Tafseer-e-Haqqani - At-Tur : 17
اِنَّ الْمُتَّقِیْنَ فِیْ جَنّٰتٍ وَّ نَعِیْمٍۙ
اِنَّ الْمُتَّقِيْنَ : یشک متقی لوگ فِيْ جَنّٰتٍ : باغوں میں وَّنَعِيْمٍ : اور نعمتوں میں ہوں گے
بیشک جو پرہیز گار ہیں باغوں اور نعمتوں میں چین کرتے ہوں گے۔
ترکیب : فاکہین یقال رجل فاکہتہ ای ذوفاکہتہ قیل ذونعمۃ تلذوحال و قرء فکھین والفکھہ طیب النفس بما موصولۃ والباء علی اصلھا او بمعنی فی ووقاھم عطف علیٰ الصلۃ او حال تبقدیر قد او معطوف علی فی جنات متکئین حال من الضمیر فی کلوا اومن الضمیر فی وقاھم اومن الضمیر فی فاکہین والذین امنوا مبتدء و اتبتھم الخ معترضۃ للتعلیل الحقنابھم خبرہ بایمان حال من الضمیر او الذریۃ او منھا یتنازعون حال۔ انہ بالکسر علی الاسقیناف کا ساخمرا سماھا باسم محلہا وذلک انث الضمیر فی قولہ لا لغو فیہا۔ تفسیر : جیسا کہ اہل جہنم کا حال بیان ہوا تھا، اب اہل جنت کا حال بیان فرماتا ہے۔ فقال ان المتقین الخ کہ پرہیز گار بہشتوں میں ہر طرح سے آرام و عافیت سے رہیں گے اور جہنم کے عذاب سے خدا ان کو بچاوے گا۔ روحانی جنت کے سوا جسمانی نعمتیں بھی ان کو نصیب ہوں گی، جسمانی نعمتیں ہیں۔ اول عمدہ کھانا پینا اس کی نسبت حکم ہوگا، کلوا واشربوا ھنیئًا ہنیئی کے معنی ہیں بےمشقت و بےرنج و بےکھٹکے نہ مرض کا کھٹکا ‘ نہ پکانے اور کما کر لانے کا دغدغہ ‘ نہ کم ہوجانے کی فکر۔ دوم رہنے کی عمدہ جاسو اس کو ایک بار تو جنات و نعیم میں اجمالاً بیان کیا تھا، اب اس کی تشریح کرتا ہے کہ متکئین علی سرر مصفوفۃ بادشاہوں کی طرح تختوں پر صف بستہ تکئے لگائے بیٹھے ہوں گے، تیسری نعمت اس کے بعد حسین اور فرماں بردار اور نیک بیوی کا میسر آنا جس کی طرف انسان کو ماکل و مشارب کے بعد بالطبع رغبت ہے، سو اس کی نسبت فرماتا ہے وزوجناھم بحورعین کہ ہم ان کی شادی حورعین سے کردیں گے۔ (حورعین کے لفظ کی شرح اور جنت میں شادی ہونے کی بابت پادریوں کے اعتراض کا جواب ہم کئی بار ذکر کرچکے ہیں) ۔ ان سب نعمتوں کے بعد انسان کو اپنے احباب و اقارب کی جدائی کا رنج بھی خصوصاً عیش و آرام کے وقت دل میں کانٹا سا کھٹکا کرتا ہے جو سب باتوں کو تلخ کردیتا ہے، اس کانٹے کو نکالتا ہے۔ فقال والذین امنوا و اتبعتہم ذریتہم بایمان ذریۃ بضم فرزندان ذراری، ذریات جمع، (صراح) کہ ایمانداروں کی اولاد جو ایمان میں اپنے بزرگوں کے تابع ہوں گے، وہ بھی ان کے ساتھ جنت میں ملادیے جاویں گے اور ان کے بزرگوں کے عمل میں سے اس وجہ سے کہ ان کی اولاد ان کے ساتھ ایمان لانے کے سبب ملائی گئی، کچھ کمی نہ کریں گے۔ طبرانی وابن مردویہ نے ایک حدیث نقل کی ہے کہ مومن جنت میں جاکر اپنے ماں باپ اور بیوی اور اولاد کو دریافت کرے گا، اس کو کہا جاوے گا کہ وہ تیرے درجہ تک نہ پہنچے، وہ عرض کرے گا الٰہی میں نے اپنے لیے اور ان کے لیے عمل کیا تھا، تب حکم ہوگا کہ ان کو بھی ساتھ ملادو صالحین کی اولاد بلکہ دیگر اقارب بلکہ احباب و عقیدت مند بھی کہ جن کو عرفاً لفظ ذریت شامل ہے، ان کی بدولت بشرطیکہ خود بھی ایمان رکھتے ہوں گے، ان کے درجات میں جگہ پاویں گے، مگر ساتھ یہ بھی فرمادیا کل امریئٍ بما کسب رھین کہ ہر آدمی اپنے اعمال میں بند ہے تاکہ کوئی اپنے بزرگوں پر بھروسہ کرکے آپ ایمان و اعمال صالحہ کی کوشش سے آزاد نہ بن بیٹھیں۔ آگے پھر ان کے نعماء کا ذکر کرتا ہے کہ دل پسند پرندوں کا گوشت کھانے کو ملے گا، شراب طہور کا دور چلے گا۔ فرحت میں آکر ایک دوسرے سے چھینا جھپٹی کرے گا، جیسا کہ دنیا میں احباب کیا کرتے ہیں۔ پھر باہم ایک دوسرے سے پوچھے گا کہ تم نے دنیا میں کیا اعمال کئے تھے، جواب دیں گے کہ ہم خدا سے ڈرا کرتے تھے، اس نے ہم پر فضل کردیا۔ عذاب جہنم سے بچالیا، بس اس کی عنایت و مہربانی تھی۔
Top