Al-Qurtubi - Al-Israa : 23
وَ قَضٰى رَبُّكَ اَلَّا تَعْبُدُوْۤا اِلَّاۤ اِیَّاهُ وَ بِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًا١ؕ اِمَّا یَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ اَحَدُهُمَاۤ اَوْ كِلٰهُمَا فَلَا تَقُلْ لَّهُمَاۤ اُفٍّ وَّ لَا تَنْهَرْهُمَا وَ قُلْ لَّهُمَا قَوْلًا كَرِیْمًا
وَقَضٰى : اور حکم فرمادیا رَبُّكَ : تیرا رب اَلَّا تَعْبُدُوْٓا : کہ نہ عبادت کرو اِلَّآ اِيَّاهُ : اس کے سوا وَبِالْوَالِدَيْنِ : اور ماں باپ سے اِحْسَانًا : حسن سلوک اِمَّا يَبْلُغَنَّ : اگر وہ پہنچ جائیں عِنْدَكَ : تیرے سامنے الْكِبَرَ : بڑھاپا اَحَدُهُمَآ : ان میں سے ایک اَوْ : یا كِلٰهُمَا : وہ دونوں فَلَا تَقُلْ : تو نہ کہہ لَّهُمَآ : انہیں اُفٍّ : اف وَّلَا تَنْهَرْهُمَا : اور نہ جھڑکو انہیں وَقُلْ : اور کہو لَّهُمَا : ان دونوں سے قَوْلًا : بات كَرِيْمًا : ادب کے ساتھ
اور تمہارے پروردگار نے ارشاد فرمایا ہے کہ اس کے سواء کسی کی عبادت نہ کرو اور ماں باپ کے ساتھ بھلائی (کرتے رہو) ، اگر ان میں سے ایک یا دونوں تمہارے سامنے بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو ان کو اف تک نہ کہنا اور نہ ہی انھیں جھڑکنا اور ان سے بات ادب کے ساتھ کرنا
آیت نمبر 23 تا 24 اس میں سولہ مسائل ہیں : مسئلہ نمبر 1 ۔ قضیٰ اس کا معنی ہے امر (تیرے رب نے حکم دیا) ، الزم (اس نے لازم کیا) اور اوجب (اس نے واجب کیا) حضرت عباس، حسن اور قتادہ ؓ نے کہا ہے : یہ قضا حکم نہیں ہے بلکہ یہ قضا امر ہے۔ اور مصحف حضرت ابن مسعود میں ووصی ہے اور یہی آپ کے اصحاب کی قرات ہے اور حضرت ابن عباس ؓ کی بھی اور حضرت علی ؓ کی قرات ہے، اور اسی طرح ابی کعب ؓ کے نزدیک ہے۔ اور حضرت ابن عباس ؓ نے بیان کیا : بلاشبہ ووصی ربک ہے پس دو واؤں میں سے ایک کو قاف سے بدل دیا اور اسے وقضٰی ربک پڑھا گیا کیونکہ اگر یہ قضا (حکم) ہوتا تو پھر کوئی بھی اللہ تعالیٰ کی نافرمانی اور حکم عدولی نہ کرتا۔ اور ضحاک نے کہا ہے : ایک قوم پر مصحف لکھتے وقت تصیحف ہوتی جس وقت واؤ صاد کیساتھ ملی وصی بقضی (یعنی وصی کو قضی سے بدل دیا) ابوحاتم نے حضرت ابن عباس ؓ سے ضحاک کے قول کی مثل ہئ ذکر کیا ہے۔ اور میمون بن مہران سے نقل کیا ہے کہ انہوں نے کہا : بیشک حضرت ابن عباس ؓ کے قول پر دلیل موجود ہے، اور وہ اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے : شرع لکم من الذین ماوصی بہٖ نوحاً والذی اوحینا الیک (الشوری :13) (اس نے مقرر فرمایا ہے تمہارے لئے وہ دین جس کا اس نے حکم دیا تھا اور جسے ہم نے بذریعہ وحی بھیجا ہے آپ کی طرف) پھر ابو حاتم نے انکار کیا ہے کہ حضرت ابن عباس ؓ نے یہ کہا ہو۔ اور کہا : اگر ہم یہ کہیں تو پھر زنادقہ ہمارے مصحف کے بارے میں طعن کریں گے۔ پھر ہمارے علمائے متکلمین وغیرہ نے کہا ہے : لفظ قضالغت میں کئی معنوں میں استعمال ہوتا ہے، پس قضا بمعنی امر ہے، جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے : و قضیٰ ربک الا تعبدوا الا ایاہ یعنی تیرے رب نے حکم دیا ہے کہ تم عبادت نہ کرومگر اسی کی۔ اور قضا بمعنی خلق (پیدا کرنا) ہے : جیسے قول باری تعالیٰ ہے : فقضٰھن بسع سمٰوٰاتٍ فی یومین (فصلت :12) یعنی اس نے انہیں دو دنوں میں تخلیق فرمایا۔ اور قضا بمعنی حکم (فیصلہ کرنا) ہے جیسے اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : فاقض مآ انت قاضٍ (طہٰ :72) یعنی تو فیصلہ کر جو تو فیصلہ کرتا ہے۔ اور قضا بمعنی الفراغ (فارغ ہونا) ہے : جیسے اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : قضی الامرالذی فیہ تستفتیٰن۔ (یوسف) (اٹل) فیصلہ ہوچکا اس بات کا جس کے متعلق تم دریافت کرتے ہو۔ یعنی وہ اس سے فارغ ہوا۔ اور اسی معنی میں یہ قول باری تعالیٰ ہے : فاذاقضیتم منا سککم (البقرہ :220) (پھر جب تم پورے کر چکو حج کے ارکان) قول باری تعالیٰ ہے : فاذاقضیت الصلوٰۃ (الجمہ :10) (پھر جب پوری ہوچکے نماز) ۔ اور قضا ارادہ بھی ہے، جیسے اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : فاذاقضی امرًا فانما یقول لہ کن فیکون۔ (غافر) (جب فیصلہ فرماتا ہے کسی کام (کے کرنے) کا تو پس اتنا ہی کہتا ہے اسے کہ ہوجا تو وہ فوراً ہوجاتا ہے) اور قضا بمعنی عہد ہے، جیسے اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : وما کنت بجانب الغربی اذقضینآ الیٰ موسیٰ الامر (القصص :44) (اور آپ نہیں تھے (طور) کی مغرب سمت میں جب ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) کی طرف (حکم بھیجا) ، تو جب قضا ان معانی کا احتمال رکھتا ہے تو پھر اس قول کا اطلاق جائز نہیں ہے کہ معاصی اللہ تعالیٰ کی قضا سے ہوتی ہیں، کیونکہ اس سے امر مراد لیا جائے تو پھر اس کے جائز نہ ہونے میں کوئی اختلاف نہیں ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ان (معاصی) کے بارے میں حکم نہیں دیا، کیونکہ وہ فحشاء (برائیوں) کے بارے حکم نہیں دیتا۔ اور زکریا بن سلام نے کہا ہے : ایک آدمی حضرت حسن ؓ کے پاس آیا اور کہا بیشک اس نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دی ہیں۔ تو انہوں نے فرمایا : بلاشبہ تو نے اپنے رب کی نافرمانی کی ہے اور وہ تجھ سے جدا ہوگئی ہے، تو اس آدمی نے کہا : (کیا) اللہ تعالیٰ نے میرے بارے میں یہ فیصلہ کیا ہے ؟ تو حضرت حسن نے فرمایا حالانکہ آپ بڑے فصیح تھے : ماقضی اللہ ذالک یعنی اللہ تعالیٰ نے اس کے بارے حکم نہیں دیا۔ اور پھر یہ آیت پڑھی : وقضیٰ ربک الاتعبدوٓا الا ایاہ۔ مسئلہ نمبر 2 ۔ اللہ سبحان و تعالیٰ نے اپنی عبادت اور اپنی توحید کے بارے حکم ارشاد فرمایا، اور والدین کے ساتھ نیکی کرنے کو اس کے ساتھ ملا کر ذکر کیا ہے، جیسا کہ آپ نے ان دونوں کا شکرادا کرنے کو اپنے شکر کے ساتھ ملایا ہے اور فرمایا ہے : وقضیٰ ربک الا تعبدوٓا الا ایاہ وبالوالدین احسانًا اور فرمایا : ان اشکرلی ولوالدیک ؕالی المصیر۔ (لقمان) (کہ شکرادا کرو میرا اور اپنے ماں باپ کا (آخر کار) میری طرف ہی (تمہیں) لوٹنا ہے) ۔ اور صحیح بخاری میں حضرت عبداللہ ؓ ونہ سے روایت ہے انہوں نے بیان کیا : میں نے حضور نبی مکرم ﷺ سے عرض کی : کون سا عمل اللہ تعالیٰ کے نزدیک زیادہ پسندیدہ ہے ؟ تو آپ نے فرمایا : ” نماز اپنے وقت پر ادا کرنا “۔ عرض کی : پھر کون سا عمل ؟ آپ ﷺ نے فرمایا :” والدین کے ساتھ حسن سلوک کرنا “۔ عرض کی : پھر کون سا عمل ؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا : ” اللہ تعالیٰ کی راہ میں جہاد کرنا “۔ پس آپ ﷺ نے یہ خبر دی کہ والدین کے ساتھ نیکی اور حسن سلوک کرنا اس نماز کے بعد افضل ترین عمل ہے جو اسلام کے ارکان میں سے سب سے عظیم رکن ہے۔ اور اسے اس ثم کے ساتھ مرتب کیا جو ترتیب اور مہلت کا فائدہ دیتا ہے۔ (یعنی آپ ﷺ نے فرمایا۔ ” الصلواۃ علی وقتھا “ قال ثم ای ؟ قال ” ثم برالدالدین “ قال ثم ای ؟ قال ” الجھاد فی سبیل اللہ “۔ مسئلہ نمبر 3 ۔ والدین کے ساتھ نیکی کرنا اور ان کے ساتھ احسان سے پیش آنے کا مطلب یہ ہے کہ وہ ان کے ساتھ گالی گلوچ کرتے ہوئے تعرض اور چھیڑچھاڑ نہ کرے اور نہ ان کی با فرمانی کرے، کیونکہ بلا اختلاف یہ کبیرہ گناہوں میں سے ہے، اور اس کے بارے سنت ثابتہ (صحیحہ) موجود ہیں، پس صحیح مسلم میں حضرت عبداللہ بن عمرو ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :” بیشک کبیرہ گناہوں میں سے کسی آدمی کا اپنے والدین کو گالی دینا ہے۔ “ صحابہ کرام نے عرض کی : یارسول اللہ ! ؟ کیا کوئی آدمی اپنے والدین کو گالیاں دے سکتا ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا :” ہاں “۔ ایک آدمی کسی دوسرے کے باپ کو گالی دیتا ہے تو وہ اس کے باپ کو گالی دیتا ہے اور ایک آدمی دوسرے کی ماں کو گالی دیتا ہے تو وہ اس کی ماں کو گالیاں دیتا ہے “۔ (إن من الکبائر شتم الرجل والدیہ قالوا : یارسول اللہ، وھل یشتم الرجل والدیہ ؟ قال نعم، یسب الرجل ابا الرجل فیسب اباہ ویسب امہ فیسب امہ) ۔ مسئلہ نمبر 4 ۔ عقوق الوالدین (والدین کی نافرمانی) ان کی جائز اغراض میں ان کی مخالفت کرنا ہے، جیسا کہ ان کے ساتھ نیکی کرنے اولاد کو کسی کام کے بارے حکم دیں تو اس بارے میں ان کی اطاعت کرنا واجب ہے، جب وہ امر معصیت اور گناہ کا نہ ہو، اگر اپنی اصل کے اعتبار سے وہ مامور بہ مباح کے قبیلے سے ہو، اسی طرح حکم ہے جب وہ مندوب کے قبیل سے ہو۔ اور بعض لوگوں نے یہ موقف اختیار کیا ہے کہ مباح کے بارے ان دونوں کا حکم دینا اولاد کے حق میں وہ اسے مندوب بنا دیتا ہے اور ان دونوں کا مندوب کے بارے حکم دینا اس کے مندوب میں مزید تاکید کا فائدہ دیتا ہے۔ مسئلہ نمبر 5 ۔ ترمذی نے حضرت ابن عمر ؓ سے روایت بیان کی ہے کہ انہوں نے کہا : میرے عقد میں ایک عورت تھی میں اسے پسند کرتا تھا، اور میرے والد (حضرت عمر ؓ) اسے ناپسند کرتے تھے پس انہوں نے مجھے حکم دیا کہ میں اسے طلاق سے دوں تو میں انکار کردیا، پھر میں نے یہ واقعہ حضور نبی کریم ﷺ کی بارگاہ میں عرض کیا تو آپ نے فرمایا :” اے عبداللہ ابن عمر ! تو اپنی بیوی کو طلاق دے دے “۔ ترمذی نے کہا ہے : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ مسئلہ نمبر 6 ۔ صحیح میں حضرت ابوہریزہ ؓ سے روایت ہے کہ انہوں نے فرمایا : ایک آدمی حضور نبی مکرم ﷺ کے پاس حاضر ہوا اور عرض کی : لوگوں میں سے کون میرے حسن سلوک کا زیادہ مستحق ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : ” تیری ماں “ اس نے عرض کی : پھر کون ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا :” پھر تیری ماں ہے “۔ اس نے عرض کی : پھر کون ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا :” پھر تیری ماں ہے “ ، اس نے عرض کی : اس کے بعد کون ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : ” پھر تیرا باپ ہے “۔ پس یہ حدیث اس پر دلالت کرتی ہے کہ ماں کی محبت اور اس پر شفقت باپ کی محبت کی تین مثل ہونی چاہئے، کیونکہ حضور نبی کریم ﷺ نے ماں کا ذکر تین بار فرمایا اور باپ کا ذکر صرف چوتھی بار فرمایا۔ اور جب اس معنی کو جوڑا جائے تو اس کے کئی شواہد مل جاتے ہیں۔ اور وہ یہ کہ حمل کی صعوبت اور اسے وضع کرنے کی تکلیف، اور دودھ پلانے اور تربیت کرنے کی صعوبت (ایسی چیزیں ہیں) جن کے ساتھ باپ کے سوا ماں منفرد ہوتی ہے، پس یہی وہ تین منازل ہیں جن سے باپ علیحدہ اور خالی ہوتا ہے۔ اور امام مالک (رح) سے روایت ہے کہ ان سے ایک آدمی نے کہا : میرا باپ سوڈان میں ہے، اور اس نے میری طرف لکھا ہے کہ میں اس کے پاس آؤں، اور میری ماں مجھے اس سے منع کررہی ہے، تو آپ نے اسے فرمایا : تو اپنے باپ کی اطاعت کر، اور اپنی ماں کی نافرمانی نہ کر۔ پس امام مالک (رح) کا یہ قول اس پر دلیل ہے کہ ان کے نزدیک دونوں کے ساتھ نیکی کرنا اور احسان کرنا برابر ہے۔ تحقیق حضرت لیث (رح) سے اس مسئلہ کے بارے پوچھا گیا تو انہوں نے اسے ماں کی اطاعت و پیروی کرنے کا حکم دیا اور یہ گمان کیا کہ ماں کے لئے نیکی اور احسان کے دو ثلث ہیں۔ اور حضرت ابوہریرہ ؓ کی حدیث اس پر دلالت کرتی ہے کہ ماں کے لئے نیکی اور احسان کے تین چوتھائی ہیں اور یہی اسکے خلاف حجت ہے جسنے اختلاف کیا ہے۔ اور محاسبی (رح) نے ” کتاب الرعایہ “ میں یہ بیان کیا ہے ایک چوتھائی ہے : اور یہ حضرت ابوہریرہ ؓ کی حدیث کے مقتضا کی بنا پر ہے۔ واللہ اعلم۔ مسئلہ نمبر 7 ۔ والدین کے ساتھ نیکی اور احسان کرنا اس کے ساتھ مختص نہیں ہے کہ وہ دونوں مسلمان ہوں، بلکہ اگر وہ کافر بھی ہوں تب بھی وہ ان سے نیکی کرے گا اور حسن سلوک سے پیش آئے گا جب ان کے لئے کوئی معاہدہ اور امان ہو، اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا : لا ینھٰکم اللہ عن الذین لم یقاتلوکم فی الدین ولم یخرجوکم من دیارکم ان تبروھم (الممتغنۃ :8) (اللہ تعالیٰ تمہیں منع نہیں کرتا کہ جب لوگوں نے تم سے دین کے معاملہ میں جنگ نہیں کی اور نہ انہوں نے تمہیں تمہارے گھروں سے نکالا کہ تم انکے ساتھ احسان کرو) اور صحیح بخاری میں حضرت اسماء ؓ سے روایت ہے انہوں نے بیان کیا : میری ماں آئی اور وہ مشرکہ تھی قریش کے عہد اور ان کی مدت میں جب کہ انہوں نے حضور نبی کریم ﷺ سے معاہدہ کیا تھا (وہ) اپنے باپ کے ساتھ آئی، تو میں نے حضور نبی کریم ﷺ سے استفار کیا اور عرض کی : بیشک میری ماں آئی ہے اور وہ رغبت رکھتی ہے کیا میں اس کے ساتھ صلہ رحمی کروں ؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا :” ہاں تو ماں کے ساتھ صلہ رحمی کر “۔ اور حضرت اسماء ؓ سے ہی یہ بھی مروی ہے کہ انہوں نے بیان کیا : حضور نبی مکرم ﷺ کے عہد میں میری ماں رغبت رکھتے ہوئے میرے پاس آئی تو میں نے حضور نبی مکرم ﷺ سے دریافت کیا کہ اس سے صلہ رحمی کرسکتی ہوں تو آپ ﷺ نے فرمایا :” ہاں “ ابن عیینہ نے کہا ہے : پس اللہ عزوجل نے انہی کے بارے میں یہ آیت نازل فرمائی ہے : لاینھٰکم اللہ عن الذین لم یقاتلوکم فی الدین (الممتحنہ :8) پہلی روایت معلق ہے اور دوسری مسند ہے۔ مسئلہ نمبر 8 ۔ ان دونوں کے ساتھ احسان اور نیکی میں سے یہ بھی ہے کہ جب جہاد متعین (فرض عین) نہ ہو تو وہ ان کی اجازت کے بغیر جہاد پر نہ جائے۔ صحیح میں حضرت عبداللہ بن عمرو ؓ سے روایت ہے انہوں نے بیان کیا : ایک آدمی حضور نبی مکرم ﷺ کی بارگاہ میں حاضر ہوا اور آپ سے جہاد میں جانے کی اجازت طلب کرنے لگا تو آپ ﷺ نے فرمایا :” کیا تیرے والدین زندہ ہیں ؟ “ اس نے کہا : جی ہاں، تو آپ ﷺ نے فرمایا :” پس تو ان دونوں (کی خدمت) میں رہ اور جہاد کر “۔ یہ الفاظ مسلم کے ہیں۔ اور غیر صحیح میں الفاظ یہ ہیں اس نے کہا : جی ہاں، میں نے انہیں روتے ہوئے چھوڑا ہے۔ رو آپ ﷺ نے فرمایا :” تو جا اور انہیں ہنسا جیسا کہ تو نے انہیں رلایا ہے “۔ اور ایک دوسری روایت میں ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا :” تیرا اپنے والدین کے ساتھ ان کے بستر پر سونا کہ وہ تیرے ساتھ ہنسی مزاح کریں اور تیرے ساتھ دل بہلائیں تیرے لیے میرے ساتھ جہاد پر جانے سے افضل ہے۔ “ اے ابن خویزمنداد نے ذکر کیا ہے۔ اور بخاری کے الفاظ ” کتاب بر الوالدین “ میں یہ ہیں ہمیں ابونعیم نے خبر دی اور سفیان نے ہمیں عطاء بن سائب سے انہوں نے اپنے باپ کے واسطہ سے حضرت عبداللہ بن عمرو ؓ سے خبر دی کہ انہوں نے فرمایا : ایک آدمی حضور نبی کریم ﷺ کی بارگاہ میں حاضر ہوا کہ وہ آپ کی ہجرت پر بیعت کرنا چاہتا ہے، اور اس نے اپنے والدین کو روتے ہوئے چھوڑا ہے تو آپ ﷺ نے فرمایا :” تو ان کی طرف لوٹ جا اور تو انہیں اسی طرح ہنسا جیسے تو نے انہیں رلایا ہے۔ “ ابن منذر نے کہا ہے : اس حدیث میں والدین کی اجازت کے بغیر نکلنے سے منع کیا گیا ہے جب تک نفیر عام نہ ہو، اور جب (حاکم وقت کی جانب سے) جہاد کے لئے اعلان عام ہوجائے تو پھر تمام پر نکلنا واجب ہے۔ اور یہ حضرت ابوقتادہ ؓ کی حدیث میں بالکل بین اور واضح ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حبش الامراء بھیجا۔۔۔ اور حضرت زید بن حارثہ، حضرت جعفر بن ابی طالب، اور حضرت ابن رواحہ ؓ کا قصہ بیان کیا اور یہ کہ اس کے بعد رسول اللہ ﷺ کے منادی نے اعلان کیا کہ نماز تیار ہے (الصلوٰۃ جامعۃ) ، پس لوگ جمع لوگ ہوگئے تو آپ ﷺ نے اللہ تعالیٰ کی حمدوثنا بیان کی اور پھر ارشاد فرمایا :” اے لوگو ! نکلو اور اپنے بھائیوں کی مدد کرو اور کوئی پیچھے نہ رہے۔ “ پس لوگ شدد گرمی میں پیدل چلتے ہوئے اور سوار ہو کر نکلے، پس آپ ﷺ کا یہ ارشاد : اخر جوا فأمدوا اخوانکم اس پر دلیل ہے کہ جہاد سے پیچھے رہنے کا عذر اس وقت تک ہے جب تک نفیر عام نہ ہو، کیونکہ آپ ﷺ کا یہ ارشاد گرامی بھی ہے : فاذا استفرتم فانفروا (پس جب تم سے مدد طلب کی جائے تو مدد کیا کرو) ۔ میں (مفسر) کہتا ہوں : یہ تمام احادیث اس پر دلیل ہیں کہ فرائض اور مستحبات جب جمع ہوجائیں تو پھر ان میں سے اہم کو مقدم کیا جائے۔ یہ بحث مکمل طور پر محاسبی (رح) نے کتاب ” الرعایہ “ میں بیان کی ہے۔ مسئلہ نمبر 9 ۔ مشرک والدین کے بارے میں اختلاف ہے کہ کیا ان کی اجازت کے ساتھ نکلاجائے گا جب کہ جہاد فروض کفایہ میں سے ہے، تو امام ثورمی (رح) کہتے ہیں : آدمی ان کی اجازت کے بغیر جہاد میں شریک نہیں ہوگا۔ امام شافعی (رح) نے کہا ہے : آدمی کے لئے جائز ہے کہ وہ ان کی اجازت کے بغیر جہاد میں شریک ہو۔ ابن منذر نے کہا ہے : دادے بھی باپ ہیں اور دادیاں بھی مائیں ہیں پس آدمی ان کی اجازت کے بغیر جہاد میں شریک نہیں ہوگا اور کوئی دلیل نہیں جانتا جو ان کے علاوہ بھائیوں اور دیگر تمام رشتہ داروں میں سے کسی کے لئے یہ حکم ثابت کرتی ہو۔ اور طاؤس (رح) بہنوں کے بارے میں کوشش اور دوڑ دھوپ کرنا اللہ تعالیٰ کی راہ میں جہاد کرنے سے افضل گمان کرتے تھے۔ مسئلہ نمبر 10 ۔ والدین کے ساتھ نیکی اور صلہ رحمی کی تکمیل میں سے ان کے دوستوں اور چاہنے والوں کے ساتھ صلہ رحمی کرنا ہے، پس صحیح میں حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے انہوں نے بیان فرمایا : میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے :” بیشک بہترین نیکی آدمی کا اپنے باپ کے دوستوں کے ساتھ صلہ رحمی کرنا ہے اس کے بعد کہ وہ پیٹھ پھیرلے “۔ (یعنی باپ فوت ہوجائے) حضرت ابواسید ؓ نے روایت ذکر کی ہے اور یہ بدری صحابی تھے۔ فرمایا : میں حضور نبی مکرم ﷺ کے پاس بیٹھا ہوا تھا کہ انصار میں سے ایک آدمی آپ کے پاس حاضر ہوا اور عرض کی : یارسول اللہ ! ﷺ کیا میرے والدین کے فوت ہونے کے بعد نیکی اور احسان میں سے کوئی شے باقی ہے جس کے ساتھ میں ان دونوں کے ساتھ نیکی اور احسان کرسکوں ؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا :” ہاں “ ، ان پر نماز جنازہ پڑھنا، ان کیلئے استغفات کرنا، ان کے بعد ان کے وعدہ کو پورا کرنا، ان کے دوستوں کی تکریم کرنا اور ان کے ساتھ صلہ رحمی کرنا جن کے ساتھ تیرا تعلق صرف انہیں کی جانب سے ہو پس یہی وہ امور ہیں جو تجھ پر باقی ہیں۔ “ حضور نبی کریم ﷺ حضرت خدیجۃ الکبریٰ ؓ کی رفیقۂ حیات ہیں، تو پھر والدین کے بارے تیرا کیا خیال ہے۔ مسئلہ نمبر 11 ۔ قولہ تعالیٰ : امایبلغن عندک الکبر احدھمآ اوکلٰھما یہاں بڑھاپے کی حالت کا خاص طور پر ذکر کیا گیا ہے کیونکہ یہ وہ حالت ہے جس میں وہ دونوں آدمی کے احسان اور نیکی کے محتاج ہوتے ہیں کیونکہ ضعف اور بڑھاپے کی وجہ سے ان کی حالت اور کیفت تبدیل ہوچکی ہوتی ہے، پس اس حالت میں ان دونوں کے احوال کا لحاظ رکھنا (اور ان کی دیکھ بھال کرنا) اس سے زیادہ لازم قرار دی اس سے پہلے لازم کی ہے، کیونکہ وہ اس حالت میں اس پر بھاری ہوگئے ہیں پس وہ بڑھاپے میں اس شے کے ملنے کے محتاج اور ضرورت مند ہوتے ہیں جس کا وہ اپنے بچپن اور صغر سنی میں محتاج تھا کہ وہ اس سے وہ برتاؤ کریں، پس یہی وجہ ہے کہ ذکر کے ساتھ اسی حالت کو خاص کیا گیا ہے۔ اور یہ بھی کہ طویل مدت تک آدمی کا ٹھہرے رہنا عادۃً آدمی کے لئے بوجھل اور گراں ہوجاتا ہے اور اکتاہٹ ہوجاتی ہے اور تنگی بڑھ جاتی ہے پس اس کا غصہ اپنے والدین پر ظاہر ہوجاتا ہے اور اس کی رکیں ان کے لئے پھولنے لگتی ہیں، اور بیٹا ہونے کے ناطے سے اس کا جرأت کرنا اور دیانت کا کم ہونا ان دونوں پر گراں گزرتا ہے، کم سے کم مکروہ اور ناپسندیدہ وہ رویہ ہے جو تنگی اور پریشانی سے اس کی سانس کے مضطرب اور مضطرب اور مترد دہونے کے سبب ظاہر ہوتا ہے، حالانکہ حکم یہ دیا گیا ہے کہ وہ ان کے ساتھ ایسی گفتگو اور قول کرے جو عزت و کرامت کے ساتھ متصف ہو، اور وہ ہر عیب سے محفوظ ومامون ہو پس ارشاد فرمایا : فلاتقل لھمآ افٍ ولا تنھر ھما وقل لھما قولاً کریمًا۔ اور امام مسلم (رح) نے حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت بیان کی ہے کہ انہوں نے کہا رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :” اس کی ناک خاک آلودہ ہو، اس کی ناک خاک آلودہ ہو، اس کی ناک خاک آلود ہو “ عرض کی گئی : یارسول اللہ ! ﷺ کس کی ؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا : ” جس نے اپنے والدین میں سے ایک یا دونوں کو بڑھاپے کی حالت میں پایا پھر وہ جنت میں داخل نہ ہوا۔ “ اور بخاری ” کتاب برالوالدین “ میں بیان کیا ہے، مسدد نے ہمیں بیان کیا (انہوں نے کہا) بشربن مفضل نے ہمیں بیان کیا (انہوں نے کہا) عبدالرحمن بن اسحاق نے ابوسعید مقبری سے اور انہوں نے حضرت ابوہریرہ ؓ سے اور انہوں نے حضور نبی کریم ﷺ سے بیان کیا ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا : ” اس آدمی کی ناک خاک آلود ہو جس کے پاس میرا ذکر کیا گیا اور اس نے مجھ پر درود پاک نہ پڑھا، اس آدمی کی ناک خاک آلود ہو جس نے اپنے والدین یا ان میں سے ایک کو اپنے پاس بڑھاپے کی حالت میں پایا اور انہوں نے اسے جنت میں داخل نہ کیا، اور اس آدمی کی ناک خاک آلود ہو جس پر رمضان کا مہینہ آیا پھر وہ اس سے پہلے گزر گیا کہ اس کی مغفرت کی جائے “۔ ابن ابی اویس نے ہمیں بیان کیا ہے کہ میرے بھائی نے سلیمان بن بلال سے، انہوں نے محمد بن ہلال سے، انہوں نے سعد بن اسحاق بن کعب بن عجرہ سالمی سے اور انہوں نے اپنے باپ ؓ سے بیان کیا ہے، انہوں نے بیان کیا : بیشک حضرت کعب بن عجرہ ؓ نے بیان کیا کہ حضور نبی مکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا : ” منبرلاؤ “ پس جب آپ با پر تشریف لائے تو منبر پر تشریف لے گئے، آپ ﷺ نے اس کی پہلی سیڑھی پر قدم رکھا تو فرمایا :” امین “ پھر دوسرے زینہ پر چڑھے تو فرمایا : ” امین “ پھر تیسرے زینہ پر بلند ہوئے تو فرمایا : ” آمین “ پس جب آپ فارغ ہوئے اور منبر سے نیچے تشریف لائے تو ہم نے عرض کی : یارسول اللہ ! ﷺ تحقیق آج ہم نے آپ سے وہ شے سنی جو پہلے ہم آپ سے نہیں سنتے ؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا :” کیا تم نے اسے سنا ہے “ ؟ ہم نے عرض کی : جی ہاں۔ تو آپ ﷺ نے فرمایا :” بیشک حضرت جبرائیل (علیہ السلام) پیش ہوئے اور کہا : وہ (اللہ کی رحمت سے) دور ہو جس نے رمضان المبارک کو پایا اور اس کی مغفرت نہ کی گئی تو میں نے کہا آمین۔ اور جب میں دوسری سیڑھی پر چڑھا تو انہوں نے کہا وہ دور ہو جس کے پاس آپ کا ذکر کیا گیا اور اس نے آپ پر درود پاک نہ پڑھا تو میں نے کہا : آمین۔ اور جب میں تیسرے اینے پر بلند ہوا تو انہوں نے کہا وہ (اللہ کی رحمت سے) دور ہوا جس نے اپنے پاس اہنے والدین یا ان میں سے کسی ایک کو بڑھاپے کی حالت میں پایا اور انہوں نے اسے جنت میں داخل نہ کیا تو میں نے کہا : آمین “۔ ابونعیم نے ہمیں بیان کیا ہے (انہوں نے کہا) ہمیں سلمہ بن وردان نے بیان کیا ہے میں نے حضرت انس ؓ کو یہ بیان کرتے ہوئے سنا ہے : رسول اللہ ﷺ منبر پر ایک سیڑھی چڑھے تو فرمایا :” آمین “۔ پھر دوسری سیڑھی چڑھے تو فرمایا : ” آمین “ پھر تیسری سیڑھی چڑھے تو فرمایا :” آمین “ ، پھر آپ سیدھے ہو کر بیٹھ گئے تو آپ کے صحابہ کرام ؓ نے کہا : یارسول اللہ ! ﷺ آپ نے آمین کس پر کہی ہے ؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا : ” میرے پاس حضرت جبرائیل (علیہ السلام) آئے اور انہوں نے کہا : اس آدمی کی ناک خاک آلود ہو جس کے پاس آپ کا ذکر کیا جائے اور وہ آپ پر درود پاک نہ پڑھے تو میں نے کہا : آمین، اور اس کی ناک خاک آلود ہو جس نے اپنے والدین یا ان میں سے ایک کو پایا اور جنت میں داخل نہ ہوا تو میں نے کہا : آمین “ الحدیث۔ پس سعادت مندوہ ہے جو ان کے ساتھ نیکی اور احسان کرنے کی فرصت کو غنیمت جانتا ہے تاکہ وہ ان کی موت کے سبب اس سے فوت نہ ہوجائے کہ پھر وہ اس پر نادم اور شرمندہ ہو۔ اور شقی (بدبخت) وہ ہے جس نے ان کی نافرمانی کی، بالخصوص وہ جس تک ان کے ساتھ نیکی اور احسان کرنے کا حکم پہنچا ہوا ہو۔ مسئلہ نمبر 12 ۔ قولہ تعالیٰ : فلاتقل لھما اف یعنی تم انہیں اتنا بھی نہ کہو جس میں معمولی سا بھی زچ کرنا ہو۔ ابورجا عطارومی نے کہا ہے : الأف سے مراد وہ کلام ہے جو فحش، رومی اور خفی ہو۔ اور مجاہد (رح) نے کہا ہے : اس کا معنی ہے جب تو انہیں بڑھاپے کی حالت میں اس بول وبراز میں دیکھے جو انہوں نے طفولیت کی حالت میں دیکھا تو تو انہیں گندہ خیال نہ کر (اور ان سے گھن نہ کر) کہ تو کہے : اف۔ اور آیت اس سے عام ہے۔ اور اف اور تف سے مراد ناخنوں کی میل کچیل ہے۔ اور ہر وہ شے جو بےچین اور تنگ کرتی ہے اور ثقیل سمجھی جاتی ہے اس کے لئے اف کہا جاتا ہے۔ ازہری نے کہا : التف سے حقیر شے بھی مراد ہے۔ اور اف کو منون اور مجرور پڑھا گیا ہے، جیسا کہ اصوات (آوازیں) کو جردی جاتی ہے اور انہیں تنوین کے ساتھ پڑھا جاتا ہے جب آپ کہتے ہیں : صہ اور مہ۔ اور اس میں دس لغات ہیں : اُفَّ ، اُفُّ ، اُفِّ ، اُفَّا، اُفٍّ ، اُفًّ ، اُفَّۃ، اِف لک (ہمزہ کے کسرہ کے ساتھ) اف (ہمزہ اور فا کے سکون کے ساتھ اور افا (یعنی فاء کی تخفیف کے ساتھ ) ۔ اور حدیث میں ہے :” پس آپ نے اپنے کپڑے کی ایک طرف اپنی ناک پر رکھی پھر کہا : اف اف “ ابوبکر نے کہا ہے : اس کا معنی ہے اس شے کی بو اور گندگی محسوس کرنا جسے سونگھے۔ اور بعض نے کہا ہے : اف کا معنی ہے کسی کو حقیر اور قلیل جاننا، یہ الافف سے لیا گیا ہے اور اس کا معنی قلیل ہونا ہے۔ اور قتبی نے کہا ہے : اس کا اصل معنی ہے تیرا کسی ایسی شے کو پھونک مارنا جو ریت اور مٹی وغیرہ سے تجھ پر گرتی ہے، اور اس کے لئے جس سے تو کوئی شے دور کرنے اور ہٹانے کا قصد کرے تاکہ تو وہاں بیٹھ سکے، پس ہر ثقیل (اور ناپسندیدہ) شے کے لئے یہ کلمہ کہا گیا ہے۔ اور ابوعمرو بن علاء نے کہا ہے : الأف سے مراد ناخنوں میں پائی جانے والی میل کچیل ہے اور التف سے مراد ناخنوں کے کٹے ہوئے ریزے ہیں۔ اور زجاج نے کہا ہے : اف کا معنی بدبو ہے۔ اور اصمعی نے کہا ہے : الاف سے مراد کان کی میل ہے، اور التف سے مراد ناخنوں کی میل ہے، پس اس کا استعمال کثیر ہے یہاں تک کہ اسے پر اس شے میں ذکر کیا گیا ہے جس کے ساتھ کسی کو اذیت دی جاتی ہے۔ اور حضرت علی بن ابی طالب ؓ سے حدیث مروی ہے انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ” اگر اللہ تعالیٰ عقوق (نافرمانی) میں سے کوئی شے اف سے بھی ادنیٰ اور گھٹیا پاتا تو یقیناً وہ اس کا ذکر کرتا پس نیکی اور احسان کرنے والا جو عمل کرنا چاہے کرے وہ ہر گز جہنم میں داخل نہ ہوگا) ۔ اور والدین کی نافرمانی کرنے والا جو چاہے عمل کرے وہ ہرگز جنت میں داخل نہیں ہوگا۔ “ ہمارے علماء نے کہا ہے : بیشک والدین کے لئے اس کا اف کہنا سب سے گھٹیا اور ادنیٰ لفظ ہے کیونکہ اس نے ان دونوں کو کفران نعمت اور ناشکری کے طور پر چھوڑا ہے، اور تربیت کا انکار کیا ہے : اور اس وصیت کو در کیا ہے جو اسے اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں فرمائی۔ اور اف وہ کلمہ ہے جو ہر چھوڑی ہوئی شے کے لئے کہا گیا ہے : اور اسی لئے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنی قوم کو کہا : اف لکم ولما تعبدون من دون اللہ (الانبیاء :67) (تف ہے تم پر نیزان بتوں پر جن کو تم پوجتے ہو اللہ تعالیٰ کے سوا) یعنی تم کو اور تمہارے ساتھ بتوں کو چھوڑنا ہے۔ مسئلہ نمبر 13 ۔ قولہ تعالیٰ : ولاتنھر ھما، النھر کا معنی جھڑکنا اور غصے کا اظہار کرنا ہے۔ وقل لھما قولاً کریمًا یعنی تو ان سے بڑی لطافت اور نرمی کے ساتھ گفتگو کرے۔ مثلاً : یاأبتاہ ویا اماہ (اے ابا، اے اماں) بغیر اس کے کہ ان کا نام پکارے یا ان کی کوئی کنیت پکارے : یہ عطانے کہا ہے۔ اور ابوالبداح تجیبی نے کہا ہے : میں نے حضرت سعید بن مسیب ؓ کو کا کہا قرآن کریم میں والدین کے ساتھ نیکی اور احسان کرنے کے بارے جو کچھ ہے اسے میں جانتا ہوں سوائے اس قول باری تعالیٰ کے : وقل لھما قولاً کریمًا یہ قول کریم کیا ہے ؟ تو حضرت سعید بن مسیب ؓ نے فرمایا : غلطی کرنے والے غلام کا اپنے آقا کو درشت اور سخت کلمات کہنا۔ مسئلہ نمبر 14 ۔ قولہ تعالیٰ : واخفض لھما جناح الذل من الرحمۃ یہ والدین کے ساتھ شفقت و رحمت کرنے سے استعارہ ہے اور ان کے لئے عجزوانکساری اور تذلل کا اظہار کرنا ہے جیسا کہ رعایا امیر کے لئے اور غلام اپنے آقاؤں کے لئے تذلل اور عاجزی کا اظہار کرتے ہیں، جیسا کہ اسی طرف حضرت سعید بن مسیب نے اشارہ کیا ہے، اور پروں کو جھکانے اور انہیں کھڑا کرنے کو بیان کیا جیسا کہ پرندے کے پر جس وقت وہ اپنے بچوں کے لئے اپنے پر کھڑے کرلیتا ہے۔ اور الذل سے مراد نرمی کرنا ہے۔ اور جمہور کی قرأت ذال کے ضمہ کے ساتھ ہے، یہ ذل یذل ذلاوذلۃ ومذلۃ فھوذال و ذلیل سے ماخوذ ہے۔ اور حضرت سیعد بن جبیر، حضرت ابن عباس اور حضرت عروہ بن زبیر نے الذل ذال کے کسرہ کے ساتھ پڑھا ہے، اور یہ حضرت عاصم ؓ سے مروی ہے، اور عربوں کے اس قول سے ماخوذ ہے : دابۃ ذلول بینۃ الذل۔ اور جانوروں میں ذل سے مراد یہ ہوتا ہے کہ جس کو مطیع بنانا آسان ہو مشکل نہ ہو، پس اس آیت کے حکم سے چاہئے کہ انسان اپنے آپ کو اپنے والدین کے ساتھ انتہائی اچھی عجزوانکساری میں رکھے، اپنے اقوال، حرکات و سکنات اور اپنے دیکھنے میں، اور وہ ان کی طرف اپنی تیز نگاہ سے نہ دیکھے کیونکہ وہ غصے والے کی نظر ہوتی ہے۔ مسئلہ نمبر 15 ۔ اس آیت میں خطاب حضور نبی مکرم ﷺ کو ہے اور اس سے مراد آپ کی امت ہے، کیونکہ اس وقت آپ ﷺ کے والدین موجود نہ تھے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے ارشاد : واحفض جنا حک لمن اتبعک من المؤمنین۔ (الشعراء) میں الذل کا ذکر نہیں کیا ہے اور یہاں حق کی عظمت اور اس کے اعتبار سے اس کا ذکر کیا ہے۔ اور قول باری تعالیٰ : من الرحمۃ میں من بیان جنس کے لئے ہے، یعنی بیشک یہ جھکنا ایسی رحمت اور شفقت سے ہو جو نفس (دل) میں راحت پہنچانے والی ہو، نہ کہ وہ کلام لینے کے اعتبار سے ہو۔ اور یہ بھی صحیح ہے کہ وہ انتہا غایت کے لئے ہو، پھر اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو اپنے آباء پر رحم کرنے اور ان کے لئے دعا مانگنے کا حکم ارشاد فرمایا، اور یہ کہ تو ان کے ساتھ رحم کا سلوک کر جیسے انہوں نے تجھ پر رحم اور شفقت کی اور تو ان کے ساتھ نرمی کا سلوک کر جیسے انہوں نے تیرے ساتھ نرمی کی، جب وہ تیرے والی اور محافظ تھے اس حال میں کہ تو صیغر تھا، جاہل اور محتاج تھا پس انہوں نے تجھے اپنی ذاتوں پر ترجیح دی، وہ اپنی راتیں جاگتے رہے، وہ خود بھوکے رہے اور تجھے خوب پیٹ پھر کر کھلایا، وہ خود ننگے رہے اور تجھے لباس پہنایا، پس تو انہیں جزا اور بدلہ دے مگر (اس وقت) کہ جب وہ بڑھاپے کے سبب اس حد کو پہنچ جائیں جس میں تو عہد طفولیت میں تھا۔ اور تو ان کا والی ومدد گار ہو جیسا کہ وہ تیرے والی اور مددگار تھے، اور اس وقت ان کے لئے ترجیح وتقدم کی فضیلت ہو۔ آپ ﷺ نے فرمایا :” کوئی بیٹا والد کو جزا اور بدلہ نہیں دے سکتا مگر یہ کہ وہ اسے کسی کی ملکیت میں پائے اور پھر اسے خریدلے اور اسے آزاد کر دے “۔ اس حدیث کے بارے میں بحث سورة مریم میں آئے گی۔ مسئلہ نمبر 16 ۔ قولہ تعالیٰ : کما ربیٰنی تربیت کا ذکر خاص طور پر کیا گیا ہے تاکہ بندے کو والدین کی شفقت اور تربیت کے دوران ان کی مشکلات اور مشقت یاد آئے، پس یہ اس میں ان کے ساتھ شفقت اور نرمی ومہربانی کا سلوک کرنے میں اضافہ کا باعث ہوگا، اور یہ سب مومن والدین کے بارے میں ہے۔ اور قرآن کریم نے مشرک مرنے والوں کے لئے استغفار کرنے سے منع کیا ہے اگرچہ وہ انتہائی قریبی ہوں، جیسا کہ پہلے گزر چکا ہے۔ اور حضرت ابن عباس اور حضرت قتادہ ؓ سے ذکر کیا گیا ہے کہ یہ سب اللہ تعالیٰ کے اس قول کے ساتھ منسوخ ہے : ماکان للنبی والذین اٰمنوٓا ان یستغفروا للمشرکین ولوٓا اولی قربیٰ من بعد ماتبین لھم انھم اصحٰب الجحیم۔ (التوبہ) پس جب مسلمان کے والدین ذمی ہوں تو وہ ان کے ساتھ اسی طرٖ کا معاملہ کرے جس کے بارے اللہ تعالیٰ نے یہاں حکم دیا ہے، مگر کفر پر ان کے لئے رحم کی دعا نہ کرے، کیونکہ یہ اکیلا حکم مذکورہ آیت کے ساتھ منسوخ ہے۔ اور بھی کہا گیا ہے کہ نسخ کا محل نہیں ہے، پس یہ تو مشرک والدین کے لئے دنیوی رحمت کے بارے دعا ہے جب تک وہ زندہ رہیں، جیسا کہ پہلے گزر چکا ہے یا اس آیت کا عموم اسی کے ساتھ خاص ہے، نہ کہ آخرت کی رحمت کے ساتھ، بالخصوص جب یہ بھی کہا گیا ہے کہ قول باری تعالیٰ : وقل رب ارحمھنا، حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ کے بارے میں نازل ہوئی ہے، اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ نسخ کا محل نہیں ہے، پس یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ نسخ کا محل نہیں ہے، پس یہ توط مشرک والدین کے لئے دنیوی رحمت کے بارے دعا ہے جب تک وہ زندہ رہیں، جیسا کہ پہلے گزرچکا ہے یا اس آیت کا عموم اسی کے ساتھ خاص ہے، نہ کہ آخرت کے ساتھ، بالخصوص جب یہ بھی کہا گیا ہے کہ قول باری تعالیٰ : وقل رب ارحمھما، حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ کے بارے میں نازل ہوئی ہے، کیونکہ انہوں نے اسلام قبول کیا، تو ان کی ماں نے اپنے آپ کو ننگے بدن سخت گرمی (دھوپ) میں ڈال دیا، اس کا ذکر حضرت سعد ؓ سے کیا گیا تو انہوں نے فرمایا : مناسب ہے وہ مرجائے، تب یہ آیت نازل ہوئی۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ آیت مسلمان والدین کے لئے دعا کرنے کے بارے خاص ہے۔ اور صحیح یہ ہے کہ اس کا عموم اسی طرح ہے جیسے ہم نے ذکر کیا ہے اور حضرت ابن عباس ؓ نے بیان کیا کہ حضور نبی مکرم ﷺ نے فرمایا : ” وہ آدمی جس نے شام اس حال میں کی کہ وہ اپنے والدین کو راضی کرنے والا ہو اور صبح کی شام کی اور صبح کی، تو اس کے لئے ط جنت کے دروازے کھلے ہیں اگرچہ وہ ایک سے داخل ہوگا پھر ایک سے داخل ہوگا پھر ایک سے، اور جس نے شام اور صبح کی اس حال میں کہ وہ اپنے والدین کو ناراض کرنے والا ہو اور اس نے شام اور صبح اسی طرح کی تو اس کے لئے جہنم کے دو دروازے کھلے ہیں۔ اگرچہ وہ ایک میں داخل ہوگا اور پھر ایک میں “۔ تو ایک آدمی نے عرض کی : یا رسول اللہ ! ﷺ اگرچہ انہوں نے اس کے ساتھ ظلم اور زیادتی کی ہو ؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا : ” اگرچہ انہوں نے اس کے ساتھ ظلم ہی کیا ہو، اگرچہ انہوں نے اس کے ساتھ زیادتی کی ہو، اگرچہ انہوں نے اس کے ساتھ ظلم ہی کیا ہو۔ “ اوعر ہم نے اسناد متصل کے ساتھ حضرت جابر بن عبداللہ ؓ سے روایت بیان کی ہے انہوں نے کہا : ایک آدمی حضور نبی کریم ﷺ کے پاس آیا اور عرض کی : یارسول اللہ ! ﷺ بیشک میرے باپ نے میرا مال لے لیا ہے، تو حضور نبی کریم ﷺ نے اس آدمی کو کہا :” تو اپنے باپ کو میرے پاس لے آ “۔ پس اتنے میں حضرت جبرائیل (علیہ السلام) حضور نبی مکرم ﷺ کے پاس حاضر ہوئے اور کہا : بیشک اللہ عزوجل آپ کو سلام فرمارہا ہے اور آپ کو فرمارہا ہے کہ جب وہ بوڑھا شیخ آپ کے پاس آئے تو اس سے اس شے کے بارے پوچھنا جو اس نے اہنے دل میں کہی اور اس کے کانوں نے اسے نہیں سنا۔ “ پس جب وہ بوڑھا شیخ آیا تو حضور نبی کریم ﷺ نے اسے فرمایا :” تیرے بیٹے کو کیا ہوا ہے وہ تیری شکایت کررہا ہے کیا تو اس کا مال لینا چاہتا ہے ؟ تو اس نے عرض کی : یارسول اللہ ! ﷺ اس سے پوچھئے کیا ہوا ہے اسے اس کی پھوپھیوں یا اس کی خالاؤن میں سے کسی ایک یا اپنی ذات کے سوا کسی پر خرچ کرتا ہوں ؟ تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :” خاموش رہ، تو ہمیں اس سے رہنے دے، تو مجھے اس شے کے بارے بتا جو تو نے اپنے دل میں کہی تیرے کانوں نے اسے نہیں سنا ؟ تو اس بوڑھے شیخ نے کہا : قسم بخدا ! یا رسول اللہ ﷺ اللہ تعالیٰ آپ کے ساتھ ہمارے یقین میں مسلسل اضافہ کرتا رہتا ہے، تحقیق میں نے اپنے دل میں کوئی چیز کہی جسے میرے کانوں نے نہیں سنا۔ آپ نے فرمایا :” تم کہو اور میں سن رہا ہوں “ اس نے کہا میں نے کہا : غذوتک مولودا و منتک یافعا تعل بما أجنی علیک و تنھل إذا لیلۃ ضافتک بالسقم لم أبت لسقمک إلاساھرا أتململ کأنی أنا المطروق دونک بالذی طرقت بہ دونی فعینی تھمل تخاف الردی نفسی علیک و إنھا لتعلم أن الموت وقت مؤجل فلما بلغت السن والغایۃ التی إلیھا مدی ما کنت فیک أؤ مل جعلت جزائی غلظۃ و فظاظۃً کأنک أنت المنعم المتفضل فلیتک إذ لم ترع حق أبوتی فعلت کما الجار المصاقب یفعل فأولیتی حق الجوار ولم تکن علی بمال دون مالک تبخل راوی نے کہا : پس اس وقت حضور نبی مکرم ﷺ نے اس کے بیٹے کے گریبان کو پکڑا اور فرمایا : انت وما لک لأبیک (تو اور تیرا مال تیرے باپ کے لئے ہے) ۔ طبرانی نے کہا ہے : لخمی یہ حدیث ابن منکدر سے اس طرح مکمل اور اشعار کے ساتھ سوائے اس سند کے روایت نہیں کرتے اور عبیداللہ بن خلصہ اس کے ساتھ منفرد ہیں۔ واللہ اعلم۔
Top