Ruh-ul-Quran - Al-A'raaf : 113
وَ جَآءَ السَّحَرَةُ فِرْعَوْنَ قَالُوْۤا اِنَّ لَنَا لَاَجْرًا اِنْ كُنَّا نَحْنُ الْغٰلِبِیْنَ
وَجَآءَ : اور آئے السَّحَرَةُ : جادوگر (جمع) فِرْعَوْنَ : فرعون قَالُوْٓا : وہ بولے اِنَّ : یقیناً لَنَا : ہمارے لیے لَاَجْرًا : کوئی اجر (انعام) اِنْ : اگر كُنَّا : ہوئے نَحْنُ : ہم الْغٰلِبِيْنَ : غالب (جمع)
جادوگر فرعون کے پاس حاضر ہوئے کہنے لگے بڑا صلہ ملے گا ہمیں اگر ہم ہی غالب رہے۔
وَجَآئَ السَّحَرَۃُ فِرْعَوْنَ قَا لُوْآاِنَّ لَنَا لَاَجْرًا اِنْ کُنَّا نَحْنُ الْغٰلِبِیْنَ ۔ قَالَ نَعَمْ وَاِنَّکُمْ لَمِنَ الْمُقَرَّبِیْنَ ۔ (الاعراف : 114، 113) ” جادوگر فرعون کے پاس حاضر ہوئے کہنے لگے بڑا صلہ ملے گا ہمیں اگر ہم ہی غالب رہے۔ فرعون نے کہا ہاں بیشک اور تم ہمارے مقربین میں بھی داخل ہو گے “۔ جادوگروں کی ذہنی سطح جادوگروں نے جس آرزو اور خواہش کا اظہار کیا ذرا اس پر غور فرمایئے کہ فرعون اور آل فرعون کے سامنے ملکی بقا کا سوال ہے وہ یہ سمجھتے ہیں کہ موسیٰ اور ہارون ہم سے ملک اور حکومت چھین لینا چاہتے ہیں اتنے بڑے سنجیدہ خطرے کو محسوس کرتے ہوئے انھوں نے ملک کے نامور جادوگروں کو دارالحکومت میں آنے کی تکلیف دی ہے اور پھر یہ اعزاز ان کے لیے کیا کم ہے کہ خود بادشاہ سلامت انھیں دعوت دے رہے ہیں اور اپنے سامنے انھیں اپنے کمال فن کے اظہار کا موقع دے رہے ہیں لیکن ان کی دناءت اور خست کا عالم یہ ہے کہ وہ بالکل ہمارے میراثیوں اور بھانڈوں کی طرح آتے ہی اپنے مفاد اور اپنی طلب کا اظہار کر کے بھیک مانگنے لگتے ہیں کہ ہم تو اس لیے حاضر ہوئے ہیں کہ اگر آج کے معرکے میں غالب رہے تو بادشاہ سلامت ہمارے گھر دولت سے بھر دیں گے اور ہمیں اتنا نوازیں گے کہ ہماری نسلیں سدھر جائیں گی۔ بادشاہ نے ان کی ذہنی سطح کے مطابق جواب دیا کہ تم معاوضے کی کیا بات کرتے ہو اگر تم نے یہ معرکہ جیت لیا تو ہم جو عطا و بخشش کی بارش کریں گے وہ تو اپنی جگہ رہی ہم تو تمہیں اپنے مقربین میں شامل کرلیں گے۔ ہمارے دربار میں تمہارے لیے کرسی رکھی جائے گی۔ تمہارا شمار ملک کے معزز ترین لوگوں میں ہونے لگے گا۔ قرآن کریم نے جادوگروں کی ذہنی سطح کا نقشہ کھینچ کر ہمارے سامنے کردار کے اعتبار سے انسان کی حقیقت کو کھول کر نمایاں کردیا ہے کہ ذرا غور سے اس منظر کو دیکھو کہ جادوگر اتنے بڑے معرکے میں کامیابی کے بدلے میں کیا مانگ رہے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ وہ انسان جن کا ہدف صرف حیات دنیا ہوتی ہے ان کے اہداف اس سے مختلف نہیں ہوتے۔ ان کی آخری معراج عہدہ و منصب کی ہوس اور درہم و دینار کے انبار سے آگے نہیں بڑھتی۔ وہ چاہے کسی بھی فن کے عروج پر ہوں ہدف ان کا ہمیشہ یکساں رہتا ہے چناچہ یہاں ہمیں اسی کا ایک آئینہ دکھایا گیا ہے اور آگے چل کر انہی جادوگروں کی ایک اور صورت آرائی کی گئی ہے جو اس سے بالکل مختلف ہے جس سے ہمیں بہت سی باتیں سمجھنے کا موقع ملتا ہے۔ چناچہ تھوڑا سا آگے بڑھ کر ہم وہ منظر بھی دیکھیں گے۔ یہاں تو صرف یہ بتایا جا رہا ہے کہ جادوگر جب فرعون کے جواب سے پوری طرح آسودہ ہوگئے تو اب وہ مقابلے کی طرف متوجہ ہوئے اور پیشہ وارانہ اخلاق کا اظہار کرتے ہوئے موسیٰ (علیہ السلام) سے کہا :
Top