Baseerat-e-Quran - An-Nisaa : 154
اِذْ قَالَتِ الْمَلٰٓئِكَةُ یٰمَرْیَمُ اِنَّ اللّٰهَ یُبَشِّرُكِ بِكَلِمَةٍ مِّنْهُ١ۖۗ اسْمُهُ الْمَسِیْحُ عِیْسَى ابْنُ مَرْیَمَ وَجِیْهًا فِی الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَةِ وَ مِنَ الْمُقَرَّبِیْنَۙ
اِذْ : جب قَالَتِ : جب کہا الْمَلٰٓئِكَةُ : فرشتے يٰمَرْيَمُ : اے مریم اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ يُبَشِّرُكِ : تجھے بشارت دیتا ہے بِكَلِمَةٍ : ایک کلمہ کی مِّنْهُ : اپنے اسْمُهُ : اس کا نام الْمَسِيْحُ : مسیح عِيْسَى : عیسیٰ ابْنُ مَرْيَمَ : ابن مریم وَجِيْهًا : با آبرو فِي : میں الدُّنْيَا : دنیا وَالْاٰخِرَةِ : اور آخرت وَمِنَ : اور سے الْمُقَرَّبِيْنَ : مقرب (جمع)
اور جب فرشتوں نے کہا اے مریم اللہ تجھے ایک ایسے کلمہ کی (فیصلے کی ) خوشخبری دیتا ہے جس کا نام مسیح ابن مریم ہوگا۔ دنیا اور آخرت میں بڑے رتبہ والا اور اللہ کے مقرب بندوں میں شمار ہوگا۔
لغات القرآن آیت نمبر 45 تا 54 وجیه (باعزت، بلندمرتبہ) المقربین (قریب والے) یکلم (کلام کرے گا، بات کرے گا) المھد (گہوارہ) کھل (بڑی عمر) لم یمسسنی ( مجھے نہیں چھوا مجھے ہاتھ نہیں لگایا) بشر (انسان ، آدمی) قضی (فیصلہ کیا) الطین (مٹی) ھیة (شکل) انفخ (میں پھونکتا ہوں) طیر (پرندہ) ابری (میں اچھا کردیتا ہوں) الابرص (کوڑھی) الاکمه (پیدائشی اندھا) احیٖ (میں زندہ کرتا ہوں) انبئکم (میں تمہیں بتاتا ہوں) تدخرون (تم جمع کرتے ہو، ذخیری کرتے ہو ! ) بیوت (گھروں، (بیت، گھر) حرم (حرام کردیا گیا) احس (محسوس کیا) من انصاری (میرا مددگار کون ہے ؟ ) الحواریون (ہم مجلس (حضرت عیسیٰ کے صحابہ ) انصار اللہ (اللہ کے مدرگار) اشھد (تو گواہ رہنا) اتبعنا (ہم نے پیروی کی، پیچھے چلے) اکتبنا (گواہی دینے والے) مکروا (انہوں نے خفیہ تدبیر کی) مکراللہ (اللہ نے تدبیر کی) خیر الماکرین (بہترین تدبیر کرنے والا) ۔ تشریح : آیت نمبر 45 تا 54 جب حضرت مریم کو صنفی مواصلت کے بغیر ایک بچہ پیدا ہونے کی اطلاع دی گئی تو انہوں نے انتہائی تعجب سے کہا جب کہ مجھے کسی انسان نے ہاتھ تک نہیں لگایا پھر میرے ہاں ایک بچہ پیدا ہونے کی اطلاع خوشخبری کے انداز میں کیسے ہوسکتی ہے ؟ اس کے جواب میں اللہ نے فرمایا کہ اے مریم اس میں تعجب کی کوئی بات نہیں ہے کیونکہ ہماری قدرت و طاقت سے یہ بات باہر نہیں ہے۔ جس طرح اللہ نے آدم (علیہ السلام) کو بغیر ماں باپ کے پیدا کیا ہے اسی طرح وہ بغیر باپ کے حضرت عیسیٰ کو پیدا کرسکتا ہے۔ اس بات سے اللہ نے عیسائیوں کی اس غلط فہمی کو دور کیا ہے جو انہوں نے بغیر باپ کے پیدا ہونے پر حضرت عیسیٰ کو اللہ کا بیٹا بنادیا تھا اور یہودیوں کے اس الزام کی تردید ہے کہ حضرت مریم (نعوذ باللہ) کسی گناہ کی مرتکب ہوئی ہیں۔ چونکہ قرآن کریم کا مقصد کوئی قصہ کہانی سنانا نہیں ہے بلکہ ان حقائق سے نقاب اٹھانا ہے جن پر عیسائیوں اور یہودیوں کی صدیوں کی جہالت نے گردوغبار کے پردے ڈال کر اللہ کے بندے کو اللہ کا حصہ بنا کر پیش کیا تھا۔ اس لئے حضرت مریم کی پوزیشن کو صاف کرتے ہوئے حضرت عیسیٰ کے خطبہ کی طرف اشارہ فرمادیا کہ جب حضرت عیسیٰ ابن مریم نے بنی اسرائیل کو اللہ کا پیغام پہنچاتے ہوئے فرمایا تھا کہ میں اللہ کا رسول ہوں اور اپنے معجزات کے ذریعہ تمہیں اپنے رسول ہونے کا یقین دلانا چاہتا ہوں۔ مگر حضرت عیسیٰ کے اس خطبہ کا بنی اسرائیل پر کوئی اثر نہیں ہوا اور انہوں نے بڑی شدت سے مخالفت کرنا شروع کردی۔ جب حضرت عیسیٰ نے اس بات کا اندازہ کرلیا کہ بنی اسرائیل ان کی مخالفت پر کمر بستہ ہوچکے ہیں تو انہوں نے کہا تم میں سے اس سچائی کو قائم کرنے میں کون اللہ کے دین کے لئے میرا مددگار ہے۔ اس پر کچھ لوگوں (حواریوں) نے کہا کہ اللہ کے دین اور اس کو قائم کرنے میں ہم آپ کے مددرگار ہیں۔ یہی وہ حضرات تھے جنہوں نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے دامن سے وابستگی احیتار کی اور راہ نجات حاصل کرلی۔ ان مقدس ہستیوں کو حواریین فرمایا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں بھی دین کی راہوں میں چلنے اور اقامت دین کی ہر کوشش میں اسلام کا مدد گار بنا دے ۔ آمین۔
Top