Tafseer-e-Madani - Al-A'raaf : 113
وَ جَآءَ السَّحَرَةُ فِرْعَوْنَ قَالُوْۤا اِنَّ لَنَا لَاَجْرًا اِنْ كُنَّا نَحْنُ الْغٰلِبِیْنَ
وَجَآءَ : اور آئے السَّحَرَةُ : جادوگر (جمع) فِرْعَوْنَ : فرعون قَالُوْٓا : وہ بولے اِنَّ : یقیناً لَنَا : ہمارے لیے لَاَجْرًا : کوئی اجر (انعام) اِنْ : اگر كُنَّا : ہوئے نَحْنُ : ہم الْغٰلِبِيْنَ : غالب (جمع)
(چنانچہ ایسا ہی کیا گیا) اور آپہنچے وہ جادوگر فرعون کے پاس، اور وہ (چھوٹتے ہی) بولے کہ کیا ہمیں کوئی اجر بھی ملے گا اگر ہم غالب آگئے ؟3
147 ابنائے دنیا کے نزدیک دنیا کا متاع فانی ہی سب کچھ : سو ان جادو گروں کی خست و دناءت ملاحظہ ہو کہ ایک طرف تو ان کے اپنے دین و مذہب اور ملک و ملت کے تحفظ و بقا کا مسئلہ ہے اور دوسری طرف اس نازک موقع پر بھی وہ سب سے پہلے اپنے ذاتی اور دنیوی مفاد کا مطالبہ کرتے ہیں۔ سو یہی حال ہوتا ہے ابنائے دنیا کا کہ ان کے نزدیک دنیا اور اس کا متاع فانی اور حطام زائل ہی سب کچھ ہوتا ہے۔ وہ اسی کیلئے جیتے اور اسی کیلئے مرتے ہیں ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ جبکہ مومن صادق کے نزدیک اصل چیز متاع ایمان و یقین اور فوز و فلاح آخرت ہے۔ دنیا تو ساری بھی اس کے سامنے ایک پرکاہ کی حیثیت بھی نہیں رکھتی۔ سو اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ ایمان و یقین کی یہ دولت انسان کو کیسی عظمتوں اور رفعتوں سے نوازتی ہے کہ جس متاع دنیا کی ایمان و یقین کی دولت سے محروم لوگ پوجا کرتے ہیں وہ اس مومن صادق کے نزدیک پرکاہ کی حیثیت بھی نہیں رکھتی ۔ اللہم فزدنا منہ وثبتنا علیہ یا ذا الجلال والاکرام ۔ بہرکیف ارشاد فرمایا گیا کہ حب وہ جادوگر فرعون کی دعوت پر اس کے دربار میں پہنچ گئے تو وہ چھوٹتی ہی بولے کہ کیا ہمیں کوئی اجر بھی ملے گا اگر ہم غالب آگئے ؟ تو فرعون نے کہا کہ ہاں اور مزید یہ کہ تم لوگ ہمارے مقربین میں شامل ہوجاؤ گے۔
Top