Mafhoom-ul-Quran - Al-Israa : 23
وَ قَضٰى رَبُّكَ اَلَّا تَعْبُدُوْۤا اِلَّاۤ اِیَّاهُ وَ بِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًا١ؕ اِمَّا یَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ اَحَدُهُمَاۤ اَوْ كِلٰهُمَا فَلَا تَقُلْ لَّهُمَاۤ اُفٍّ وَّ لَا تَنْهَرْهُمَا وَ قُلْ لَّهُمَا قَوْلًا كَرِیْمًا
وَقَضٰى : اور حکم فرمادیا رَبُّكَ : تیرا رب اَلَّا تَعْبُدُوْٓا : کہ نہ عبادت کرو اِلَّآ اِيَّاهُ : اس کے سوا وَبِالْوَالِدَيْنِ : اور ماں باپ سے اِحْسَانًا : حسن سلوک اِمَّا يَبْلُغَنَّ : اگر وہ پہنچ جائیں عِنْدَكَ : تیرے سامنے الْكِبَرَ : بڑھاپا اَحَدُهُمَآ : ان میں سے ایک اَوْ : یا كِلٰهُمَا : وہ دونوں فَلَا تَقُلْ : تو نہ کہہ لَّهُمَآ : انہیں اُفٍّ : اف وَّلَا تَنْهَرْهُمَا : اور نہ جھڑکو انہیں وَقُلْ : اور کہو لَّهُمَا : ان دونوں سے قَوْلًا : بات كَرِيْمًا : ادب کے ساتھ
اور تمہارے رب نے ارشاد فرمایا ہے کہ اس کے سوا کسی اور کی عبادت نہ کرو اور ماں باپ کے ساتھ بھلائی کرتے رہو اگر ان میں سے ایک یا دونوں تمہارے سامنے بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو ان کو اف تک نہ کہنا اور نہ انہیں جھڑکنا اور ان کے ساتھ بات ادب کے ساتھ کرنا۔
بہترین آداب زندگی کے قرآنی اصول تشریح : جب ہم سوچتے ہیں کہ آخر وہ کون سی ایسی خاص بات تھی کہ جس کی وجہ سے ایک شخص اکیلا توحید کا پیغام لے کر کھڑا ہوا جو اس وقت کے لحاظ سے مالی طور پر کوئی خاص اہمیت نہ رکھتا تھا۔ اس وقت مکہ میں بہت بڑے بڑے رئوسا موجود تھے مگر اللہ نے اس شخص کو امانت، رسالت اور نبوت کے لیے منتخب کیا جو اخلاقی، کردار، حسن سلوک، پرہیزگاری، امانت دیانت اور محبت و خلوص میں سب سے بلند درجہ رکھتا تھا تو ظاہر ہوا کہ انسان کی روحانی حیثیت مادی حیثیت سے زیادہ اہمیت رکھتی ہے وہ مرد کامل حضرت محمد ﷺ اپنی روحانی بلندی کی وجہ سے مقبول الٰہی بندہ ہوگیا اور پھر اللہ کی وکالت اور مدد حاصل کر کے کفار عرب سے ٹکرا گیا اور دیکھتے ہی دیکھتے اس مرد آہن نے پورے عرب پر اسلام کا جھنڈا لہرا دیا پورے عرب پر ہی نہیں بلکہ اس وقت دنیا کے ہر ملک میں مسلمانوں کی تعداد کافی موجود ہے۔ یہ آیات بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ مسلمان کی زندگی کا منشور اس وقت دیا گیا جب مکہ کی زندگی کا اختتام اور مدینہ کی نئی زندگی کا آغاز ہو رہا تھا۔ اللہ کا دیا ہوا یہ ہدایت نامہ انسانی زندگی کے ہر شعبہ کو اپنے اندر سمیٹے ہوئے ہے۔ اللہ کیونکہ سمیع وبصیر، خالق و معبود، فتاح و رزاق، مبدی و محصی، مالک الملک اور ارحم الراحمین ہے۔ اس نے انسان کو پیدا کیا اس کے آرام کے لیے آسمان زمین اور ہر قسم کی تمام چیزیں پیدا کردیں اور پھر اخلاقی مذہبی، تمدنی غرض زندگی کو بہترین طریقہ سے گزارنے اور اصول سمجھانے کے لیے انبیاء بھیجے، آسمانی صحیفے بھیجے جو وقت کے ساتھ ساتھ ختم ہوتے چلے گئے تو سب سے آخر میں انسان کی اصلاح و تربیت کے لیے حضرت محمد ﷺ کو آخری کتاب (قرآن مجید) دے کر بھیجا جو سب سے بڑی ہدایت کی کتاب ہے۔ اس میں انسان کے لیے دنیا و آخرت کے لیے تمام نعمتیں، برکتیں اور آسائشیں جمع کردی گئی ہیں۔ ان آیات میں وہ زندگی کا بہترین چارٹ بنا کر دے دیا گیا ہے جو کوئی بڑے سے بڑا عالم فاضل نہیں بنا سکتا۔ ملاحظہ ہو : انسان کو اس کے خالق کی پہچان دلائی گئی۔ اور فرمایا : ” اور تیرے رب نے حکم دیا ہے کہ اس کے علاوہ کسی کی عبادت نہ کرو۔ ، ، ( سورة بنی اسرائیل آیت : 23 ) جب ایک بندہ کہتا ہے ” لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ “ تو اس کا مطلب ہے اس نے اپنے آپ کو ہر ہر لحاظ سے ایک اکیلے اللہ کی بندگی میں دے دیا، یعنی اب اس کا جینا، مرنا، ہنسنا، بولنا، اٹھنا، بیٹھنا، غرض اس نے اپنی مشکل اپنی خوشی اپنادکھ، اپنا سکھ سب اللہ کے سپرد کردیا اور خود اس کی محبت میں مست دنیا کے کاموں میں مصروف ہوگیا اور یوں وہ دنیا کے رنج و الم اور خوف و خطر سے بالکل محفوظ ہوگیا اسی لیے تو فرمایا ” نہ اس پر خوف ہے اور نہ وہ غمگین ہوتے ہیں “ ایسے مرد کا مل کا اپنے رب پر اس قدر اعتماد اور یقین ہوتا ہے کہ کوئی مشکل کوئی پریشانی کوئی جن اور کوئی انسان کسی صورت بھی اسے ہرا نہیں سکتا۔ ایسا شخص صبر، بہادری اور یقین کی ایسی مضبوط چٹان بن جاتا ہے کہ دنیا کی کوئی طاقت اس کو زیر نہیں کرسکتی۔ ہمارے سامنے ہمارے پیارے نبی محمد ﷺ کی اتنی شاندار مثال موجود ہے۔ ان کو اپنے رب سے محبت تھی۔ وہ اپنی زندگی کے ہر مرحلہ میں اس قدر کامیاب و کامران رہے کہ ان کے جانی دشمن بھی ان کو صادق (سچا) اور امین (امانت دار) کہتے تھے۔ اور پھر انہوں نے دنیا کو اسلام کی تعلیم اس کامیابی سے دی کہ باقی جتنے پیغمبر آئے وہ کسی قوم یا خاص ملک کے لیے آئے اور کچھ عرصہ بعد ان کی تعلیمات قوم اور ملک ختم ہوگئے مگر پیارے رسول حضرت محمد ﷺ پوری دنیا کے لیے رسول بنا کر بھیجے گئے اور ان کی تعلیمات ان پر نازل ہونے والی کتاب قرآن پاک تا قیامت محفوظ رہے گی۔ یہ اللہ کا وعدہ ہے۔ اب ہم ذرا ان تعلیمات پر غور و فکر کرتے ہیں جن کی برکت سے مسلمان کو تمام اقوام عالم پر فضیلت دی گئی۔ ہمیں اللہ تعالیٰ نے اپنی محبت اور بندوں کی محبت کا سبق دیا ہے۔ یعنی حقوق اللہ اور حقوق العباد۔ حقوق اللہ میں توحید، نماز، زکوٰۃ، روزہ اور حج آجاتا ہے۔ دیکھا جائے تو یہ عبادات انسانی عمارت کی بنیاد کی حیثیت رکھتی ہیں۔ جب ہمارا اعتقاد اللہ پر اس قدر پکا ہوجاتا ہے کہ اس کے سوا نہ ہمیں کسی نے پیدا کیا ہے اور نہ ہی ہمارا کوئی اور رازق ہے تو ہماری زندگی کی یہ بنیادی اینٹ بالکل سیدھی اور مضبوط ہوجاتی ہے۔ اور یوں ہم دنیا کی تمام خباثتوں، رنج و غم اور پریشانیوں سے آزاد ہوجاتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ مسلمان کو کوئی تکلیف ہی نہیں پہنچتی۔ دکھ سکھ، رنج و راحت، کامیابی و ناکامی، نفع و نقصان یہ سب کچھ انسانی زندگی کا ضروری حصہ ہیں کیونکہ اگر زندگی صرف ایک ہی طرح گزرنے لگے بیشک خوشی ہی خوشی ہو تو انسان کی فطرت ہے وہ اکتا جاتا ہے اسی لیے ملے جلے حالات کا نام ہے بہتر زندگی اور پھر اس کو بہترین بنانے کا طریقہ ہے رب سے محبت۔ جب اللہ پر یقین پکا ہوجاتا ہے تو پھر کوئی غم، غم نہیں لگتا۔ توحید کے علاوہ جتنی عبادات ہیں ان کے بارے میں بڑی تفصیل سے بیان کیا جا چکا ہے۔ مختصراً یہ ہے کہ تمام عبادات انسان کے اپنے بھلے اور کامیابی کا ذریعہ ہیں۔ عبادت تو اللہ کی کرتے ہیں مگر جسمانی، روحانی، تمدنی اور اخلاقی کامیابیاں خود ہمیں اپنے لیے حاصل ہوتی رہتی ہیں۔ اور ہم ایک فرد یا افراد ہوں ہر طرح دنیا و آخرت کو فتح کرلیتے ہیں۔ بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ ان عبادات میں اللہ کو کوئی فائدہ نہیں ہوتا بلکہ سو فیصد فائدہ خود انسان کا اپنا ہی ہوتا ہے۔ اب آتے ہیں حقوق العباد کی طرف۔ حقوق العباد کا کیا کہنا یہ تو خوشیوں، برکتوں، کامیابیوں اور سکون کی گویا کنجی ہے۔ حقوق العباد کو ہم دو حصوں میں تقسیم کرسکتے ہیں۔ یعنی انسانی اخلاقی اور دوسرا آپس کے معاملات۔ انسان سوشل حیوان ہے۔ یہ اکیلا نہیں رہ سکتا۔ جیسا کہ حضرت آدم (علیہ السلام) کے ساتھ حضرت حوا کی اور پھر ان کی اولاد کی کہانی ہے۔ لیکن کیونکہ مل جل کر رہنے میں لڑائی جھگڑا بھی ہوجاتا ہے جو معاملات و اخلاقیات پر مبنی ہے تو اس کے لیے جو سب سے پہلا اصول اللہ نے اپنے بندے کو بتایا وہ ہے والدین کا ادب (1) والدین کا ادب : پہلا خالق اللہ ہے اور دوسرا پیدائش کا ذریعہ والدین ہیں۔ اللہ کے بعد ان کی فرمانبرداری پر بڑا زور دیا گیا ہے۔ خاص طور سے جب وہ بوڑھے ہوجائیں ان کے ساتھ سلوک کو اللہ نے ایک چھوٹے سے جملہ میں سمیٹ دیا ہے فرمایا : ” والدین کے ساتھ نیک سلوک کرو، اگر تمہارے پاس ان میں سے کوئی ایک یا دونوں بوڑھے ہوجائیں تو انہیں اف تک نہ کہو، نہ انہیں جھڑک کر جواب دو ، بلکہ ان کے ساتھ احترام سے بات کرو، نرمی و رحم کے ساتھ ان کے سامنے جھک کر رہو، اور دعا کیا کرو کہ ” پروردگار ! ان پر رحم فرما جس طرح انہوں نے رحمت و شفقت کے ساتھ مجھے بچپن میں پالا تھا۔ “ (بنی اسرائیل آیت :23 ) یہ بنیادی فرق ہے مسلم اور غیر مسلم کے خاندانی دستور کا۔ اسی لیے نبی کریم ﷺ نے فرمایا : ” رب کی رضا والد کی رضا اور رب کی ناراضگی باپ کی نارضگی میں ہے۔ “ صرف ایک حکم ہے جو والدین کا ماننا منع ہے وہ ہے شرک و کفر کا حکم۔ (2) ” اور رشتہ داروں محتاجوں اور مسافروں کو ان کا حق ادا کرو۔ “ (آیت 26 ) یہ انسانی محبت آپس میں بھائی چارے اور مال کی تقسیم کا بہترین ذریعہ ہے۔ اور انہیں تین دفعات پر مدینہ کے معاشرے کا اخلاقی نظام ترتیب دیا گیا جس کی وجہ سے غیر مسلم اسلام کی طرف بےساختہ جھکتے چلے گئے اور لوگ خود بخود اس بہترین اخلاقی نظام کے عادی ہوگئے اور پورے ماحول میں فیاضی، تعاون، بھائی چارے اور ہمدردی کا طریقہ جڑ پکڑ گیا اور یوں اسلام مضبوط اور مقبول مذہب ثابت ہوا۔ (3) ” فضول خرچی سے بچو۔ “ اللہ نے فرمایا : ” اور فضول خرچی سے مال نہ اڑائو۔ “ (بنی اسرائیل آیت : 26 ) یہ ذہنی اور اخلاقی تربیت کا بہترین نسخہ ہے۔ اس سے عیاشی کا رجحان ختم ہوتا ہے، دوسرے قانونی طور پر بےجا مال خرچ کرنے سے روکا گیا ہے، تیسرے معاشرتی اصلاح کے ذریعہ ان تمام فضول رسموں کا خاتمہ کیا گیا ہے جو غلط اور بےکار ہیں۔ چوتھے صدقات و خیرات اور زکوٰۃ کے احکام سے دولت بجائے جمع ہونے کے گردش میں رہنے لگی اور یوں مدینہ کی نئی ریاست کو ایک بہترین قانون کے ذریعے مضبوط اور دوسروں سے معروف بنا دیا گیا اور اس اخلاقی تربیت کا اثر آج بھی مسلم معاشرے میں نظر آتا ہے۔ جو اس سے ہٹ کر زندگی گزارتے ہیں وہ اللہ کے گنہگار اور ناکام لوگ ہیں کیونکہ ضرورت سے زیادہ مال جمع کرنا حرام ہے۔ (4) میانہ روی : یہ انسانی زندگی میں بےحد ضروری ہے۔ نہ صرف یہ کہ مال و دولت میں ہی میانہ روی اختیار کرو بلکہ زندگی کے ہر شعبہ میں ’ میانہ روی، مصیبت، پریشانی اور بےچینی سے بچاتی ہے۔ اللہ اپنے بندوں کو بڑی اچھی طرح جانتا ہے اور دیکھتا ہے۔ اس کا یہ نظام ہے کہ اس نے تمام لوگوں کو روزی رزق میں برابر نہیں رکھا ہوا۔ یہ بھی اس کی بہت بڑی حکمت ہے (وضاحت پچھلے اسباق میں ہوچکی ہے) اس اونچ نیچ کو بھی مدینہ کی سیاسی زندگی کو معمول پر لانے کے لیے یہی قانون نافذ کیا گیا کہ اعتدال سے کام لیا جائے تاکہ معاشی لحاظ سے لوگوں میں جو فرق اللہ نے رکھا ہوا ہے وہ بجائے ظلم و ناانصافی کے بہترین اخلاقی، روحانی اور تمدنی اصلاح کا ذریعہ بن جائے۔ اور یوں مسلم معاشرہ دوسرے تمام معاشروں سے ممتاز ہوجائے اس منشور کی یہ دفع بھی اسلام کی مضبوطی اور کامیابی کا ذریعہ بنی۔ (5) ” مفلسی کے باعث اولاد کو قتل نہ کرو۔ “ (بنی اسرائیل آیت : 31 ) انوار القرآن میں ڈاکٹر ملک غلام مرتضیٰ صاحب نے بڑی اچھی وضاحت کی ہے لکھتے ہیں : ” قدیم زمانے میں لوگ افلاس کے خوف سے اولاد کو قتل کردیتے تھے امت محمدیہ کو اس قبیح کام سے روکا گیا ہے بلکہ خاص طور پر آپ نے ایک موقعہ پر ارشاد فرمایا کہ : ” ایسی عورتوں کے ساتھ شادی کرو جو محبت کرنے والی اور زیادہ بچے جننے والی ہوں تاکہ میں کل صبح قیامت کے دن اپنی امت کی کثرت پر فخر کرسکوں۔ “ ڈاکٹر صاحب مزید لکھتے ہیں۔ ” اس سائنسی اور میڈیا کے دور میں برتھ کنٹرول کے لیے کیے جانے والے اقدامات اور اس کی تشہیر کے بارے میں بحیثیت مسلم ہمیں غور کرنا چاہیے۔ یوں معلوم ہوتا ہے کہ غیر مسلم ادارے تیسری دنیا خصوصاً مسلم ممالک میں برتھ کنٹرول کے ذریعے امت مسلمہ کی تعداد کو محدود کرنا چاہتے ہیں جبکہ ترقی یافتہ ممالک میں اس کا تصور تک نہیں جہاں تک وسائل اور افلاس کا معاملہ ہے باری تعالیٰ کا اس بارے میں ارشاد مبارک ہے۔ “ ” ان کو اور تم کو ہم ہی رزق دیتے ہیں۔ “ (بنی اسرائیل آیت : 31 از انوار القرآن) تاریخ کا تجربہ بھی یہی بتاتا ہے کہ دنیا کے مختلف ملکوں میں کھانے والی آبادی جتنی بڑھتی گئی اتنے ہی زیادہ معاشی ذرائع وسیع ہوتے گئے۔ تو ثابت ہوا کہ اللہ کے اس تخلیقی پروگرام میں دخل دے کر صرف اپنے آپ کو گنہگار بنانے والی بات ہے۔ ورنہ اس نے تو ہر طرح کا بندوبست خود ہی کر رکھا ہے۔ انسان کو چاہیے بجائے اللہ کی اس رضا میں دخل دینے کے اس کے پیدا کیے ہوئے وسائل پر توجہ دے اور محنت و کوشش کو اپنا شعار بنائے۔ (6) ” زنا کے قریب مت جاؤ کہ یہ بےحیائی ہے۔ “ (بنی اسرائیل : 32 ) یہاں یہ نہیں فرمایا کہ ” زنا نہ کرو۔ “ بلکہ یہ حکم دیا گیا ہے کہ ” زنا کے قریب مت جاؤ۔ “ ” زنا کی طرف جانا “ یہ ہر اس قدم کی طرف اشارہ کرتا ہے جو معاشرے میں بےحیائی، مردو زن کا کھلے عام ملنا جلنا، سر عام عورتوں کا کھلے منہ بےپردہ سج بن کر بازاروں میں، پارکوں میں، تفریح گاہوں میں، غرض گھر سے باہر بےمقصد نکلنا یہ سب انہی راستوں میں شمار ہوتا ہے جو بےحیائی کے راستے زنا تک پہنچاتے ہیں اور پھر زنا میں بیشمار صورتیں شامل ہیں۔ آنکھ، کان، ناک، دل، دماغ غرض جسم کا ہر وہ حصہ جو بےحیائی کی طرف بڑھے زنا میں شامل ہے۔ یہ دفعہ اسلامی نظام زندگی کی مضبوط بنیاد بنی، کیونکہ بےحیائی کے تمام راستے قانوناً سختی سے بند کردیے گئے وہ اس طرح کہ اسلامی ملک میں زنا اور تہمت زنا کو فوجداری جرم قرار دیا گیا۔ پردے کے احکام جاری کیے گئے، شراب موسیقی اور تمام اخلاقی برائیوں پر پوری طرح بندش لگائی گئی اور پھر نکاح ایسے اچھے اور آسان طریقے کے وضع کردیے گئے کہ یہ اخلاقی گناہ خود بخود ختم ہوگیا۔ اب اگر ہم اپنے اس معاشی، تمدنی اور معاشرتی دستور پر غور کریں تو یہ پر سکون ماحول ہمیں اسلامی ممالک میں ہی دکھائی دیتا ہے۔ اور یہ بہت بڑی رحمت ہے ہم مسلمانوں پر کہ اللہ نے اس اتنی بڑی خباثت، گناہ اور اخلاقی پستی سے بچا کر پر سکون راستہ دکھایا۔ آج اگر ہم غور کریں تو ہمیں اسلامی معاشرے اور غیر اسلامی معاشرے میں زمین آسمان کا فرق نظر آتا ہے۔ ہمارے مرد، عورتیں اور بچے پرسکون پاکیزہ اور انتہائی خوبصورت زندگیاں گزار رہے ہیں جبکہ غیر اسلامی ممالک میں سکون نام کی کوئی چیز نظر نہیں آتی کیونکہ ازدواجی اور خاندانی نظام اس قدر ناقص ہے کہ کسی کو نہ سکون ہے نہ آرام۔ وہ لوگ سکون کی تلاش میں نائٹ کلب، رقص و سرود اور نشہ آور مشروبات کا رخ کرتے ہیں۔ اور یہ راستے سوائے تنزل کے اور کہیں نہیں جاتے۔ اللہ ہم تمام مسلمانوں کو ان تمام بدکرداریوں سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ہر طرح سے محفوظ و مامون رکھے۔ آمین ثم آمین۔ (7) قتل و غارت سے بچو۔ اللہ فرماتا ہے : ” اور جس جاندار کو مارنا اللہ تعالیٰ نے حرام کیا ہے تم اس کو نہ مارو سوائے حق کے۔ “ (بنی اسرائیل آیت : 33 ) قتل کے بارے میں سورة بقرہ میں کافی تفصیلات بیان کی جا چکی ہیں۔ یہاں ” حق کے ساتھ، ، کی وضاحت مقصود ہے۔ اور اس میں قصاص، سزا اور جنگ اسلامی حکومت کو الٹنے کی کوشش اور پانچواں ارتداد شامل ہے۔ قتل بالحق انہی پانچ صورتوں میں جائز ہے۔ اسی طرح خود کشی بھی قتل کے گناہ میں شمار ہوتی ہے۔ کچھ صورتیں یوں بھی قتل کے گناہ میں شمار ہوتی ہیں مثلاً انتقام کے جوش میں مجرم کے علاوہ دوسروں کو بھی مار دینا، مجرم کو تکلیف دے دے کر مارنا، مار دینے کے بعد اس کی لاش کی بےحرمتی کرنا اور خون بہا لینے کے بعد پھر بھی اس کو قتل کردینا۔ یہ تمام قتل کے گناہ میں شمار ہوتے ہیں۔ یہ سب اللہ کی مقرر کی ہوئی حدود ہیں جو اسلامی ممالک کو بےسکونی افراتفری اور جھگڑے فساد سے بچا کر ایک انتہائی پرسکون ماحول دیتی ہیں۔ قتل کے بارے میں سورة الانعام کی آیت 151 میں تفصیلاً گزر چکا ہے، حدیث میں آتا ہے کہ شرک کے بعد قتل سب سے بڑا گناہ ہے۔ (8) یتیم کے مال کی حفاظت : اللہ نے فرمایا یتیم کے مال کے قریب نہ جاؤ، علاوہ اس راستے کے جو بہتر ہے۔ “ (بنی اسرائیل آیت : 34 ) یہ بھی اسلامی قانون کی ایک خاص ہدایت ہے۔ کیونکہ جب اسلامی حکومت قائم ہوئی تو یہ اصول قانونی طور پر نافذ کیا گیا کہ جو اپنے مال کی خود حفاظت نہ کرسکیں تو اسلامی ریاست اپنے ایسے تمام شہریوں کی حفاظت کی ذمہ دار ہے۔ اس کی تمام تفصیلات سورة نساء میں بیان کی جا چکی ہیں۔ بہر حال اسلامی دستور کی یہ بھی ایک بڑی بنیادی اور کار آمد شق ہے۔ جب اسلامی حکومت قائم ہوئی تو یتامیٰ کے حقوق کی حفاظت کے لیے انتظامی اور قانونی تدابیر اختیار کی گئیں۔ (9) عہد کی پابندی : اللہ نے فرمایا ” وعدے کو پورا کرو کیونکہ وعدے کے بارے میں ضرور باز پرس ہوگی۔ “ (بنی اسرائیل آیت : 34 ) ڈاکٹر ملک غلام مرتضیٰ صاحب لکھتے ہیں۔ ” ایفائے عہد کا مسئلہ انفرادی اخلاقیات کا نہیں بلکہ قومی، ملکی اور اجتماعی معاملات بھی اس کی زد میں آتے ہیں۔ اس مسئلہ پر ہم پاکستانیوں کو خصوصاً غور کرنا چاہیے کہ من حیث القوم (ایک قوم ہونے کی صورت میں) ہم نے اللہ تعالیٰ کے ساتھ اس برصغیر کی تقسیم کے وقت کیا عہد کیا تھا ؟ اور اگر ہم نے ایفائے عہد نہیں کیا اور یقینا ہم ایسا نہیں کرسکے تو ہم اللہ کے حضور کس طرح جواب دہی کے لیے کھڑے ہو سکیں گے۔ ؟ “ (ازانوار القرآن) پاکستان بننے کے وقت ہم یہ نعرہ لگا رہے تھے۔ ” پاکستان کا مطلب کیا ؟ لَا اِلَہ الاّ اللّٰہ “ سب کے سامنے ہے کہ ہم سب نے مل کر پاکستان کا کیا حال بنا دیا ہے، حالانکہ جب مدینہ میں اسلامی حکومت قائم ہوئی تو اسی دفعہ کو داخلی اور خارجی سیاست کی بنیاد بنایا گیا، پاکستان میں وعدہ کی پابندی کیوں نہیں کی گئی، جبکہ وعدہ کی پابندی کرنا آج بھی مسلمانوں کا امتیازی کردار سمجھا جاتا ہے۔ (10) وزن کو پورا کرنا : اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : ” اور جب کوئی چیز ناپ کردینے لگو تو پیمانہ پورا بھرا کرو اور جب تول کر دو تو ترازو سیدھی رکھو۔ “ (بنی اسرائیل آیت : 35) تجارت کا شعبہ ایمانداری اور باہمی اعتماد پر ہی چلتا ہے۔ جس قدر سچائی اور دیانت داری سے کام لیا جائے اسی قدر تجارت بڑھتی ہے اور چمکتی ہے۔ یہ بھی ایک بنیادی اصول ہے جو قانون کی شکل میں نافذ کیا گیا، لہٰذا جب اسلامی حکومت کا قیام عمل میں آیا تو یہ قانون حکومت کے فرائض میں شامل کیا گیا کہ حکومتی کارندے بذات خود منڈیوں اور بازاروں میں روائتی اوزان کی جانچ پڑتال کریں اور ہر قسم کی بےاعتدالی، بےایمانی اور دھوکہ سے معاشرے کو بالکل پاک صاف کردیں۔ تاکہ مسلمان کا کردار کھل کر سامنے آجائے اور لوگ مسلمانوں سے تجارت کرتے ہوئے پورے اطمینان کا اظہار کریں۔ سورة اعراف میں آیا ہے کہ ناپ تول میں کمی بیشی کے باعث ہی قوم شعیب پر تباہی آئی تھی۔ اس بارے میں مکمل تفصیلات بیان کی جا چکی ہیں۔ (11) اعضاء کی حفاظت کرو۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ” کسی ایسی چیز کے پیچھے نہ لگو جس کا تمہیں علم نہ ہو۔ یقینا آنکھ، کان اور دل سب کی ہی پوچھ گچھ ہوگی۔ “ اس دفعہ کے لگانے کا مقصد یہ ہے کہ وہ تمام معاشرتی برائیاں جڑ سے ختم کردی جائیں جو کسی گھر محلے یا شہر یا ملک کی تباہی و بربادی کا سبب بنتی ہیں۔ ان کا تعلق انسان کے کان آنکھ اور دل سے بہت قریبی ہے۔ مطلب اس کا یہ ہے کہ افواہیں پھیلانا، تہمت لگانا، بدگمانی اور بغیر تحقیق کے کوئی بھی بات کہہ دینا چاہے وہ کسی فرد کے بارے میں ہو جماعت یا ملک کے بارے میں ہو۔ ملکی، گھریلو، کسی خبر یا علمی نکتہ کے بارے میں ہو مکمل تحقیقات کے بغیر اس کے بارے میں صرف گمان یا شک کی صورت میں بول دینا بڑا سخت اخلاقی گناہ ہے اس سے کسی گھر میں، شہر یا ملک میں، خاندان میں، کئی قسم کی لڑائیاں، بدگمانیاں اور فساد پیدا ہوسکتے ہیں اسی لیے اسلامی قانون میں یہ شامل کردیا گیا ہے کہ کسی کو محض شک کی بنا پر حوالات میں دے دینا، مارپیٹ کرنا بالکل ناجائز ہے۔ اور اوپر دیے گئے تمام احکامات پر سختی سے عمل کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔ اور خبردار کیا گیا ہے کہ دنیا میں تو اس قانون شکنی کا جو دکھ اٹھانا پڑے گا وہ تو ہے ہی اس کے علاوہ جو محاسبہ آخرت میں ہوگا اس کا تو اندازہ ہی نہیں۔ اللہ رحیم ہے مگر جبار بھی ہے۔ اس کی پکڑ اور سزا معمولی نہ ہوگی۔ کان، آنکھ اور دل سے سوال کیا جائے گا کہ کیا اس نے سنا تھا، دیکھا تھا اور جانا تھا۔ (12) اترا کر، غرور سے اکڑ کر نہ چلو اللہ جل شانہ، فرماتے ہیں : ” زمین پر اکڑ کر نہ چلو کیونکہ تم نہ زمین کو پھاڑ سکتے ہو نہ پہاڑوں کی بلندی کو پہنچ سکتے ہو۔ “ (بنی اسرائیل آیت : 37) القصص :81 میں قارون کا دھنسا دینا مذکور ہے۔ چال بھی انسانی کردار کا آئینہ ہوتی ہے۔ اسی لیے اللہ رب العزت نے اپنے دیے گئے منشور میں متکبرانہ چال کو ناپسند فرمایا ہے۔ اس کے پیچھے بھی بیشمار اخلاقی برائیاں موجود ہیں جو نہ صرف ایک فرد پر ہی اثر ڈالتی ہیں بلکہ پوری قوم اس کی زد میں آجاتی ہے، لہٰذا مدینہ منورہ میں جو حکومت قائم ہوئی اس کے اسی منشور کی وجہ سے فرد سے لے کر فرماں روا، گورنر اور سپہ سالار تک سب کو عاجزی و انکساری سے رہنے کی تلقین کی گئی تھی حتیٰ کہ حالت جنگ میں فاتح کی حیثیت سے کسی شہر میں داخل ہوتے ہوئے کبھی بھی غرور، رعب داب اور فخر کا اظہار ہرگز نہ کرتے تھے بلکہ ان میں عجزو انکساری فقیری اور درویشی کے فضائل پائے جاتے تھے۔ علامہ اقبال فرماتے ہیں ؎ مرا طریق امیری نہیں فقیری ہے خودی نہ بیچ غریبی میں نام پیدا کر پھر آخر میں الہ العٰلمین وضاحت کرتے ہیں کہ سب کچھ اچھائی برائی وضاحت سے بیان کردی گئی ہے اب جو لوگ احکام الٰہی کی نافرمانی کرتے ہوئے برائیوں کو اپنائیں گے وہ مقبول الٰہی کیسے ہوسکتے ہیں۔ اور پھر تاکیداً بتا دیا گیا کہ تمام حکمت و دانائی وعظ و نصیحت کی باتیں اے نبی ﷺ ہم نے آپ کی طرف وحی کر کے بتائی ہیں، یعنی یہ کسی فرد کی خود بنائی ہوئی باتیں نہیں ہیں۔ جب ہم نے یہ سب کچھ غور سے پڑھ لیا تو یہ راز معلوم ہوگیا کہ آخر وہ کون سا راز تھا کہ مدینہ اتنی کم مدت میں اس قدر شاندار اور کامیاب اسلامی ریاست بن گئی۔ مودودی صاحب اس کو اس طرح بیان کرتے ہیں۔ ” اسلام اور حکومت دو جڑواں بھائی ہیں۔ دونوں میں سے کوئی ایک دوسرے کے بغیر درست نہیں ہوسکتا، پس اسلام کی مثال ایک عمارت کی ہے اور حکومت گویا اس کی نگہبان ہے۔ جس عمارت کی بنیاد نہ ہو وہ گر جاتی ہے اور جس کا نگہبان نہ ہو وہ لوٹ لیا جاتا ہے۔ “ (از سید ابو الاعلی مودودی) عہد رسالت میں مدینہ کی ریاست میں کسی شخص کی حاکمیت کی بجائے اللہ کی حاکمیت تھی۔ حضرت محمد ﷺ ریاست کے سربراہ تھے مصلح اور معلم بھی تھے۔ اس وقت کوئی تحریری دستور نہ تھا لیکن قرآن کے احکام اور احادیث رسول کی روشنی میں زندگی کے تمام پہلوئوں کو سامنے رکھ کر ایک خاص ہدایت نامہ اللہ کی طرف سے نافذ کردیا گیا تھا۔ عام طور پر حکومت عوام کی اخلاقی اصلاح کی طرف سے لا تعلق ہوتی ہے مگر مدینہ کی ریاست میں حکومت عوام کی اخلاقی اصلاح کی طرف خاص توجہ دیتی تھی وہ ایسے حالات پیدا کرنا چاہتی تھی جن میں انسان ایک کامل انسان بن سکے کیونکہ اس طرح ملک خود بخود ہی سیاست، معیشت، اخلاق، تعلیم، صنعت و حرفت، زراعت اور معاشرتی امور میں انتہائی مضبوط اور کامیاب ملک بن سکتا ہے۔ کیونکہ بہترین کردار کے لوگ بہترین کارنامے انجام دیتے ہیں، مثلاً جس معاشرے میں کفر و شرک، جھوٹ، بہتان، چوری، جوا، شراب، بےحیائی، ناانصافی، بےایمانی، قتل و غارت گری، زنا، بےپردگی اور فسق و فجور پر پابندی حکومتی سطح پر لگا دی جائے بھلا ایسا معاشرہ کیونکر نقصان اٹھا سکتا ہے۔ اور پھر سب سے بڑی بات خاندانی مضبوطی ہے۔ جہاں خاندان مضبوط ہوتے ہیں وہاں نظم و ضبط اور اتحاد و تنظیم کی ہرگز کمی نہیں ہوتی۔ مسلمان کو حکم دیا گیا ہے کہ نکاح کریں تاکہ حرامکاری کا خاتمہ ہو سکے۔ کیونکہ یہ انسانیت کی سب سے بڑی ذلت کا نشان ہے۔ کو ریا اور ویتنام امریکی فوجیوں کے ناجائز بچوں سے بھرا پڑا ہے۔ آپ خود سوچ سکتے ہیں کہ یہ لاوارث بچے بڑے ہو کر کیا کچھ غلط کاریاں نہ کرتے ہوں گے۔ اسی طرح نسل کشی کا نقصان فرانس وغیرہ ممالک میں نظر آتا ہے۔ کہ انہوں نے ضبط تولید سے اپنی تعداد اس قدر کم کرلی تھی کہ جب جرمن فوجوں نے حملہ کیا تو نوجوان افراد فوجیوں کی اس قدر کمی ہوگئی کہ کوئی لڑنے والا ہی نہ تھا، یعنی لڑنے والوں کی تعداد بہت ہی کم تھی۔ کیا یہ دانش مندی کہلا سکتی ہے ؟ ہرگز نہیں۔ جب ہم یہ جان گئے ہیں کہ کفر و شرک کے علاوہ اخلاقی برائیاں بھی حکومتی سطح پر کنٹرول کی جانی چاہئیں تو پھر ہمارے ملک پاکستان یا تمام اسلامی ممالک میں اس طرف سے اس قدر کوتاہی کیوں کی جا رہی ہے۔ ویسے اپنے طور پر ہر مسلمان کو ان تمام ہدایات کو ہر وقت سامنے رکھ کر زندگی گزارنی چاہیے بلکہ دوسروں کو بھی اس راہ پر چلنے کی تلقین کرنی چاہیے۔ تو کوئی وجہ نہیں کہ ہم تمام اقوام عالم پر فوقیت حاصل نہ کرسکیں اللہ ہماری مدد فرمائے مگر موجودہ مسلمان کے حالات کچھ یوں نظر آرہے ہیں ؎ وہ زمانے میں معزز تھے مسلمان ہو کر اور تم خوار ہوئے تارک قرآن ہو کر تو ہمیں چاہیے کہ مذکورہ آیات یعنی آیت 23 تا 39 اپنی زندگی میں اچھی طرح فافذ کردیں کہ یہ ہمارے خالق ومالک کی طرف سے بھیجا گیا ایک بہترین دستور ہے۔ جس کا بھیجنے والا وحدہٗ لا شریک ہے اور اگر ہم میں سے کوئی بھی اس کا شریک بنائیں گے تو ہمیں دھکے دے کر ذلت و خواری کی حالت میں جہنم میں ڈال دیا جائے گا۔ اور وہ بہت ہی برا ٹھکانا ہے۔ ” اے ہمارے رب ! ہمیں دنیا میں نیکی اور آخرت میں بھی نیکی دے اور ہمیں دوزخ کے عذاب سے بچا۔ “ (البقرہ :201 )
Top