Baseerat-e-Quran - Al-Anfaal : 50
وَ لَوْ تَرٰۤى اِذْ یَتَوَفَّى الَّذِیْنَ كَفَرُوا١ۙ الْمَلٰٓئِكَةُ یَضْرِبُوْنَ وُجُوْهَهُمْ وَ اَدْبَارَهُمْ١ۚ وَ ذُوْقُوْا عَذَابَ الْحَرِیْقِ
وَلَوْ : اور اگر تَرٰٓي : تو دیکھے اِذْ : جب يَتَوَفَّى : جان نکالتے ہیں الَّذِيْنَ كَفَرُوا : جن لوگوں نے کفر کیا (کافر) الْمَلٰٓئِكَةُ : فرشتے يَضْرِبُوْنَ : مارتے ہیں وُجُوْهَهُمْ : ان کے چہرے وَاَدْبَارَهُمْ : اور ان کی پیٹھ (جمع) وَذُوْقُوْا : اور چکھو عَذَابَ : عذاب الْحَرِيْقِ : بھڑکتا ہوا (دوزخ)
اور کاش کہ (اس وقت کو) تم دیکھتے جب فرشتے ان کافروں کی جان نکالتے ہیں اور وہ فرشتے ان کے چہروں اور پیٹھ پر مارتے جاتے ہیں (اور کہتے جاتے ہیں کہ) تم جہنم کا عذاب چکھو۔
آیات : 50 تا 54 لغات القرآن۔ یتوفی۔ موت دے گا۔ یضربون۔ ماریں گے۔ وجوہ۔ (وجہ) ۔ چہرے۔ قدمت۔ آگے بھیجا۔ ظلام۔ بہت زیادہ ظلم کرنے والا۔ العبید۔ (عبد) ۔ بندے۔ کداب۔ جیسا کہ دستور تھا۔ جیسا کہ طریقہ تھا ۔ ال اولاد۔ اخذ۔ اس نے پکڑ لیا۔ ذنوب۔ (ذنب) ۔ گناہ۔ قوی۔ مضبوط۔ طاقتور۔ لم یک۔ (لم یکن) نہیں ہے۔ مغیر۔ تبدیل کرنے والا۔ انعمھا۔ اس نے انعام کیا۔ حتی یغیروا۔ جب تک وہ بدل نہ ڈالیں۔ ما بانفسھم۔ اپنے دلوں کی کیفیت۔ حالت۔ اھلکنا۔ ہم نے ہلاک کردیا۔ اغرقنا۔ ہم نے غرق کردیا۔ تشریح : اللہ تعالیٰ نے اپنی مصلحت سے وہ سارا عالم ہم بندوں کی نظروں سے چھپا لیا ہے جو نزع، قبر اور برزخ میں ہوتا ہے ورنہ اگر واقعی ہم اپنی جسمانی آنکھوں سے دیکھ سکتے تو ہم میں شاید کوئی بھی کافر نہ ہوتا۔ ہمارا امتحان تو یہ ہے کہ علم الیقین کے ذریعہ حق النقی تک پہنچ جائیں۔ اگر عین الیقین کے ذریعہ پہنچتے تو امتحان کیا ہوتا۔ یہاں پر قرآن کریم ہمیں علم الیقین بخشتا ہے کہ کافر (مشرک اور منافق) جب مرنے لگتا ہے تو موت کے فرشتے اس کی پیٹھ پر، چہرے پر کو لھے پر، پاؤں پر سر پر آگ کے گزر برساتے ہیں آگ کے کوڑے اور آگ کی زنجیریں مارتے جاتے ہیں اور یہ کہتے جاتے ہیں کہ ابھی کیا ہو آگے نارسقر کا عذاب باقی ہے اور وہ تمہارا منتظر ہے۔ یہ سب کچھ تمہارے اعمال کی کمائی ہے ورنہ اللہ تو اپنے بندوں پر ظلم نہیں کرتا۔ یہ آیات اور ان کا حکم عام ہے یعنی تمام ان لوگوں کے ساتھ جو کافر ہیں ایسا ہی ہوا کرتا ہے لیکن سیاق وسباق کا تعلق چونکہ غزوہ بدر سے ہے اس لئے یہ خصوصی طور پر ان کافروں سے متعلق ہے جو وہاں قتل کئے گئے ۔ ان آیات کا خطاب نبی کریم ﷺ سے نہیں ہے بلکہ تمام لوگوں سے ہے کیونکہ ان ہی کو نصیحت اور عبرت کی ضرورت ہے۔ آگے فرمایا کہ یہ عذاب چند کافروں ہی کے لئے مخصوص نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ کی یہ دائمی سنت رہی ہے کہ وہ غوروفکر کے لئے مظاہر فطرت میں ہزاروں لاکھوں چیزیں ایسی پیدا کردیتا ہے جو وحدت، رحمت، قدرت، حکمت، ربوبیت اور دالت کی طرف دل و دماغ کی دعوت دیتی ہیں۔ اس کے علاوہ نصیحت کے لئے اپنی کتابوں اور نبیوں رسولوں کو بھیجتا ہے۔ پھر بھی کوئی قوم یا کوئی فرد آنکھیں بند کرلے، کانوں میں روئی ٹھونس لے، سگ دنیا بن جائے، آیات سے بغاوت کرے۔ خود بھی گمراہ ہو اور دوسروں کو بھی گمراہ کرے تو پھر اللہ کا عذاب آدبوچتا ہے اور پھر اس سے نکلنے کا کوئی راستہ باقی ہیں رہتا۔ یہی کچھ فرعون اور آل فرعون کے ساتھ ہوچکا ہے اور اسی طرح ان سے پہلی قوموں کے ساتھ بھی اللہ کا طریقہ یہی رہا ہے کہ انہوں نے اللہ کی نعمتوں کو ٹھکرا دیا تو ان پر اللہ کا عذاب آکر رہا یہ وہ قومیں تھیں جن کو اللہ نے بڑی بڑی نعمتوں سے نوازا تھا مگر وہ صفر ان نعمت کی گناہ گار ہوئیں۔ اللہ کا اصولی ہے کہ وہ کسی قوم کو دی گئی نعمتیں اس وقت تک نہیں چھینتا جب تک وہ ان نعمتوں کی ناشکری اور ناقدری کی حد نہ کردیں۔ ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے مشرکین و کفار مکہ اور منافقوں کو بتا دیا ہے کہ اللہ کی یہی سنت تم پر بھی پوری ہوگی۔ آج حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ اور قرآن کریم ایک عظیم نعمت کے طور پر تمہارے سامنے ہیں۔ اگر تم نے ان کی ناقدری کی تو پھر تم دنیا کی اور قوموں کی طرح برے انجام سینہ بچ سکو گے۔
Top