Al-Qurtubi - At-Tur : 17
اِنَّ الْمُتَّقِیْنَ فِیْ جَنّٰتٍ وَّ نَعِیْمٍۙ
اِنَّ الْمُتَّقِيْنَ : یشک متقی لوگ فِيْ جَنّٰتٍ : باغوں میں وَّنَعِيْمٍ : اور نعمتوں میں ہوں گے
جو پرہیزگار ہیں وہ باغوں اور نعمتوں میں ہوں گے
ان المتقین فی جنت و نعیم، جب کفار کا حال ذکر کیا تو مومنین کا حال بھی ذکر کیا۔ فکھین کثیر پھلوں والے۔ یہ کہا جاتا ہے : رجل فاکہ یعنی پھل والا جس طرح لابن اور تامر کہا جاتا ہے دودھ والا اور کھجور والا، یعنی یہ نسبت کا معنی دیتا ہے۔ شاعر نے کہا : و غررتنی وزعمت انک لابن بالصیف و تامر (1) تو نے مجھے دھوکہ دیا اور تو نے گمان کیا کہ تو موسم گرما میں دودھ والا اور کھجور والا ہے۔ یہاں بھی لابن اور تامر، ذولبن اور ذوتمر کے معنی ہے۔ حضرت حسن بصری اور دوسرے قراء نے فکھین الف کے بغیر پڑھا ہے اس کا معنی ہے خوش وخرم (2) ۔ حضرت ابن عباس اور دوسرے علماء کے قول ہے : کہا جاتا ہے فکہ الرجل فھو فکہ جب اس کی طبیعت اچھی اور مزاح کی حامل ہو۔ فکہ کا معنی انتہائی حریص اور متکبر بھی ہے۔ سورة الدخان میں اس کے بارے میں گفتگو گزر چکی ہے۔ بما انتھم تبھم ووقہم ربھم عذاب الجحیم ،۔ یعنی ان کے رب نے انہیں جو عطا کیا۔ کلو او اشر بوا انہیں یہ بات کہی جائے گی : کھائو پیو۔ ھئینا مبارک ہو جس میں محروی اور کدورت نہیں۔ زجاج نے کہا ؛ جس طرف تم جارہے ہو وہ تمہیں مبارک ہے۔ ھنیا کے بارے میں کئی اقوال ہیں۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : تقدیر کلام یہ ہے متعتم بنعیم الجنۃ امتاعا ھنیا۔ ایک قول یہ کیا گیا ؛ کلو اواشربوا ھنئتم ھنیاء یہ مفعول مطلق ہے اور مصدر کی صفت بن رہا ہے۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : ھنیاء کا معنی حلال۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے ؛ اس میں کوئی اذیت اور سردرد نہیں ہوگا۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : مبارک ہو تم کو موت نہیں آئے گی کیونکہ وہ چیز جو باقی نہ رہے یا انسان جس کے ساتھ باقی نہ رہے وہ طبیعت کو منقبض کرنے والی اور غیر مبارک ہوتی ہے۔ متکین علی سرر، سریر کی جمع ہے کلام میں حذف ہے تقدیر کلام یہ ہے متئکین علی نمارق سرر، مصفوفتہ ابن اعرابی نے کہا : معنی ہے وہ ایک دوسرے کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں یہاں تک کہ وہ ایک صف بن گئے ہیں۔ احادیث میں آیا ہے، ، وہ آسمان میں اتنے اتنے طویل صف در صف ہیں جب بندہ ان پر بیٹھنے کا ارادہ کرتا ہے تو وہ نیچے ہوجاتے ہیں جب وہ اس پر بیٹھ جاتا ہے تو وہ اپنی حالت میں ہوجاتے ہیں۔ حضرت ابن عباس ؓ نے کہا : یہ سونے کے پلنگ ہیں جن پر زبر جد، موتیوں اور قوت کے تاج ہیں اور ایک پلنگ مکہ مکرمہ اور ایلہ کے درمیان مسافت کے برابر ہے۔ وزو جہنم بحور عین ،۔ یعنی ہم نے جنتیوں کو ان حوروں کا ساتھی بنا دیا ہے۔ یونس بن حبیب نے کہا ؛ عرب کہتے ہیں زوجت امراۃ وتزوجت امراۃ۔ کلام عرب میں یہ نہیں تزوجت بامرۃ۔ کہا : اللہ تعالیٰ کا جو یہ فرمان وزوجھنم بحور عین یعنی ہم نے انہیں حورعین کا ساتھی بنا دیا ہے اللہ تعالیٰ کے اس فرمان سے تعلق رکھتا ہے : احشر والذین ظلموا و ازواجہنم (الصافات :22) یہاں ازواج سے مراد ان کے ساتھی ہیں۔ فراء نے کہا : تزسجیت بامراۃ یہ ازدشنئوہ میں ایک لغت ہے۔ حورعین کے بارے میں گفتگو پہلے گزر چکی ہے۔
Top