Mafhoom-ul-Quran - At-Tur : 17
اِنَّ الْمُتَّقِیْنَ فِیْ جَنّٰتٍ وَّ نَعِیْمٍۙ
اِنَّ الْمُتَّقِيْنَ : یشک متقی لوگ فِيْ جَنّٰتٍ : باغوں میں وَّنَعِيْمٍ : اور نعمتوں میں ہوں گے
جو پرہیزگار ہیں وہ باغوں اور نعمتوں میں ہوں گے
حساب کے دن پرہیزگاروں کے حالات تشریح : کس قدر خوبصورت اور پیارا بدلہ ہے جو نیک پاک اور متقی لوگوں کو دیا جائے گا۔ اللہ تعالیٰ جہاں سزا اور دوزخ کا ذکر فرماتا ہے تو ساتھ ہی اجر عظیم جنت کا ذکر بھی کرتا ہے۔ تاکہ انسان دنیا کی زندگی عدل و انصاف اور خوش اسلوبی سے گزارے۔ انسان کی یہ فطرت ہے کہ وہ دنیا کی گہما گہمی میں آخرت کو بھولنے لگتا ہے اسی لیے رب العزت نے انسان کی اصلاح و تربیت کے لیے نبی ﷺ کو قرآن دے کر بھیجا اور پھر پیار سے تسلی دیتے ہوئے حکم دیا کہ ہدایت دینے پر جو کچھ آپ ﷺ کو کفار کی طرف سے سخت سست سننا پڑتا ہے اور سختیاں برداشت کرنی پڑتی ہیں۔ ان سے گبھرائیں نہیں بلکہ بڑی مستعدی اور سکون سے اپنا کام کیے جائیں۔ کیونکہ انسان کو یاد دہانی کی ضرورت ہر وقت رہتی ہے اس لیے یہ فرض امت مسلمہ کے ہر فرد کے ذمہ لگا دیا کہ اللہ و رسول کا پیغام لوگوں تک ہر صورت پوری لگن اور خلوص سے پہنچاتے رہیں اور اس کے لیے شرط ہے کہ خلوص مستعدی اور اللہ کا شکر ادا کرتے ہوئے یہ فرض ادا کریں۔ کیونکہ اگر اس کام میں بد نیتی اور غرور شامل ہوگیا تو سب کیا کرا یا غارت ہوجائے گا۔ اس لیے انسان کو دنیا داری کے تمام کام کرتے ہوئے اس رب اعلی کا خیال اس کا پیغام ' اس کی رحمتیں برکتیں اور جنت و دوزخ کو ہر دم دل و دماغ میں رکھنا چاہیے۔ اور یہ کہاں سے ملتا ہے ؟ قرآن و سنت سے ملتا ہے۔ قرآن پر تفکر اور تدبر ہر مسلمان کا اوڑھنا بچھونا ہونا انتہائی ضروری عمل ہے۔ جب ہم اس طرح کی پاکیزہ ' مطمئن اور خوبصورت زندگی گزارتے ہیں تو ہماری روح اور ہمارا چہرہ نور ایمان سے جگمگا اٹھتا ہے۔ ہمارے اندر ایک ایسا توکل اور تدبر پیدا ہوجاتا ہے جو ہمیں زندگی گزارنے کے لیے انتہائی نڈر معقول اور ناقابل تسخیر انسان بنا دیتا ہے۔ کیونکہ ہم جانتے ہیں ہمارے جسم و جان ہماری زندگی ہمارے مال اور اولاد والدین سب کچھ اللہ کے پیدا کئے ہوئے اسی کے احسان مند اور اسی کی طرف لوٹ کر جانے والے ہیں۔ پھر کیوں نہ ہم اس عظیم مہربان کی فرمانبرداری ہی میں اپنی زندگیاں بسر کریں اور یہ عارضی زندگیاں اس ہمیشہ کی بہترین زندگیوں پر قربان کردیں۔ شاعر نے کیا خوب کہا ہے۔ دو عالم سے کرتی ہے بےگانہ دل کو عجب چیز ہے لذت آشنائی گدائی میں بھی وہ اللہ والے تھے غیور اتنے کہ منعم کو گدا کے ڈر سے بخشش کا نہ تھا یارا (علامہ اقبال (رح) ) اگر ہم ذرا سا غور کریں تاریخ کو دیکھیں تو ہمیں یہ راز فوراً معلوم ہوجاتا ہے کہ اتحاد توکل علی اللہ خلوص تنظیم اور ایمان کی مضبوطی خودداری کے ساتھ۔ اور اصول اسلام۔ یہی وہ ہتھیار ہیں کہ جن کی بدولت قوموں نے ترقی اور کامیابی حاصل کی اور انہیں تمام ہتھیاروں کی کمزوری سے قومیں ناکام و نامراد ہو کر ذلیل و خوار ہوئیں۔ آیت 17 سے 30 تک ہمیں یہی پیغام دیا گیا ہے غور کریں۔ ہم اس کو پہلے ہی پکارتے تھے (دعائیں کیا کرتے تھے) بیشک وہ (اللہ) احسان کرنے والا مہربان ہے۔
Top