Tafseer-e-Madani - An-Najm : 29
فَاَعْرِضْ عَنْ مَّنْ تَوَلّٰى١ۙ۬ عَنْ ذِكْرِنَا وَ لَمْ یُرِدْ اِلَّا الْحَیٰوةَ الدُّنْیَاؕ
فَاَعْرِضْ : تو اعراض برتیئے عَنْ مَّنْ تَوَلّٰى : اس سے جو منہ موڑے عَنْ ذِكْرِنَا : ہمارے ذکر سے وَلَمْ يُرِدْ : اور نہ چاہے وہ اِلَّا الْحَيٰوةَ الدُّنْيَا : مگر دنیا کی زندگی
پس اپنے حال پر چھوڑ دو ایسے (ناہنجار شخص) کو جو پھر گیا ہماری یاد (دلشاد) سے اور اس کا مقصد دنیاوی زندگی (اور اس کی فانی لذتوں) کے سوا کچھ نہیں
[ 38] ہٹ دھرم منکرین سے اغراض و روگردانی کی تعلیم و تلقین : سو ارشاد فرمایا گیا " پس چھوڑ دو ایسے شخص کو اس کے اپنے حال پر، یعنی نہ تو آپ اس کے درپے ہوں ارور نہ اس کے حال پر افسوس کریں، کہ ایسوں کو ہدایت پر لے آنا نہ تو آپ ﷺ کے بس میں ہے اور نہ ہی آپ کی ذمہ داری، آپ ﷺ کا کام تو پیغام حق پہنچا دینا ہے، اور صاف وصریح طور پر پہنچا دینا ہے اور بس، اس کے بعد حساب لینا ہمارے ذمے ہے۔ { ان علیک الا البلاغ وعلینا الحساب } اور ایسے ناہنجاروں کو ہدایت کی نعمت مل ہی کیسے سکتی ہے، جو اس سے منہ موڑے ہوئے ہوں ؟ والعیاذ باللّٰہ العظیم۔ بہرکیف اس ارشاد سے واضح فرما دیا گیا کہ ایسے ناہنجاروں اور بدبختوں سے جو اللہ کی ہدایت کے مقابلے میں ہوائے نفس کی اور علم کے مقابلے میں ظن و گمان کی پیروی کریں ان سے منہ موڑ لو اور ان کو ان کے حال پر چھوڑ دو ۔ کیونکہ ایسے بدبختوں کے پیچھے لگنے کا کوئی فائدہ نہیں۔ والعیاذ باللّٰہ جل و علا۔ من کل زیغ و ضلال وسواء وانحراف، بکل حال من الاحوال، وفی کل موطن من المواطن فی الحیاۃ، وھو العزیز الوھاب۔ [ 39] قرآن سے اعراض و روگردانی باعث ہلاکت و تباہی۔ والعیاذ باللّٰہ : سو اس سے واضح فرما دیا گیا کہ ذکر یعنی قرآن سے اعراض و روگردانی باعث ہلاکت و محرومی اور موجب تباہی ہے۔ والعیاذ باللّٰہ العظیم۔ چناچہ ارشاد فرمایا گیا کہ منہ موڑ لو ایسے شخص سے جو پھر گیا ہماری یاد سے۔ والعیاذ باللّٰہ العظیم۔ کہ ایسا شخص جب ہدایت چاہتا ہی نہیں، اور اس نے اس سے منہ موڑ کر دنیا کی ہی کو اپنا منتہاء مقصود بنا لیا ہے، تو اسے ہدایت ملے تو کس طرح ؟ اور کیونکر ؟ کہ نور حق و ہدایت سے سرفرازی کے لئے طلب صادق اولین شرط اور بنیادی تقاضا ہے، اور طلب صادق کے بغیر جب دنیاء دوں کی متاع قلیل و حقیر بھی کسی کو نہیں مل سکتی، تو پھر حق اور ہدایت کی دولت لازوال اور متاع بےمثال کیسے میسر آسکتی ہے ؟ بہرکیف ہدایر فرمائی گئی کہ ایسے سر پھروں سے روگردانی کرکے ان کو ان کے اپنے حال پر چھوڑ دو ، جو حق بات کو سننے اور ماننے کے لئے تیار ہی نہیں ہوتے، کہ ایسوں کو منہ لگانے اور ان سے بات کرنے کا کوئی فائدہ نہیں۔ ذکر سے یہاں پر مراد قرآن حکیم ہے، اور یہ لفظ قرآن حکیم کے لئے مختلف مقامات پر استعمال فرمایا گیا مثلا سورة حجر میں ارشاد فرمایا۔ { انانحن نزلنا الذکر وانا لہ لحفظون } [ الحجر : 9 پ 14] یعنی " اس ذکر کو یقینا ہم ہی نے اتارا ہے اور اس کے محافظ ہم خود ہی ہیں "۔ اور اس کے ذکر ہونے کی کئی وجوہ ہیں مثلاً یہ کہ یہ انسان کو اس کے مقصد حیات اور اس کے انجام و آخرت کی تذکیر و یاد دہانی کراتا ہے، نیز یہ اس کو اپنے خالق ومالک کی عظمت شان اور اس کے حق اطاعت و بندگی کی یاد دہانی کراتا ہے، نیز یہ انسان کو اس فطرت کے بھولے ہوئے درس کو یاد کراتا ہے۔ وغیرہ۔ والحمدللّٰہ جل وعلا، وفی کل موطن من المواطن فی الحیاۃ، وھو الھادی الیٰ سواء السبیل۔ [ 40] اغراض عن القرآن کی اصل علت کی نشاندہی : سو ارشاد فرمایا گیا کہ ایسے کا مقصد دنیاوی زندگی کے سوا کچھ نہ ہو، اس لئے ایسے لوگ دنیا کے متاع فانی اور حطام زائل کے سوا اور کسی چیز کے بارے میں سوچتے ہی نہیں۔ اور اس کے نتیجے میں ایسے لوگ یاد الٰہی کی اس حیات آفرین اور روح پر ور نعمت سے محروم ہو کر دنیا کے لئے جیتے اور اسی کے لئے مرتے ہیں اور ان کی تمام تر کدوکاوش کا محور، اور حاصل و مقصود اسی دنیا کے گرد گھومنا ہوتا ہے، اور بس۔ اور ایسے لوگ آخرت کی حقیقی اور دائمی زندگی کو بھول چکے ہیں، اور یہی چیز ان کے اعراض عن القرآن کی علت اور اس کا سبب اور باعث ہے۔ والعیاذ باللّٰہ۔ سو آخرت کو بھلا کر دنیا ہی کو اپنا مطمع نظر اور مقصود حیات بنا لینا خرابیوں کی خرابی اور محرومیوں کی جڑ بنیاد ہے، اسی لئے نبیء اکرم ﷺ نے اپنی امت کو اس سے طرح طرح سے منع کیا اور خبردار فرمایا ہے، چناچہ مسند امام احمد (رح) وغیرہ میں ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ ؓ سے روایت ہے کہ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ دنیا اس آدمی کا گھر ہے جس کا کوئی گھر نہیں، اور یہ اس شخص کا مال ہے، جس کا کوئی مال نہیں اور اس کیلئے جمع کرنا اور جوڑ جوڑ کر رکھنا اسی کا کام ہوسکتا ہے، جس کو عقل نہیں، [ الدنیا دار من لا دارلہ، ومال من لامال لہ، ولہا یجمع من لاعقل لہ ] [ ابن کثیر، مراغی وغیرہ ] سو عقل و نقل کا تقاضا یہی ہے کہ آخرت ہی کو اپنا اصل مقصد اور حقیقی نصب العین بنایا جائے اور اصل محنت اور کوشش اسی کیلئے کی جائے۔ وباللّٰہ التوفیق لما یحب ویرید، وعلی ما یحب ویرید،
Top