Baseerat-e-Quran - An-Najm : 29
فَاَعْرِضْ عَنْ مَّنْ تَوَلّٰى١ۙ۬ عَنْ ذِكْرِنَا وَ لَمْ یُرِدْ اِلَّا الْحَیٰوةَ الدُّنْیَاؕ
فَاَعْرِضْ : تو اعراض برتیئے عَنْ مَّنْ تَوَلّٰى : اس سے جو منہ موڑے عَنْ ذِكْرِنَا : ہمارے ذکر سے وَلَمْ يُرِدْ : اور نہ چاہے وہ اِلَّا الْحَيٰوةَ الدُّنْيَا : مگر دنیا کی زندگی
(اے نبی ﷺ آپ ایسے شخص سے منہ پھیر لیجیے جس نے ہماری نصیحت سے منہ پھیرلیا ہے اور دنیا کی زندگی کے سوا اس کا کوئی مقصد نہیں ہے۔
لغات القرآن آیت نمبر 29 تا 32 مبلغ پہنچنے کی جگہ۔ اسآء و انہوں نے برے کام کئے۔ یجتنبون جو بچتے ہیں ۔ کبائر الاثم بڑے بڑے گناہ۔ الواحش بےحیائیاں۔ اللمم تھوڑا سا گناہ، خطا ۔ انشا اس نے پیدا کیا۔ اجنۃ (جنین) ماں کے پیٹ میں بچے لاتزکوا پاکباز نہ بننے پھرو۔ تشریح : آیت نمبر 29 تا 32 نبی کریم ﷺ کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا جا رہا ہے کہ آپ ان لوگوں کی اصلاح کی جدوجہد کرتے رہے جن کا مقصد زندگی اللہ کو راضی کرنا ہے اور ان کا ہر قدم اللہ و رسول کی رضا و خوشنودی کے لئے اٹھتا ہے لیکن وہ لوگ جن کا مقصد دنیا کی زندگی کا آرام و سکون، راحت اور عیش و عشرت حاصل کرنا ہے ان کی عقل ان کا فہم اس سے آگے بڑھتا ہی نہیں۔ ان کے نزدیک جو کچھ ہے وہ بس یہی دنیا ہے جس کے چکر میں وہ دن رات دیوانگی کی حد تک لگے رہتے ہیں۔ نبی کریم ﷺ سے فرمایا جا رہا ہے کہ آپ ایسے دنیا پرستوں کی پرواہ نہ کیجییا ور ان سے اپنا رخ موڑ کر اہل ایمان کی طرف کر لیجیے۔ اللہ اچھی طرح جانتا ہے کہ کون اس کے رساتے اور ہدایت پر ہے اور کون اس سے بھٹک کر دور جا پڑا ہے۔ یہ ساری کائنات اور زمین و آسمان کی ہر چیز کا مالک وہی ہے ۔ وہی گمراہوں کو ان کے برے انجام تک پہنچائے گا اور جن لوگوں نے تقویٰ ، پرہیز گاری اور نیکی کے ساتھ زنگدی گذاری ہوگی ان کو بہترین بدلہ اور اجر عطا فرمائے گا۔ یہ نیک لوگ وہ ہیں جو بڑے بڑے گناہوں اور بےحیائی کے کاموں سے بچ کر چلنے کے عادی ہیں اور اگر بشری کمزوریوں کی وجہ سے ان سے کسی طرح کی کوتاہی ، غفلت یا چھوٹا موٹا گناہ سرزد ہوگیا ہوگا تو وہ اس پر ضد اور اصرار کرنے کے بجائے فوراً اللہ سے سچے دل سے توبہ کرلیتے ہیں تو یقینا وہ لوگ اپنے پروردگار کی رحمت و مغفرت کے دامن کو بہت وسیع پائیں گے۔ وہ اللہ جس نے انسان کو زمین سے پیدا کیا ہے وہ انسانی فطرت اور مزاج کو بہت اچھی طرح جانتا ہ۔ آدمی کو غرور وتکبر کرنے اور اپنی پاکیزگی پر فخر نہیں کرنا چاہئے کیونکہ دنیا جانتی ہو یا نہ جانتی ہو وہ اللہ تو اس کو اچھی طرح جانتا ہے۔ اسے معلوم ہے کہ کون متقی پرہیز گار ہے اور کون گلے گلے تک گناہوں میں ڈوبا ہوا ہے۔ (1) اللہ کا دین پہنچانے کے سلسلے میں ہر شخص پر محنت کرنے کی ضرورت ہے لیکن جو لوگ دامن مصطفیٰ سے وابستہ ہوچکے ہوں ان کا خیال رکھنے کی زیادہ ضرورت ہے۔ جیسے موجودہ دور میں اہل ایمان کی تعداد ساری دنیا میں ہر قوم سے زیادہ ہے۔ اللہ نے سارے خزانے اور وسائل مسلمانوں کے قدموں میں ڈال دیئے ہیں۔ غیر مسلموں کو دین اسلام کی طرف رغبت دلاتے رہنا چاہئے لیکن صرف اسی طرف لگا رہنے میں اتنا فائدہ نہیں ہے جتنا اس بات میں فائدہ ہے کہ مسلمانوں کو صحیح معنی میں مسلمان بنایا جائے۔ آج اگر صرف مسلمان ہی دین اسلام پر پوری طرح عمل کرنے والے بن جائیں تو ہمیں صرف غیر مسلموں کو مسلمان بنانے کی فکر نہیں پڑے گی۔ اگر آج سارے مسلمان عالمی غنڈہ گردی کا مقابلہ کرنے کے لئے ایک ہوجائیں تو یہی غیر مسلم مسلمانوں کے قدموں کی دھول بن کر رہ جائیں گے۔ اس آیت میں اسی طرف توجہ دلائی گئی ہے۔ آج اگر صرف مسلمان ہی دین اسلام پر پوری عمل کرنے والے بن جائیں تو ہمیں صرف غیر مسلموں کو مسلمان بنانے کی فکر نہیں پڑے گی۔ آج سارے مسلمان عالمی غنڈہ گردی کا مقابلہ کرنے کے لئے ایک ہوجائیں تو یہی غیر مسلم مسلمانوں کے قدموں کی دھول بن کر رہ جائیں گے۔ اس آیت میں اسی طرف توجہ دلائی گئی ہے۔ (2) کبیرہ گناہ ویسے تو کبیرہ گناہوں کی فہرست بہت طویل ہے ان میں سے چند کبیرہ گناہوں سے بچنے کی بہت ضرورت ہے جیسے زنا کاری اور بد کاری، لواطت (قوم لوط کا عمل) ، چوری، ڈاکہ ، قتل و غارت گری، سود، جواء ، شراب نوشی اور نشہ پیدا کرنے والی چیزوں کا استعمال، والدین کی نافرمانی، پاک دامن عورتوں پر تہمت لگانا، رشوت ، مردار جانور اور خنزیر کا گوشت کھانا، کسی شخص یا یتیم کے مال پر زبردستی قبضہ کرلینا، جادو سیکھنا سکھانا، ماپ تول میں کمی کرنا، غیب چغل خوری، جھوٹی قسم، جھوٹی گواہی، قطع رحمی اور صغیرہ گناہوں کو معمولی سمجھ کر مسلسل کرتے رہنا یہ بھی کبیرہ گناہ بن جاتا ہے۔ اسی طرح ناچ گانا وغیرہ یہ سب کے سب کبیرہ گناہ ہیں۔ اگر کسی نے بڑے بڑے گناہوں سے توبہ نہ کی اور جس کا حق ہے اس کو اس کا حق ادا نہ کیا تو آخرت میں وہ زبردست خسارہ میں رہے گا۔ وہاں جا کر ایسا پچھتاوا ہوگا جس کا اس دنیا میں رہ کر تصور تک نہیں کیا جاسکتا۔ صغیرہ گناہ … وہ ہیں جن کے لئے دنیا میں تو سزا مقرر نہیں ہے اور نہ آخرت میں عذاب دینے کی وعید ہے یعنی وہ گناہ جو انسانوں سے اتفاقیہ طور پر بغیر کسی ارادے کے سر زد ہوجائیں لیکن صغیرہ گناہوں سے بچنا بھی بہت ضروری ہے۔ صغیرہ گناہوں کو جان بوجھ کر مسلسل کرتے رہنا ان کو گناہ کبیرہ بنا دیتا ہے۔ (3) فلانز کو انفسکم … یعنی اپنے آپ کو مقدس و محترم، گناہوں سے پاک سمجھنا اور خود اپنے منہ سے اپنی تعریفیں کرنا، ڈینگیں مارنا یہ اللہ کے نزدیک سخت ناپسندیدہ باتیں ہیں کیونکہ یہ بھی تکبر اور غرور کا ایک انداز ہے جسمیں آدمی اپنے آپ کو تو ہر عیب سے پاک سمجھتا ہے اور دوسروں کو حقیر سمجھتا ہے۔ اصل میں خود پسندی انسان کو تباہ و برباد کر کے رکھ دیتی ہے کیونکہ جب وہ اپنی حماقتوں پر بھی تقدس کے پردے ڈالے رکھے گا تو نہ وہ کسی سے کھچ سیکھے گا اور نہ اس میں کسی اچھی بات کے اختیار کرنے کا جذبہ ہوگا اس طرح وہ دنیا اور آخرت کی ہر سعادت سے محروم رہے گا۔ اس لئے نبی کریم ﷺ سے جب کسی نے دوسرے کی تعریف کی تو آپ نے اس سے من فرما دیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ کسی کی تعریف کرنی ہو تو ان لافاظ سے کرو کہ ” میرے علم میں یہ شخص متقی ہے ” میں یہ نہیں کہہ سکتا کہ اللہ کے نزدیک وہ ایسا ہی پاک صاف ہے جیسا کہ میں سمجھ رہا ہوں۔ (الحدیث) (4) مبلغ علم ۔ اس سیم راد انسان کے عقل و فہم کی پہنچ ہے ینی یہ لوگ بس اتنا ہی سوچ اور سمجھ سکتے ہیں جو انہوں نے دنیا میں دیکھا ان کا علم اور سمجھ آخرت تک پہنچا ہی نہیں۔ فرمایا کہ آپ ایسے لوگوں کا معاملہ اللہ کے سپرد کردیجیے کیونکہ ایسی محدود سوچ رکھنے والوں سے اللہ خواب اچھی طرح واقف ہے وہی تو ان کا خلاق ہے۔ وہ ہر انسان کی فہم و فکر، عقل و سمجھ اور محنت کے نتائج سے اچھی طرح واقف ہے۔
Top