Bayan-ul-Quran - Al-A'raaf : 113
وَ جَآءَ السَّحَرَةُ فِرْعَوْنَ قَالُوْۤا اِنَّ لَنَا لَاَجْرًا اِنْ كُنَّا نَحْنُ الْغٰلِبِیْنَ
وَجَآءَ : اور آئے السَّحَرَةُ : جادوگر (جمع) فِرْعَوْنَ : فرعون قَالُوْٓا : وہ بولے اِنَّ : یقیناً لَنَا : ہمارے لیے لَاَجْرًا : کوئی اجر (انعام) اِنْ : اگر كُنَّا : ہوئے نَحْنُ : ہم الْغٰلِبِيْنَ : غالب (جمع)
) اور وہ جادو گر فرعون کے پاس آپہنچے انہوں نے کہا یقیناً ہمیں اجرتو ملے گا ہی اگر ہم غالب آگئے !
آیت 113 وَجَآء السَّحَرَۃُ فِرْعَوْنَ قَالُوْٓا اِنَّ لَنَا لَاَجْرًا اِنْ کُنَّا نَحْنُ الْغٰلِبِیْنَ I یہاں پر غیر ضروری تفاصیل کو چھوڑ کر رسالت کے مقام و منصب اور دنیا داروں کے مادہ پرستانہ کردار کے فرق کو نمایاں کیا جا رہا ہے۔ اللہ کے رسول موسیٰ علیہ السلام نے ان کے مطالبے کے مطابق انہیں نشانیاں دکھائیں مگر آپ علیہ السلام کو اس سے کوئی مفاد مطلوب نہیں تھا۔ آپ علیہ السلام نے فرعون اور اہل دربار کو مرعوب کر کے کسی انعام و اکرام کا مطالبہ نہیں کیا۔ جب کہ دوسری طرف جادوگروں کا کردار خالص مادہ پرستانہ سوچ کی عکاسی کرتا ہے۔ انہوں نے آتے ہی جو مطالبہ کیا وہ مالی منفعت سے متعلق تھا۔
Top