Al-Qurtubi - Al-A'raaf : 113
وَ جَآءَ السَّحَرَةُ فِرْعَوْنَ قَالُوْۤا اِنَّ لَنَا لَاَجْرًا اِنْ كُنَّا نَحْنُ الْغٰلِبِیْنَ
وَجَآءَ : اور آئے السَّحَرَةُ : جادوگر (جمع) فِرْعَوْنَ : فرعون قَالُوْٓا : وہ بولے اِنَّ : یقیناً لَنَا : ہمارے لیے لَاَجْرًا : کوئی اجر (انعام) اِنْ : اگر كُنَّا : ہوئے نَحْنُ : ہم الْغٰلِبِيْنَ : غالب (جمع)
چناچہ ایسا ہی کیا گیا اور جادوگر فرعون کے پاس آپہنچے اور کہنے لگے کہ اگر ہم جیت گئے تو ہمیں صلہ عطا کیا جائے
آیت نمبر : 113۔ 114 قولہ تعالیٰ : وجاء السحرۃ فرعون اس میں بھیجنے کا ذکر حذف کردیا گیا ہے، کیونکہ سامع کو اس کا علم ہے۔ ابن عبدالحکم نے کہا ہے : وہ بارہ نقیب تھے، ہر نقیب کے ساتھ بیس عریف تھے اور ہر عریف کے ماتحت ایک ہزار جادوگر تھے۔ اور مقاتل بن سلیمان کے قول کے مطابق ان کا سردار شمعون تھا۔ ابن جریج نے بیان کیا ہے : وہ نو سو افراد تھے (المحرر الوجیز، جلد 2، صفحہ 438) جو عریش، فیوم اور اسکندریہ سے تین تین سو تعلق رکھتے تھے۔ ابن اسحاق کا بیان ہے : وہ پندرہ ہزار جادو گر تھے (المحرر الوجیز، جلد 2، صفحہ 438) ، اور ہب سے مروی ہے اور یہ بھی کہا گیا ہے : وہ بارہ ہزار تھے (المحرر الوجیز، جلد 2، صفحہ 438) ۔ ابن المنکدر نے اسی ہزار کہا ہے (المحرر الوجیز، جلد 2، صفحہ 438) ۔ اور یہ قول بھی ہے کہ وہ چودہ ہزار تھے۔ اور یہ بھی بیان کیا گیا ہے : تین سو ہزار جادوگر ریف سے تعلق رکھتے تھے، تین سو ہزار جادو گر صعید سے تھے ،۔ اور تین سو ہزار جادوگر فیوم اور اس کے گرد ونواح سے تھے۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے : وہ ستر آدمی تھے اور تہتر کا قول بھی بیان کیا گیا ہے۔ واللہ اعلم بالـصواب اور روایت میں ہے کہ ان کے ساتھ رسیاں اور عصا تھے جو تین سو اونٹوں پر لدے ہوئے تھے پس وہ اژدہا ان تمام کو نگل گیا۔ حضرت ابن عباس ؓ اور سدی (رح) نے بیان کیا ہے : جب اس نے منہ کھولا تو اس کا جبڑا اسی ذراع ہوگیا وہ اپنے نیچے والے جبڑے کو زمین پر رکھے ہوئے تھا اور اوپر والے جبڑے کو محل کی فصیل پر۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس کے منہ کی وسعت چالیس ذراع تھی۔ واللہ اعلم پس اس نے فرعون کو نگلنے کا قصد کیا، تو وہ اپنے تخت سے اچھلا اور بھاگ نکلا اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے مدد چاہنے لگا، پس جب آپ نے اسے پکڑا تو وہ پہلے کی طرح عصا تھا۔ حضرت وہب (رح) نے کہا ہے : اس عصا کے خوف سے پندرہ ہزار افراد فوت ہوئے۔ آیت : قالوا ان لنا لاجرا یعنی انہوں نے کہا : ہمارے لیے کوئی انعام اور مال ہوگا۔ اس میں فقالوا فا کے ساتھ نہیں کہا، کیونکہ مراد یہ ہے کہ جب وہ آئے تو انہوں نے کہا : لما جاء واقالوا اور خبر کی بنا پر اسے ان لنا بھی پڑھا گیا ہے۔ اور یہ حضرت نافع اور ابن کثیر کی قراءت ہے ( یعنی) انہوں نے فرعون پر لازم قرار دیا کہ وہ ان کے لیے مال مقرر کرے اگر وہ غالب آجائیں، تو فرعون نے انہیں کہا : آیت : قال نعم وانکم لمن المقربین یعنی بیشک ( اس کے علاوہ) تم ہمارے نزدیک بلند رتبہ لوگوں میں سے ہوجاؤ گے۔ پس اس نے ان کے لیے اس سے زیادہ کا اقرار کیا جس کا انہوں نے مطالبہ کیا تھا۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ بیشک انہوں نے اس سے اپنے لیے اپنے فیصلے کے بارے یقین حاصل کیا اگر وہ غالب آگئے، یعنی انہوں نے کہا : ہمارے لیے اجرواجب اور ضروری ہوگا اگر ہم غالب آگئے۔ باقیوں نے اسخبار کی جہت پر استفہام کے ساتھ پڑھا ہے۔ انہوں نے فرعون سے اطلاع حاصل کی کیا وہ انہیں کوئی اجر دے گا اگر وہ غالب آگئے یا نہیں تو پس انہیں اس بارے فرعون پر یقین نہ تھا، تو انہوں نے اس سے پوچھ لیا کیا وہ ایسا کرے گا ؟ تو اس نے انہیں کہا ” جی ہاں “ تمہارے لیے اجر بھی ہوگا اور قرب بھی بشرطیکہ تم غالب آ جاؤ۔
Top