Baseerat-e-Quran - Al-A'raaf : 107
فَاَلْقٰى عَصَاهُ فَاِذَا هِیَ ثُعْبَانٌ مُّبِیْنٌۚۖ
فَاَلْقٰى : پس اس نے ڈالا عَصَاهُ : اپنا عصا فَاِذَا ھِىَ : پس وہ اچانک ثُعْبَانٌ : اژدھا مُّبِيْنٌ : صریح (صاف)
پھر اس نے اپنی لاٹھی (عصا) کو پھینکا تو وہ حققیتاً اژدھا بن گیا
لغات القرآن آیت نمبر (107 تا 112 ) ۔ القی (اس نے ڈالا) ۔ عصا (لاٹھی) ۔ ثعبان ( اژدھا۔ بڑا سا سانپ) ۔ نزع (کھینچا۔ نکالا) ۔ بیضاء (سفید۔ چکمدار ) ۔ ناظرین (دیکھنے والے) ۔ سحر علیم (اچھی طرح جادو جاننے والا۔ ماہر جادو گر) ۔ ان یخرجکم (یہ کہ وہ تمہیں نکال دے) ۔ من ارضکم (تمہاری زمین سے) ۔ فما ذاتامرون (پھر تم کیا مشورہ دیتے ہو ؟ ) ۔ ارجہ (ڈھیل دے اس کو) ۔ اخاہ (اس کے بھائی کو ) ۔ المدائن (شہر۔ بستیاں ) ۔ حشرین (جمع کرنے والے ) ۔ یا توک (آجائیں گے تیرے پاس ) ۔ تشریح : آیات نمبر (107 تا 112 ) ۔ ” اسزمانہ میں ملک مصر میں جادو کا بڑا زور تھا یعنی عام فطرت سے ہٹ کر کوئی نئی حیرت انگیز چیز پیش کردینا، ان چیزوں کو پیش کر کے لوگوں کو رعب میں رکھنا اور اپنے آپ کو حصوصی طاقت و قوت کا مالک دکھانا۔ چونکہ وہاں جادو کا کاروبار بہت پھیلاہوا تھا اور اسی شعبدہ بازی پر حکومت کا رعب اور دبدبہ قائم تھا اس لئے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو ایسے معجزات عطا ہوئے جن سے وہ جادو کا توڑکرکے دکھائیں۔ چنانچہ جب فرعون نے مصر اور آس پاس کے شہروں سے تمام بڑے بڑے جادوگروں کو دربار میں طلب کرلیا تو ہر ایک نے بادشاہ وقت کے قریب ہونے اور دنیاوی انعامات حاصل کرنے کے لئے پنے تمام تر کمالات پیش کرنے شروع کردیئے۔ انہوں نے ڈنڈے رسیاں اور مختلف چیزیں سامنے ڈال کر ان کو جادو کے زور سے سانپوں کی شکل میں ڈھال دیا حالانکہ وہ سب چیزیں لوگوں کو سانپ دکھائی دے رہی تھیں حقیقت میں محض نظر بندی تھی۔ جب تمام جادوگر اپنے کمالات دکھا چکے تو اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی طرف وحی کی اور فرمایا کہ تم محض اپنا ” عصا، زمین پر پھینک دو پھر ہماری قدرت کا تماشا دیکھنا چناچہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے جیسے ہی اپنے ” عصا “ (لاٹھی) کو زمین پر پھینکا وہ سچ مچ کا زژدھا بن گیا اور اس نے جادوگروں کے نقلی سانپوں کو نگلنا شروع کردیا۔ جادوگروں نے جب یہ دیکھا تو یقین ہوگیا کہ یہ جادو نہیں ہے یا محض نظر بندی کا شعبدہ نہیں ہے بلکہ واقعی معجزہ ہے اور وہ سب جادوگر ایمان لے آئے۔ تفسیر کبیر میں حضرت عبداللہ ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے اژدھے نے فرعون کی طرف منہ پھیلا یا تو وہ ڈر کے مارے تخت شاہی سے کود کر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی پناہ میں آگیا۔ بہت سے درباری دہشت سے مر گئے اور تمام جادوگر لرز اٹھے۔ یہ معجزہ تھا۔ اگر یہ محض نظر بندی ہوتی تو اس طرف کون توجہ کرتا اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو دوسرا معجزہ ” ید بیضا “ کا عطا کیا تھا یعنی جب وہ اپنا ہاتھ اپنی بغل میں ڈال کر نکالتے تو ہو چاند کی طرح چمکنے لگتا تھا۔۔۔۔ آپ کے ہاتھ کا چمک دار بلکہ روشن ہوجانا اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ نبوت صرف طاقت اور بڑی طاقت کا مظہر ہی نہیں ہے بلکہ روشنی کا مینارہ بھی ہے اور یہ ہدایت کا نور بھی ہے۔ اس ” ید بیضا “ سے ایک اور بات ظاہر ہوتی ہے وہ یہ کہ نبی میں اور جادو گر میں یعنی معجزہ اور جادو میں کیا فرق ہے ؟ جادوگر کا مقصد محض کمالات دکھا کر شخصی فائدہ اور اقتدار حاصل کرنا ہی ہوتا ہے وہ کوئی پیغام نہیں پہنچاتا۔ وہ کچھ ثابت نہیں کرتا۔ وہ کوئی اصلاح نہیں کرتا وہ تحریک نہیں چلاتا وہ خطرات مول نہیں لیتا وہ وقتی واہ واہ حاصل کرتا ہے اور اس کے بل پر کچھ دولت کچھ طاقت اور کچھ رعب جما دیتا ہے اور بس۔ لیکن اللہ کے نبی کا مقصد نور علم اور نور بصیرت پھیلانا ہے وہ کفروشرک ظلم و ستم۔ انسانوں کے دعوائے ربوبیت اور دعوائے حاکمیت کے بتوں کو توڑتا ہے وہ اس اندھیرے کے خلاف جہاد کرتا ہے روشنیوں کے چراغ جلاتا ہے اس کا کام بندہ اور مالک کے خاص رشتہ کو قائم کرنا ہوتا ہے وہ اپنی امت کے لئے راتوں کو روتا ہے وہ ہر آن ان کی آخرت کی فکر میں لگا رہتا ہے اس کے بر خلاف جادو گر کا جادو بھی عارضی ہوتا ہے اور اس کی ذات سے باہر نہیں آتا۔ ایک اور بات یہ ہے کہ نبی انسان کی انسانوں پر مطلق العنانی اور حکمرانی کو توڑتا ہے وہ ظلم و ستم اور مصنوعی تفریق کو مٹاتا ہے اس کی دعوت محض علمی اور فکری نہیں ہوتی بلکہ اس کا پیغام انقلابی جہادی اور عملی ہوتا ہے۔ اسی لئے جب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے فرعون کو للکارا تو وہ اور اس کے سردار گھبرا اٹھے وجہ یہ ہے کہ حضرت موسیٰ کا یہ کہنا کہ ” رب العالمین “ کی طرف سے بھیجا گیا ہوں اور بنی اسرائیل کو میر ساتھ جانے دہ ” ان دو جملوں نے ان کی راتوں کی نیندیں حرام کردیں اس لئے ان کی زبانوں پر یہ آگیا کہ ” یہ شخص ہمیں ہماری زمین سے نکالنا چاہتا ہے۔ اس گھبراہٹ اور بد حواسی کا نتیجہ تھا کہ وہ سب سر جوڑ کر بیٹھ گئے اور مشورہ کرنے لگے کہ اب کیا کیا جائے اس کو توڑ کیا ہے اور قول نبوت کے پیچھے جو للکار پوشیدہ تھی اس نے انہیں لرزا دیا ورنہ محض عصا کا اژدھا بن جانا یا ہاتھ کا روشن ہونا اور کچھ جادوگروں کا ایمان لے آنا حیرت انگیز تو ہو سکتا تھا لیکن انقلاب انگیز نہیں عصا کا اژدھا بن جانا ظاہر کرتا تھا کہ وہ باطل کے تمام جادو کو کھا جائے گا اور باطل کو اسی بات کی فرک کھائے جارہی تھی۔ یہاں یہ بات بھی ظاہر ہے کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) فرعون اور فرعونیوں کے لئے نئے نہ تھے انہوں نے محل میں وہ کر شاہی علوم و فنون سیکھ لئے ہوں گے انہوں نے صداقت امانت استقلال، ایمان، شجاعت، اور قیادت وغیرہ کالوہا منوالیا ہوگا ۔ شخصیت کا لوہا پیغمبر اور مبلغ و مصلح کے ہاتھ میں سب سے بڑا ہتھیار ہوا کرتا ہے ورنہ ایک آمر مطلق کا محض ایک جملہ نبوت سے دہل جانا آسان نہیں جس کی سلطنت شام سے لیبیا تک بحرروم کے ساحلوں سے حبش تک پھیلی ہوئی تھی۔
Top