Baseerat-e-Quran - At-Tur : 17
اِنَّ الْمُتَّقِیْنَ فِیْ جَنّٰتٍ وَّ نَعِیْمٍۙ
اِنَّ الْمُتَّقِيْنَ : یشک متقی لوگ فِيْ جَنّٰتٍ : باغوں میں وَّنَعِيْمٍ : اور نعمتوں میں ہوں گے
بیشک پرہیز گار جنتوں اور اس کی نعمتوں میں ہوں گے۔
لغات القرآن آیت نمبر 17 تا 28 فکھین دل بہانے والاے ھنیء ہنسی خوشی مصفولہ برابر بچھائے گئے۔ حور (حورائ) خوبصورت (آنکھوں والیاں) عین (عینائ) بڑی بڑی آنکھیں ما التنا ہم نے کمی نہیں کی۔ رھین پھنس جانا۔ یتنازعون وہ جھگڑیں گے۔ چھینا جھپٹی کریں گے۔ غلمان لڑکے، کم عمر بچے لولو موتی۔ مکنون چھاپے گئے قیمتی اقبل وہ متوجہ ہوا۔ سامنے ہوا۔ السموم گرم گرم ہوا تشریح : آیت نمبر 17 تا 28 کفار و مشرکین کے بدترین انجام کو بیان کرنے کے بعد فرمایا جا رہا ہے کہ جو لوگ تقویٰ اور پرہیز گاری کی زندگی گذارتے اور محض اللہ کی رضا و خوشنودی حاصل کرنے کیلئے ہر طرح کے گناہوں سے بچنے تھے اللہ تعالیٰ ان کو جنت کے ایسے باغوں میں داخل کرے گا جہاں ہر طرح کی نعمتیں ہوں گی جو ان کو کسی خاص مدت کے لئے نہیں بلکہ ہمیشہ اور برابر ملتی رہیں گی جن سے اہل جنت ایک خاص خوشی اور مسرت محسوس کریں گے کیونکہ انہیں اس جہنم کا کوئی خوف نہ ہوگا جس سے ان کو بچا لیا گیا ہوگا۔ اللہ تعالیٰ ان حسن عمل کرنے والوں سے فرمائیں گے کہ دنیا میں تم نے جو کچھ کیا ہے یہ اس کا بدلہ ہے اب خوب مزے لے لے کر کھائو پیو کسی طرح کا غم اور فکر نہ کریں۔ حسین و جمیل بڑی بڑی آنکھوں والی حوروں سے ان کا نکاح کردیا جائے ایک لفظ یہ بھی ہوگا کہ اہل جنت کے دو گھر والے ، اولاد، اور رشتہ دار جنہوں نے ایمان اور عمل صالح کی زندگی گذاری ہوگی اور وہ اپنے معمولی عمل کے اعتبار سے اعلیٰ درجے کے مستحق نہ ہوں گے ان کو بھی اعلیٰ درجے کے والدین یا اعلیٰ درجہ کی اولاد کے ساتھ ملا دیا جائے گا۔ حضرت ابن عباس نے رسول اللہ ﷺ سے رویات کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ صالح مومنین کی اولاد کو بھی ان کے بزرگ والدین کے درجہ میں پہنچا دیں گے۔ اگرچہ وہ عمل کے اعتبار سے اس درجے کے مستحق نہ ہوں گے تاکہ ان کے والدین اور بزرگوں کی آنکھیں ٹھنڈی رہیں۔ (بیہقی) اسی طرح حضرت ابوہریرہ نے رسول اللہ ﷺ سے روایت کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے بعض نیک بندوں کا درجہ جنت میں ان کے عمل کی مناسبت سے بہت اونچا فرما دیں گے اس پر یہ اللہ تعالیٰ سے پوچھیں گے کہ الٰہی ہمیں یہ درجہ اور مقام کہاں سے مل گیا (یعنی ہم تو اس درجے کے قابل نہ تھے) جواب دیا جائے گا کہ تمہاری اولاد نے تمہارے مغفرت کی دعائیں کی تھیں یہ اسی کا اثر ہے۔ (صحیح مسلم شریف) فرمایا کہ ہر انسان اپنے عمل میں محبوس ہوگا اس کا مطلب یہ ہے کہ ایسا نہیں ہوگا کہ گناہ کوئی کرے اور اس کا الزام دوسرے پر ڈال دیا جائے گا بلکہ آدم جیسا عمل کرے گا اس کو اس سے بہتر بدلہ دیا جائے گا۔ البتہ اللہ کا یہ کرم ہے کہ اگر کوئی گناہ کرے گا تو اس کا بدلہ اس جیسا ہی دیا جائے گا جو اس نے کیا ہوگا۔ فرمایا کہ اہل جنت کو ہر وہ چیز دی جائے گی جس کی وہ خواہش کریں گے جنت میں اہل جنت کو ایسی شراب عطا کی جائے گی جس میں نہ تو کوئی گناہ کی بات ہوگی نہ فضول بکواس ہوگی وہ بےتکلف شراب کے جام لنڈھائیں گیا ور ہنسی مذاق اور دل لگی کے لئے جام پر چھیناجھپٹی کر رہے ہوں گے۔ ان کے خدمت کے لئے غلمان (لڑکے) جو خوبصورت اور محفوظ موتیوں کی طرح ہوں گے ان کے چاروں طرف پھرتے ہوں گے۔ وہ اہل جنت ایک دوسرے سے خوب باتیں کریں گے اور یہ بھی کہیں گے کہ ہم تو دنیا میں اپنے انجام کے متعلق سوچ سوچ کر ڈرتے رہتے تھے لیکن اللہ کا ہم پر کتنا بڑا احسان ہے کہ اس نے ہمیں جہنم کی آگ سے بچا کر جنت کی ابدی راحتیں عطا فرما دی ہیں اور دنیا میں رہ کر جن چیزوں کی تمنا کرسکتے تھے وہ سب کچھ ہمیں عطا کردی گئی ہیں۔ واقعی اللہ اپنے بندوں پر احسان کرنے والا مہربان ہے۔
Top