمایا خدا یہودونصاری پر لعنت بھیجے ‘ انہوں نے اپنے پیغمبروں کی قبروں کو عبادت گاہ بنا لیا ‘ تم ایسا نہ کرنا ، ان میں سے جب کوئی نیک آدمی مر جاتا تھا تو وہ اس کی قبر کو عبادت گاہ بنا لیتے تھے اور اس میں اس کی تصویریں کھڑی کردیتے تھے ۔ (صحیح مسلم کتاب المساجد) ایڈورڈکبن نے تاریخ ترقی وزوال روم کی متعدد جلدوں کے خاص ابواب میں عیسوی مذہب کی عبادات کے جو حالات بیان کئے ہیں وہ تمام تر حدیث مذکور کی تصدیق وتائید میں ہیں ۔ خصوصا تیسری اور پانچویں جلد میں حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) حضرت مریم (علیہا السلام) ‘ سینٹ پال اور متعدد ولیوں اور شہیدوں کی پرستش کی جو کیفیت درج ہے وہ بالکل اس کے مطابق ہے اور آج تک رومن کیتھولک اور قدیم مسیحی فرقوں کی پرستش گاہوں کے در و دیوار سے قرآن پاک کی صداقت کی آوازیں آرہی ہیں اور آج بھی دیندار عیسائی دن رات موم بتیوں کی روشنی میں ان کے آگے مراقبوں اور تسبیحوں میں سرنگوں نظر آتے ہیں ، روم (اٹلی) کے تاریخی گرجاؤں میں یہ منظر اب بھی دیکھا جاسکتا ہے اور اس وقت محمد رسول اللہ ﷺ کی اس حدیث کی اصلی تشریح انسان کی آنکھوں کے سامنے آجاتی ہے ۔ یہودیوں اور عیسائیوں کو چھوڑ کر خاص عرب کے لوگوں اللہ نام کی ایک ہستی سے واقف ضرور تھے مگر اس کی عبادت اور پرستش کے مفہوم سے بیخبر تھے ‘ لات ‘ عزی ‘ ہبل اور اپنے اپنے قبیلے کے جن بتوں کو حاجت روا اور پرستش کے قابل سمجھتے تھے ان پر جانور قربان کرتے اور اپنی اولادوں کو بھینٹ چڑھاتے تھے ، سال کے مختلف اوقات میں مختلف بت خانوں کے میلوں میں شریک ہوتے تھے اور پتھروں کے ڈھیروں کے سامنے بعض مشرکانہ رسوم ادا کرتے تھے ۔ خانہ کعبہ یعنی خلیل بت شکن کا معبد تین سو ساٹھ بتوں کا مرکز تھا اور ان کی نماز یہ تھی کہ خانہ کعبہ کے صحن میں جمع کر کر سیٹی اور تالی بجا بجا کر بتوں کو خوش اور راضی رکھیں ، قریش کا موحد زید بن عمرو جو آنحضرت ﷺ کی نبوت سے پہلے بت پرستی سے تائب ہوچکا تھا وہ کہا کرتا تھا کہ ” اے خدا ! مجھے نہیں معلوم کہ میں تجھ کو کس طرح پوجوں ؟ اگر جانتا تو اسی طرح عبادت کرتا۔ “ (سیرۃ ابن ہشام ذکر زید بن عمرو) ایک صحابی شاعر عامر بن اکوع خیبر کے سفر میں یہ ترانہ گا رہے تھے اور آنحضرت ﷺ سن رہے تھے ۔ (مسلم باب الخیبر) واللہ لولا انت ما اھتدینا ولا تصدقنا ولا صلینا : خدا کی قسم اگر تو نہ ہوتا تو نہ ہم راستہ پاتے نہ خیرات کرتے اور نہ نماز پڑھتے ۔ اس شعر اس حقیقت کا اظہار ہے کہ وہ محمد رسول اللہ ﷺ ہی کی تعلیم تھی جس نے اہل عرب کو عبادت کے صحیح طریقوں سے آشنا کیا۔ عرب سے باہر بھی کہیں خدائے واحد کی پرستش نہ تھی ‘ بت پرست یونانی اپنے بادشاہوں اور ہیروؤں کے مجسمے اور ستاروں کے ہیکل پوجتے تھے ، روم ‘ ایشیائے کو چک ‘ یورپ افریقہ ‘ مصر ‘ بربر ‘ حبشہ وغیرہ عیسائی ملکوں میں حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) حضرت مریم (علیہ السلام) اور سنکڑوں ولیوں اور شہیدوں کی مورتیاں اور ہڈیاں اور ان کی مصنوعی یادگاریں پوجی جارہی تھیں۔ زردشت کی ملکت میں آگ کی پرستش جارہی تھی ‘ ہندوستان سے لے کر کابل وترکستان اور چین اور جزائر ہند تک بودھ کی مورتوں ‘ سمادھوں اور اس کی جلی ہوئی ہڈیوں کو راکھ کی پوجا ہو رہی تھی ، چین کے کنفوش اپنے باپ دادوں کی مورتوں کے آگے خم تھے ‘ خاص ہندوستان میں سورج دیوتا ‘ گنگا مائی اور اوتاروں کی پوجا ہو رہی تھی ، عراق کے صائبی سبع سیارہ کی پرستش کی تاریکی میں مبتلا تھے ، باقی تمام دنیا درختوں ‘ پتھروں ‘ جانوروں ‘ بھوتوں اور دیوتاؤں کی پرستش کر رہی تھی ، غرض عین اس وقت جب دنیا خدائے واحد کو چھوڑ کر آسمان سے زمین تک کی مخلوقات کی پرستش میں مصروف تھی ایک بےآب وگیاہ ملک کے ایک گوشہ سے آواز آئی : (آیت) ” یایھا الناس اعبدوا ربکم الذی خلقکم والذین من قبلکم “۔ (البقرہ : 21) لوگو ! اپنے اس پروردگار کی پرستش کرو جس نے تم کو اور تم سے پہلوں کو پیدا کیا ۔ سابق کتب الہی کے امانت داروں کو آواز دی گئی : (آیت) ” یاھل الکتب تعالوا الی کلمۃ سوآء بیننا وبینکم ان لا نعبد الا اللہ “۔ (آل عمران 3 : 64) اے کتاب والو ! آؤ ہم تم اس بات پر عملا متحد ہوجائیں جس میں ہم تم عقیدتا متفق ہیں کہ ہم خدائے برحق کے سوا کسی اور کی پرستش نہ کریں مگر یہ آواز ریگستان عرب کے سرف چند حق پرستوں نے سنی اور پکار اٹھے : (آیت) ” ربنا اننا سمعنا منادیا ینادی لل ایمان ان امنوا بربکم فامنا ربنا فاغفرلنا ذنوبنا “۔ (آل عمران 3 : 193) خداوند ! ہم نے ایمان کی منادی کی آواز سنی کہ اپنے پروردگار پر ایمان لاؤ تو ہم ایمان لے آئے تو اے پروردگار ہمارے گناہ معاف کر۔ اس واقعات کو سامنے رکھ کر آنحضرت ﷺ کی اس دعا کی صداقت کا اندازہ کرو جو بدر کے امتحان گاہ میں آپ ﷺ کی زبان عبودیت ترجمان سے بارگاہ الہی میں کی گئی تھی : خداوند تیرے پوجنے والوں کی یہ مٹھی بھر جماعت آج تیرے لئے لڑنے پر آمادہ ہے ، خداوند آج اگر یہ مٹ گئی تو پھر زمین میں کبھی تیری پرستش نہ ہوگی ۔ (صحیح مسلم ‘ جامع ترمذی ‘ عزوہ بدر) خدا نے اپنے نبی کی دعا سنی اور قبول فرمائی کیونکہ خاتم الانبیاء کے بعد کوئی دوسرا نبی آنے والا نہ تھا جو غافل دنیا کو خدا کی یاد دلاتا اور خدا کی سچی اور مخلصانہ عبادت کی تعلیم دیتا ۔ صرف ایک خدا کی عبادت : مذہب کی تکمیل اور اصلاح کے سلسلہ میں نبوت محمد کا پہلا کارنامہ یہ ہے کہ اس نے دنیا کے معبدوں سے تمام باطل معبودوں کو باہر نکال کر پھینک دیا باطل معبودوں کی عبادت اور پرستش یک قلم محو کردی اور صرف ایک خدا کے سامنے خدا کی تمام مخلوقات کی گردنیں جھکا دیں اور اور صاف اعلان کردیا کہ : (آیت) ” ان کل من فی السموت والارض الا اتی الرحمان عبدا “۔ (مریم 29 : 93) آسمان و زمین کی تمام مخلوق اس مہربان خدا کے سامنے غلام ہی بن کر آنے والی ہے ۔ خدا کے سوا نہ تو آسمان میں ‘ نہ زمین میں ‘ نہ آسمان کے اوپر اور نہ زمین کے نیچے کوئی ایسی چیز ہے جو آنسان کے سجدہ اور رکوع و قیام کی مستحق ہے اور نہ اس کے سوال کوئی کسی اور کے نام پر کسی جاندار کا خون بہایا جاسکتا ہے اور نہ اس کی پرستش کے لئے گھر کی کوئی دیوار اٹھائی جاسکتی ہے اور نہ اس کی نذر مانی جاسکتی ہے اور نہ اس سے دعا مانگی جاسکتی ہے ہر عبادت اسی کے لئے اور ہر پرستش اسی کی خاطر ہے ۔ (آیت) ” ان صلاتی ونسکی ومحیای ومماتی للہ رب العلمین “۔ (الانعام 6 : 162) بلاشبہ میری نماز اور میری قربانی اور میری زندگی اور موت سب اسی ایک عالم کے پروردگا اللہ کے لئے ہے ۔ کفار کو بتوں ‘ دیوتاؤں ‘ ستاروں اور دوسری مخلوقات کی پرستش سے ہر طرح منع کیا گیا اور انہیں ہر دلیل سے سمجھا گیا کہ خدائے برحق کے سوا کسی اور کی پرستش نہیں لیکن جب ان پر اس سمجھانے بجھانے کا کوئی اثر نہ ہوا تو اسلام کے پغمبر کو اس انقطاع کے اعلان کا حکم ہوا ۔ (آیت) ” قل یایھا الکفرون لا اعبد ما تعبدون ولا انتم عبدون ما اعبد ، ولا انا عابد ما عبدتم ولا انتم عبدون ما اعبد ، لکم دینکم ولی دین “۔ (الکافرون 109 : 1 تا 6) اے کافرو ! جس کو تم پوجتے ہو اس کو میں نہیں پوجتا اور نہ تم اس کو پوجنے والے ہو جس کو میں پوجتا ہوں اور نہ میں اس کو پوجنے والا ہوں جس کو تم نے پوجا اور نہ تم اس کو پوجنے والے ہو جس کو میں پوجتا ہوں ۔ تمہارے لئے تمہارا دین ہے اور میرے لئے میرا دین ہے ۔ والدین کے ساتھ نیک سلوک کرنے اور ان کے سامنے اف نہ کرنے کا حکم : 30۔ سب سے پہلے توحید فی العبادت کی تلقین کی کہ اللہ کے سوا اور کسی کی بندگی نہ کرو کیونکہ نفس توحید کا اعتقاد تو تمام پیروان مذاہب میں موجود تھا لیکن توحید فی العبادت کی حقیقت مفقود ہوگئی تھی پھر والدین کے حقوق پر توجہ دلائی کیونکہ انسان کے لئے والدین کی ربوبیت ربوبیت الہی کا پر تو ہے اس لئے عبودیت الہی کے بعد جو عمل اس کے لئے مقدم ہو سکتا ہے وہ یہی ہے کہ والدین کے حقوق پرورش سے غافل نہ ہو ۔ والدین کی خدمت و اطاعت کی آزمائش کا اصل وقت ان کے بڑھاپے کا وقت ہوتا ہے کیونکہ بڑھاپے کی کمزوریاں انہیں دوسروں کی خدمت واعانت کا محتاج بنا دیتی ہیں اور اولاد اپنی جوانی کی امنگوں اور عیش پرستیوں میں اس کی کم ہی مہلت پاتی ہے کہ اپنے محتاج اور معذور ماں باپ کی خبر گیری کرے ۔ پس یہاں سب سے زیادہ زور اس بات پر دیا کیونکہ جو اولاد اپنے بوڑھے ماں باپ کی خدمت و اطاعت میں کوتاہی نہیں کرے گی وہ دوسرے وقتوں میں کب کوتاہی گوارا کرسکتی ہے ، انسان کی احتیاج کے دو ہی وقت ہوتے ہیں طفولیت اور بڑھاپا ۔ طفولیت میں ماں باپ نے خدمت کی تھی ‘ بڑھاپے میں اولاد کو کرنی چاہئے اس لئے اس جگہ ارشاد فرمایا کہ بوڑھے والدین کے لئے دعا مانگو کہ (آیت) ” رب ارحمھما کما ربیانی صغیرا “۔ (آیت) ” بالوالدین احسانا “۔ والدین کے ساتھ اچھا سلوک کرو۔ اچھا سلوک یعنی بھلائی کرنا ایک ایسی صفت ہے جو ہر نیکی کے کام کو محیط ہے اس لئے اس کی صورتیں اتنی ہیں کہ ان کا احاطہ نہیں کیا جاسکتا البتہ ان تمام صورتوں کی ایک عام شکل یہ نکلتی ہے کہ دوسروں کے ساتھ ایسا نیک سلوک کرنا جس سے ان کا دل خوش ہو اور ان کو آرام پہنچے ۔ پس والدین کے ساتھ ایسا سلوک کرنا جس سے ان کا دل خوش ہو اور ان کو آرام پہنچے ” احسان “ ہوگا اور یہ کام اتنا مشکل ہے کہ شاید ہی اس سے زیادہ کوئی کام دنیا میں مشکل ہو یہی وجہ ہے کہ اس کو توحید الہی کے ساتھ جوڑ دیا گیا کہ نام دونوں ہی آسان ہیں لیکن کام دونوں ہی نہایت مشکل ہیں اللہ کا خاص فضل ہے اس انسان پر جو ان دونوں کاموں میں سرخرو ہو سکے ۔ (آیت) ” فلا تقل لھما اف “۔ تم انہیں (اف) تک مت کہو (اف) کیا ہے ؟ (اف) وہی ہے جس کو ہم اپنی گفتگو اور بول چال میں ” ہو۔۔۔۔۔۔ ں “ کہہ کر بولتے ہیں اور اس کو جتنا لمبا کرتے ہیں اتنی ہی دوسرے کی تحقیر مطلوب ہوتی ہے ، جب اس ” ہو۔۔۔۔ ں “ کو منع کیا گیا تو ظاہر ہے کہ جو چیزیں اس سے بڑھ کر ان کے مقابلہ میں گستاخانہ یا ان کے حق میں تکلیف دہ ہیں ان کی ممانعت تو کہیں زائد ہوں گی ۔ اس حکم کا مطلب یہ ہے کہ والدین کو قولا فعلا بڑی چھوٹی کسی قسم کسی قسم کی بھی اذیت پہنچانا جائز نہیں صرف لفظ (اف) یا ’ ہو۔۔۔۔۔ ں “ کے تلفظ سے ہی روکتا نہیں۔ اس لئے اگر کوئی شخص ماں باپ کے سامنے لفظ ” اف “ یا ” ہو۔۔۔۔۔۔۔ ں “ نہ کہے اور کام سارے ان کی ناراضگی اور ناخوشی کے کرے تو وہ اس حکم کی زد سے بچ نہیں سکتا اور نہیں کہا جاسکتا کہ اس نے اف تک نہیں کی ۔ (آیت) ” ولا تنھرھما “۔ اور انہیں مت جھڑکو اور ڈانٹ ڈپٹ مت کرو۔ ظاہر ہے کہ بڑھاپے کے عوارض طبعی طور پر انسان کو چڑچڑا بنا دیتے ہیں اور یہ بھی کہ بڑھاپے کے آخری دور میں جب عقل وفہم جواب دینے لگتے ہیں تو ان کی خواہشات ومطالبات کچھ ایسے بھی ہوجاتے ہیں جن کا پورا کرنا اولاد کے لئے مشکل ہوتا ہے ایسے حالات میں والدین کی دل جوئی اور راحت رسانی کے احکامات دینے کے ساتھ انسان کو اس کا زمانہ طفولیت یاد دلایا کہ ایک وقت تھا کہ تم بھی اپنے والدین کے اس سے زیادہ محتاج تھے جس قدر آج وہ تمہارے محتاج ہیں تم بھی کتنی ضدیں کرچکے ہو تو جس طرح انہوں نے اپنی راحت و خواہشات کو اس وقت تم پر قربان کیا اور تمہاری بےعقلی ور بیوقوفی کی باتوں کو انہوں نے پیار کے ساتھ برداشت کیا اب جب کہ محتاجی کا وقت ان پر آیا ہے تو عقل و شرافت کا تقاضا ہے کہ انکے اس احسان کا بدلہ تم بھی دو اور کوئی فعل وعمل ایسا نہ کرو جو ان کے لئے مزید تکلیف کا باعث ہو اور ان کے ایسے حالات میں بھی کوئی بات کرو تو بڑی تعظیم کے ساتھ کرو ورنہ خاموش رہو اور اپنے آپ سے باہر مت ہوجاؤ بلاشبہ یہ کام بہت مشکل اور کٹھن ہے لیکن ذرا غور کرو کہ ہر مشکل کا ایک سرا آسانی کے ساتھ ملتا ہے ، مشکل کو جب مشکل نہیں سمجھے گے تو وہ یقینا آسان ہوگی ۔ اس کو کہتے ہیں کہ مشکلیں اتنی پڑیں کہ آساں ہوگئیں :
Top