Dure-Mansoor - Al-Israa : 18
مَنْ كَانَ یُرِیْدُ الْعَاجِلَةَ عَجَّلْنَا لَهٗ فِیْهَا مَا نَشَآءُ لِمَنْ نُّرِیْدُ ثُمَّ جَعَلْنَا لَهٗ جَهَنَّمَ١ۚ یَصْلٰىهَا مَذْمُوْمًا مَّدْحُوْرًا
مَنْ : جو کوئی كَانَ يُرِيْدُ : چاہتا ہے الْعَاجِلَةَ : جلدی عَجَّلْنَا : ہم جلد دیدیں گے لَهٗ فِيْهَا : اس کو اس (دنیا) میں مَا نَشَآءُ : جتنا ہم چاہیں لِمَنْ : جس کو نُّرِيْدُ : ہم چاہیں ثُمَّ : پھر جَعَلْنَا : ہم نے بنادیا لَهٗ : اس کے لیے جَهَنَّمَ : جہنم يَصْلٰىهَا : وہ داخل ہوگا اس میں مَذْمُوْمًا : مذمت کیا ہوا مَّدْحُوْرًا : دور کیا ہوا (دھکیلا ہوا)
جو شخص دنیاوی منافع کا ارادہ کرتا ہے ہم جس کے لئے چاہیں جتنا چاہیں اسی دنیا میں اسے دے دیتے ہیں پھر ہم اس کے لئے دوزخ تجویز کردیں گے وہ اس میں بدحال ہوکرراندہ درگاہ ہونے کی حالت میں داخل ہوگا
1:۔ ابن ابی حاتم نے ضحاک (رح) سے روایت کیا کہ (آیت) ” من کان یرید العاجلۃ “ یعنی جو شخص اپنے عمل سے دنیا کا ارادہ کرتا ہے۔ (آیت) ” عجلنا لہ فیھا مانشآء لمن نرید “ تو ہم جس کے لئے چاہتے ہیں۔ اسے دنیا جلدی عطا فرمادیتے ہیں۔ 2:۔ ابن جریر اور ابن ابی حاتم نے قتادہ (رح) سے روایت کیا کہ (آیت) ” عجلنا لہ فیھا مانشآء لمن نرید “ سے مراد ہے کہ جس شخص کا ارادہ اس کی رغبت اور اس کی طلب اور اس کی نیت صرف دنیا ہو تو اللہ تعالیٰ اس کے لئے جتنا چاہتے ہیں اس کو (اعمال کا بدلہ) دنیا ہی میں عطا فرما دیتے ہیں پھر اس کو جہنم کی طرف جانے پر مجبور کرے گا (آیت) ” یصلھا مذموما “ یعنی وہ اللہ کی سزا میں داخل ہوگا “ (آیت) ” مدحورا “ یعنی اللہ کے عذاب میں (اور فرمایا) (آیت) ” ومن اراد الاخرۃ وسعی لھا سعیھا وھو مومن فاولئک کان سعیہم مشکورا “ یعنی اللہ تعالیٰ اس کے تھوڑے عمل کو قبول فرماتے ہیں اور اس کے بہت سے گناہوں سے درگذر فرماتے ہیں (اور فرمایا) (آیت) ” کلا نمد ھولآء وھولآء من عطآء ربک “ یعنی اللہ تعالیٰ نے دنیا کو تقسیم فرما دیا ہے نیک اور بدکار لوگوں کے درمیان اور تیرے رب کے نزدیک آخرت خاص ہوگی متقی لوگوں کے لئے۔ دنیا میں ہر ایک کو روزی ملتی ہے : 3:۔ ابن جریر ابن ابی حاتم اور ابونعیم نے حلیۃ الاولیاء میں حسن (رح) سے روایت کیا کہ کہ (آیت) ” کلا نمد “ پوری آیت کے بارے میں فرمایا کہ ہر ایک کو ہم دنیا میں رزق دیتے ہیں نیک اور بدکاردونوں کو۔ 4:۔ ابن ابی حاتم نے سدی (رح) سے روایت کیا کہ (آیت) ” کلا نمد ھولآء وھولآء “ یعنی ہم کافروں اور مسلمانوں کو رزق دیتے ہیں (کرتے ہیں (آیت) ” من عطآء ربک “ یعنی تمہارے رب کے رزق میں سے۔ 5:۔ ابن جریر اور ابن منذر نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ ہم رزق دیتے ہیں جو دنیا کا ارادہ کرتا ہے اور جو آخرت کا ارادہ کرتا ہے۔ 6:۔ ابن جریر اور ابن ابی حاتم نے ابن زید (رح) سے روایت کیا کہ (آیت) ” کلا نمد ھولآء وھولآء “ میں پہلے وھولآء سے مراد دنیا والے لوگ ہیں (جو دنیا میں اپنا بدلہ چاہتے ہیں) اور دوسرے وھولآء سے مراد آخرت والے لوگ ہیں (جو آخرت میں اپنا بدلہ چاہتے ہیں) 7:۔ ابن جریر اور ابن ابی حاتم نے ابن زیدرحمۃ اللہ علیہ سے روایت کیا کہ (آیت) ” کلا نمد ھولآء وھولآء “ سے مراد ہے یہ ان اہل دنیا اور ان اہل آخرت کو ہم رزق دیتے ہیں (آیت) ” وماکان عطآء ربک محظورا “ یعنی رب کی عطا (کسی کافر یا مسلمان) سے روکی ہوئی نہیں ہے۔ 8:۔ ابن ابی حاتم نے ضحاک (رح) سے روایت کیا کہ (آیت) ” محظورا “ سے مراد ہے روکا ہوا۔ 9:۔ ابن جریر اور ابن ابی حاتم نے قتادہ (رح) سے روایت کیا کہ (آیت) ” انظر کیف فضلنا بعضہم علی بعض “ یعنی دنیا میں ہم نے بعض کو بعض پر فضیلت عطا فرمائی (آیت) ” وللاخرۃ اکبر درجت واکبر تفضیلا “ یعنی ایمان والوں کے لئے جنت میں منزلیں ہے۔ 10:۔ ابن منذر اور ابن ابی حاتم نے ضحاک (رح) سے روایت کیا کہ (آیت) ” وللاخرۃ اکبر درجت واکبر تفضیلا “ سے مراد ہے کہ جنت والے بعض کے درجات دوسروں سے بلند ہوں گے بلند درجہ جنتی اپنے سے نیچے والے پر اپنی فضیلت دیکھے گا اور نیچے والا اپنے اوپر کسی کو نہیں دیکھے گا۔ 11:۔ طبرانی ابن مردویہ اور ابونعیم نے حلیۃ الاولیاء میں سلمان ؓ سے روایت کیا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا جو بندہ ارادہ کرتا ہے کہ اس کا درجہ دنیا میں بلند کردیا جائے وہ بلند ہوجاتا ہے لیکن اللہ تعالیٰ آخرت میں اس سے بڑا اور درجہ اس کا کم کردیتا ہے پھر آپ ﷺ نے یہ آیت تلاوت فرمائی (آیت) ” وللاخرۃ اکبر درجت واکبر تفضیلا “ 12:۔ سعید بن منصور، ابن ابی شیبہ، احمد نے زہد میں، ھناد، ابن ابی الدنیا نے صفۃ الجنۃ میں اور بیہقی نے شعب الایمان میں ابن عمر ؓ سے روایت کیا ہے کہ دنیا میں کوئی بندہ کچھ حاصل کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ کے نزدیک اس کے درجات میں کمی کردی جاتی ہے اگرچہ وہ اللہ کے نزدیک معزز ہوتا ہے۔
Top