Mualim-ul-Irfan - At-Tur : 17
اِنَّ الْمُتَّقِیْنَ فِیْ جَنّٰتٍ وَّ نَعِیْمٍۙ
اِنَّ الْمُتَّقِيْنَ : یشک متقی لوگ فِيْ جَنّٰتٍ : باغوں میں وَّنَعِيْمٍ : اور نعمتوں میں ہوں گے
بیشک متقی لوگ باغوں اور نعمتوں میں ہونگے
ربط آیات گزشتہ درس میں اللہ نے چند چیزوں کی قسم اٹھا کر یعنی ان کو بطور شاہد پیش کر کے جزائے عمل کی بات سمجھائی ، پھر مکذبین کا حال بیان فرمایا کہ وہ جزائے عمل والے دن سخت پریشانی کے عالم میں ہوں گے ۔ ان کو دھکیل کر جہنم میں ڈال دیا جائے گا اور ساتھ یہ بھی کہا جائے گا کہ جس چیز کو تم سحر سے تعبیر کرتے تھے ۔ بتلائو کیا یہ سحر ہے یا حقیقت ؟ آج دیکھ لو قیامت برپا ہو کر جزائے عمل کی منزل آ چکی ہے ، یہ وہی چیز ہے جس کو تم جھٹلاتے تھے ، اور اللہ کی وحدانیت ، رسول کی رسالت اور قرآن کریم کی حقانیت پر ایمان نہیں لاتے تھے۔ اب تمہیں صبر یا بےصبری کے ساتھ یہیں رہنا ہوگا ، ایسے لوگوں کے لیے اس دن تباہی و برباد ہوگی۔ متقین کے لیے انعامات مکذبین کو انداز کرنے کے بعد اب اللہ نے متقین کے لیے انعامات کا تذکرہ فرمایا ہے اللہ تعالیٰ کا یہ دستور ہے کہ جہاں ترہیب کی بات کی جاتی ہے ، وہاں ترغیب کا پہلو بھی اجاگر کردیا جاتا ہے ، چناچہ ارشاد ہوتا ہے ان المتقین فی جنت و نعیم بیشک متقی لوگ باغوں اور نعمتوں میں ہوں گے ۔ اتقاء کا معنی بچنا ہوتا ہے یعنی انسان ، کفر ، شرک ، نفاق اور بد عقیدگی سے بچ جائے ، ظلم و جور کی بجائے عدل و انصاف پر کار بند ہوجائے تو وہ متقی کہلائے گا حضرت عبد اللہ ابن عباس ؓ نے متقین کی یہ تعریف کی ہے کہ ایسے اشخاص جو اولاً کفر ، شرک اور نفاق سے بچتے ہیں اور پھر دوسرے نمبر پر معاصی سے بچتے ہیں ، اور اعلیٰ درجے کے متقین کی صفت یہ ہے کہ وہ ایمان میں خلل ڈالنے والی معمولی معمولی باتوں سے بھی پرہیز کرتے ہیں ۔ شریعت کی حدود کی حفاظت کرتے ہیں ، خود کو دوسروں سے کم تر سمجھتے ہیں ، غرور وتکبر سے پرہیز کرتے ہیں ، اور عاجزی اختیار کرتے ہیں ، وہ کوئی ایسا کام نہیں کرتے جو اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کا سبب بنے ۔ ایسے لوگوں کے متعلق فرمایا کہ ان کے لیے خدا تعالیٰ کے ہاں باغات ہوں گے ۔ انہیں وہاں ہر قسم کا آرام اور راحت نصیب ہوگی ۔ اللہ تعالیٰ کے اس انعام پر وہ لوگ فاکھین بما اتھم ربم خوش ہونے والے ہوں گے ۔ اس چیز پر جو اللہ انہیں عطا کرے گا ۔ یعنی جنت کے انعام و اکرام پا کر خوش ہوجائیں گے ۔ فکاہت کا معنی خوش طبعی بھی ہوتا ہے ، یعنی جنتی لوگ آپس میں دل لگی کی باتیں بھی کریں گے۔ اس کے علاوہ فاکھہ پھل کو بھی کہتے ہیں ، گویا وہ اللہ کی طرف سے عطاکردہ پھل کھائیں گے ۔ اور وہ اس بات پر بھی خوش ہوں گے ووقتھم ربھم عذا ب الجحیم کہ اللہ نے ان کو دوزخ کے عذاب سے بچا لیا ہے اور وہ کامیاب ہوگئے ہیں ۔ جنت میں داخل کرنے کے بعد ان سے کہا جائے گا کلوا وشربوا ھنیا ً بما کنتم تعلمون کھائو اور پیو خوشگوار ان اعمال کے بدلے میں جو تم دنیا کی زندگی میں کیا کرتے تھے۔ جنت میں خوردو نوش کی ہر قسم کی نعمتیں میسر ہوں گی جو رنگ ذائقے اور بو میں ایک سے ایک بڑھ کر ہوں گی ۔ اور پھر وہ خوشگوار بھی ہوں گی یعنی ان کے کھانے سے کسی قسم کی تکلیف یا بد ہضمی وغیرہ نہیں ہوگی ، اور جنتی خوشگوار اور خوش و خرم زندگی گزاریں گے جو کبھی ختم نہیں ہوگی ۔ فرمایا ان کے عیش و آرام کا یہ عالم ہوگا متکین علی سرر مصفوفۃ وہ ایسے تختوں پر تکیہ لگا کر بیٹھیں گے ، جو قرینے کے ساتھ صف بہ صف بچھائے گئے ہوں گے ، جنتی لوگ ایک دوسرے کے آمنے سامنے ہوں گے اور کسی ایک کی دوسرے کی طرف پشت نہیں ہوگی۔ حوروں سے نکاح اس کے بعد ایک اور نعمت کا اللہ نے ذکر فرمایا ہے وزوجنھم بحورعین اور ہم ان کا گوری چٹی بڑی بڑی آنکھوں والی خوبصورت عورتوں سے نکاح کردیں گے ۔ عین کا معنی بڑی آنکھ والی ہوتا ہے اور حور سفیدی کا معنی دیتا ہے عام طور پر لوگ سفید رنگ والی عورت کو پسند کرتے ہیں ، البتہ بعض گندمی رنگ بھی پسند کرتے ہیں ۔ حضور ﷺ نے فرمایا کہ میں نے جنت میں ایک گندمی رنگ نوجوان عورت کو دیکھا میں نے پوچھا کہ عرب کے لوگ تو عموما ً گوری رنگ کی عورتوں کو پسند کرتے ہیں مگر یہ گندمی رنگ والی ہے ۔ فرماتے ہیں کہ مجھے بتایا گیا کہ اللہ نے اس عورت کو حضرت جعفر طیار ؓ کے لیے مخصوص فرمایا ہے جو حضرت علی ؓ کے بڑے بھائی تھے اور جنگ موتہ میں شہید ہوئے تھے ، دوران جنگ آپ کے دونوں بازو کٹ گئے تھے۔ حضور ﷺ نے فرمایا کہ میں نے ان کو جنت میں فرشتوں کے ساتھ پرواز کرتے ہوئے دیکھا ، اللہ نے آپ کو دو بازوئوں کی جگہ دو پر عنایت فرمادیے تھے ۔ بہر حال اللہ نے ان کے لیے یہ گندمی رنگ حور کو پیدا فرمایا ہے ۔ ممکن ہے کہ حضرت جعفر ؓ اسی رنگ کو پسند کرتے ہوں ، اور اللہ نے ویسے رنگ کی عورت ہی مخصوص کردی ہو ۔ حوریں جنت کی مخلوق ہیں اور یہ اس دنیا کی نوع انسانی کی عورتوں کے علاوہ ہوں گی ، ان کا نکاح اہل جنت کے ساتھ ہوگا ۔ سورة البقرہ میں بھی ان عورتوں کا ذکر ہے ولھم فیھا ازواج مطھہرۃ اہل جنت کے لیے جنت میں پاکیزہ بیویاں ہوں گی ۔ ان کے اجسام اور اخلاق بالکل پاک ہوں گے اور وہ ظاہری اور باطنی ہر قسم کی نجاست سے پاک ہوں گی ۔ کوئی جسمانی بیماری نہیں ہوگی ، بو ل چال شائستہ اور نہایت با اخلاق اور شکر گزار ہوں گی ۔ اس زمانے میں بعض لوگوں نے قرآنی اصلاحات کو غلط معانی پہنانے کی کوشش کی ہے۔ مثلاً غلام احمد پرویز حورعین کا معنی پاکیزہ فکر کرتا ہے اس نے سرے سے اس جنتی مخلوق کا انکار ہی کردیا ہے۔ اس نے اللہ کا معنی قانون کیا ہے اور علماء سے مراد سائنسدان لیے ہیں ۔ اسی طرح ابل ( اونٹ ) کا معنی بادل کیا ہے۔ اس ضمن میں مودودی صاحب نے بھی غلطی کی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ حورعین سے غیر مسلموں کی ایسی لڑکیاں ہیں جو ابھی سن بلوغت کو نہیں پہنچیں یہ بھی درست نہیں کیونکہ سلف میں سے کسی نے بھی یہ معنی نہیں کیا ۔ حقیقت بہر حال یہی ہے کہ حوریں جنت کی مخلوق ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ کسی پاکیزہ مادے سے پیدا کرے گا اور یہ جنتیوں کو علی قدر المراتب کم و بیش ملیں گی ۔ ان کے نکاح کا مطلب یہ نہیں جیسا کہ یہاں دنیا میں میاں بیوی ایجاب و قبول کرتے ہیں بلکہ اللہ تعالیٰ ہر جنتی کے لیے اس کی بیوی مقرر فرمائے گا ۔ کسی ایجاب و قبول کو ضروت نہیں ہوگی۔ مومنوں کی اولادیں دنیا میں ہر شخص کو اپنی اولاد سے محبت ہوتی ہے اور وہ ہر وقت اس کی بہتری چاہتا ہے ۔ یہ خواہش جنت میں جا کر بھی قائم رہے گی ، چناچہ ان کی خوشنودی کی خاطر اللہ نے فرمایا والذین امنوا وتبعتھم ذریتھم بایمان اور وہ لوگ جو ایمان لائے ، اور ان کی اولادوں نے ایمان کے ساتھ ان کا اتباع کیا ۔ الحقنابھم ذریتھم تو ہم ان کی اولادوں کو بھی اہل ایمان کے ساتھ ملا دیں گے ۔ خواہ اولاد کا درجہ والدین سے کم ہی کیوں نہ ہو یہ انکے لیے خصوصی رعایت ہوگی اگر مومن اعلیٰ درجہ کا ہے اور اس کی اولاد کم درجہ میں ہے تو اس کو بھی اعلیٰ درجہ میں جگہ دے دی جائیگی تا کہ مومن کو ذہنی سکون حاصل ہو ۔ مومنوں کی اولادوں کا مومنوں کے ساتھ ملنے کا یہی مطلب ہے۔ یہ تو بالغ اولادوں کا مطلب بیان ہوگیا ۔ البتہ نا بالغ اولاد والدین کے نا بالغ شمار ہوتی ہے۔ جو حکم والدین کے لیے ہو ، وہی اولاد کے لے ہوتا ہے ۔ ہاں اگر والدین میں ایک مومن اور دوسرا کافر ہو تو نا بالغ بچے کا شمار مومن کے ساتھ ہوگا ، دنیا میں بھی یہی دستور ہے خیر الابوین دینابچہ اس کا تابع ہوگا جس کا دین بہتر ہے ، اسی لیے فو ت شدہ نا بالغ بچوں کو کفن دیا جاتا ہے ۔ اور ان کا جنازہ پڑھا جاتا ہے ، حالانکہ وہ غیر مکلف ہوتے ہیں ، مگر والدین کے اتباع کی بناء پر ان کے ساتھ والدین والا سلوک ہی کیا جاتا ہے۔ فرمایا ہم ملا دیں گے مومنوں کی اولادوں کو ان کے ساتھ وما التنھم من عملھم من شی اور ان مومنوں کے اعمال میں سے کوئی کمی نہیں کریں گے۔ مطلب یہ کہ مومنوں کے اجر وثواب میں سے کم ک کے ان کے بچوں کو نہیں نوازا جائے گا ۔ بلکہ یہ اللہ تعالیٰ کی خصوصی رحمت ہوگی کہ کم درجے والی اولاد کو بھی زیادہ دے کر ان کے والدین کے ساتھ شامل کردیا جائے گا ۔ حضور ﷺ سے عرض کیا گیا کہ حضور ! جنگ کے دوران ہمارا ارادہ تو کسی بالغ اور قاتل جنگ کافر کو قتل کرنے کا ہوتا ہے مگر بعض اوقات ہماری تلوار کی زد میں آ کر عورت یا بچہ بلا ارادہ قتل ہوجاتا ہے ، تو کیا اس کا وبال ہم پر ہوگا ؟ حضور ﷺ نے فرمایا ھم من اباء ھم اس حکم میں وہ اپنے والدین کے تابع ہوں گے ، یعنی دنیا میں ایسا بچہ تو کافر والدین کے تابع ہوگا مگر آخرت میں نہیں کیونکہ وہ تو گناہ گار نہیں ہوتا ، لہٰذا والدین کے فر کی وجہ سے ان کے بچوں کو آخرت میں سزا نہیں ملے گی ، دنیا میں والدین کے تابع ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اگر بچے کے ذمے قصاص یا دیت لازم آئے تو اس کے ذمہ دار والدین ہوں گے۔ فرمایا کل امری بما کسب رھین ہر شخص اپنے اعمال میں رہن رکھا ہوا ہے۔ وہ اپنے اعمال میں اس قدر پھنسا ہوا ہے کہ ان سے نکل نہیں سکے گا بلکہ ان کا بھگتان کرنا ہی پڑے گا ۔ اہل جنت کا خور ونوش جنت والوں کے کھانے پینے کے انعامات کے متعلق فرمایا وامدد نھم بفاکھۃ اور ہم ان کو پھلوں کی مدد پہنچاتے رہیں گے ۔ کسی پھل کے ختم ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ دوسرے موسم تک انتظار کرنے پڑے ، بلکہ ہر قسم کے پھل ہمہ وقت موجود رہیں گے۔ جونہی کوئی جنتی درخت سے پھل اتار کر کھائے گا ، اس کی جگہ فوراً ہی دوسرا پھل آجائے گا ۔ ان پھلوں کے علاوہ فرمایا ولحم مما یشتھون اور اہل جنت کو من پسند گوشت بھی مہیا کیا جائے گا ۔ سورة واقعہ میں فرمایا ولحم طیر مما یشتھون ( آیت : 21) ان کے لیے پرندوں کا گوشت ہوگا ، جیسا کہ وہ چاہیں گے ۔ ظاہر ہے کہ پرندوں کا گوشت زیادہ لذیز اور پسندیدہ ہوتا ہے لہٰذا اس مقام پر پرندوں کے گوشت کا ذکر کیا ہے مطلب یہی ہے کہ یہ من پسند نعمت بھی اہل جنت کو میسر ہوگی ۔ پھر فرمایا یتنازعون فیھا کا سا ً اہل جنت ، جنت میں ایک دوسرے کو پیالے پیش کریں گے۔ وہاں پر شراب طہور کے دور چلیں گے اور جنتی لوگ بخوشی ایک دوسرے کو پیش کریں گے۔ تنازعہ کا معنی چھینا چھپٹی اور دل لگی کرنا بھی آتا ہے ، جنتی لوگ خوشی اور مسرت کا اظہار کریں گے۔ اور شراب کے یہ پیالے ایسے ہوں گے لا لغو فیھا کہ ان میں کوئی بیہودہ چیز نہیں ہوگی جس سے طبیعت میں متلی پیدا ہو یا پیٹ میں کوئی تکلیف پیدا ہوجائے یا درد سرشروع ہوجائے بلکہ یہ تو نہایت ہی خوشگوار جام ہوں گے جو ایک دوسرے کو پلائے جائیں گے ولا تاثیم اور نہ ہی ان میں کوئی گناہ کی بات ہوگی ۔ انسان دنیا میں شراب نوشی کر کے کئی دوسرے گناہوں میں ملوث ہوجاتے ہیں ۔ گالی گلوچ اور دنگا فساد تک نوبت پہنچتی ہے ، بدکاری کا ارتکاب کر بیٹھتے ہیں مگر جنت کی شراب طہور ایسی تمام چیزوں سے پاک ہوگی اور اس کے نوش کرنے سے نہ کوئی جسمانی تکلیف آئے گی اور نہ آدمی کسی گناہ میں ملوث ہوگا ۔ اہل جنت کے لیے غلمان حوروں کے علاوہ اللہ نے اہل جنت کے لیے ایک اور نعمت کا ذکر بھی فرمایا ہے ویطوف علیھم غلمان لھم ان کے آس پاس چھوٹے بچے گھو میں پھریں گے جن سے اہل جنت کی خوشیوں میں دو چند اضافہ ہوجائے گا ۔ یہ ایسے خوبصورت اور پیارے بچے ہوں گے کانھم لولو منکنون گویا کہ وہ غلاف میں محفوظ کیے ہوئے موتی ہوں ۔ یہ ایسے صاف شفاف اور گرد و غبار سے پاک ہوں گے گویا کہ انہیں غلافوں میں بند کر کے رکھا گیا ہو ، جس طرح حور جنت کی مخلوق ہے ، اسی طرح غلمان بھی خالص جنتی مخلوق سے ہے جسے اللہ تعالیٰ اہل جنت کی خدمت کے لیے پیدا فرمائے گا ۔ اعتراف حقیقت آگے اللہ نے جنتیوں کے کچھ مزید حالات بیا ن فرمائے ہیں واقبل بعضھم علی بعض یتساء لون وہ ایک دوسرے کی طرف متوجہ ہو کر پوچھیں گے قالوا انا کنا قبل فی اھلنا مشفقین اور کہیں گے کہ اس سے پہلے ہم دنیا میں اپنے گھروں میں ، اس بات سے ڈرتے تھے کہ پتہ نہیں آگے چل کر کیا معاملہ پیش آنے والا ہے ، ہمیں ہر وقت آخرت کی فکر لگی رہتی تھی کہ وہاں ناکام نہ ہوجائیں ۔ دراصل یہی فکر تھی جو اہل جنت کو جنت میں لانے کا سب بنی ۔ اسی فکر کی بناء پر وہ اپنے آپ کو معصیت اور نافرمانی سے بچاتے رہے ، اللہ اور اسکے رسول کی اطاعت کرتے رہے ۔ حتیٰ کہ اللہ کی رحمت کے اس مقام تک پہنچ گئے ۔ پھر کہیں گے فمن اللہ علینا اللہ تعالیٰ نے ہم پر بڑا احسان فرمایا ووقنا عذاب السموم اور ہمیں لو کے عذاب سے بچا لیا ، مطلب یہ کہ جنتی لوگ جنت میں پہنچ کر کسی اپنی کارکردگی پر فخر کرنے کی بجائے اسے اللہ کا احسان مانیں گے کہ اس نے ہمیں عذاب سے بچا کر راحت کے مقام پر پہنچا دیا ۔ پھر کہیں گے انا کنا من قبل ندعوہ اس سے پہلے یعنی دنیا کی زندگی میں ہم اسی پروردگار کو پکارا کرتے تھے یعنی ہر مشکل میں اسی کو اعانت طلب کرتے تھے ، اپنی حاجات اسی کے سامنے پیش کرتے تھے ، اور اسی کی تسبیح وتحمید میں مصروف رہتے تھے ، اپنی تمام مناجات اسی کے روبرو پیش کرتے تھے ، اسی کو مشکل کشا اور حاجت روا سمجھتے تھے ، لہٰذا اس نے ہم پر بڑا ہی احسان فرمایا انہ ھو البر الرحیم بیشک وہ بڑا نیک سلوک کرنے والا اور بیحدمہربان ہے بر اللہ کے اسمائے پاک میں سے ایک نام بھی ہے جو کہ بر کے مادہ سے ہے جس کا معنی نیکی ہوتا ہے ، وہ رحیم بھی ہے ۔ امام بیضاوی (رح) فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی صفت رحیم کا مظاہرہ آخرت میں ہوگا ۔ جو خالص ایمانداروں کے لیے ہوگی ، جب کہ اس کی صفت رحمان کا فیضان اہل ایمان اور اغیار سب کے لیے عام ہے یہ اللہ تعالیٰ کی مہربانی کا فیض ہوگا کہ اہل جنت کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے آرام و راحت میسر آجائے گی۔
Top