Maarif-ul-Quran - Al-Israa : 18
مَنْ كَانَ یُرِیْدُ الْعَاجِلَةَ عَجَّلْنَا لَهٗ فِیْهَا مَا نَشَآءُ لِمَنْ نُّرِیْدُ ثُمَّ جَعَلْنَا لَهٗ جَهَنَّمَ١ۚ یَصْلٰىهَا مَذْمُوْمًا مَّدْحُوْرًا
مَنْ : جو کوئی كَانَ يُرِيْدُ : چاہتا ہے الْعَاجِلَةَ : جلدی عَجَّلْنَا : ہم جلد دیدیں گے لَهٗ فِيْهَا : اس کو اس (دنیا) میں مَا نَشَآءُ : جتنا ہم چاہیں لِمَنْ : جس کو نُّرِيْدُ : ہم چاہیں ثُمَّ : پھر جَعَلْنَا : ہم نے بنادیا لَهٗ : اس کے لیے جَهَنَّمَ : جہنم يَصْلٰىهَا : وہ داخل ہوگا اس میں مَذْمُوْمًا : مذمت کیا ہوا مَّدْحُوْرًا : دور کیا ہوا (دھکیلا ہوا)
جو کوئی چاہتا ہے پہلا گھر جلد دے دیں ہم اس کو اسی میں جتنا چاہیں جس کو چاہیں پھر ٹھہرایا ہے ہم نے اس کے واسطے دوزخ داخل ہوگا اس میں اپنی برائی سن کر دھکیلا جا کر
خلاصہ تفسیر
جو شخص (اپنے نیک اعمال سے صرف) دنیا (کے نفع) کی نیت رکھے گا (خواہ اس لئے کہ وہ آخرت کا منکر ہے یا اس لئے کہ آخرت سے غافل ہے) ہم ایسے شخص کو دنیا ہی میں جتنا چاہیں گے (پھر یہ بھی سب کے لیے نہیں) بلکہ جس کے واسطے چاہیں گے فی الحال ہی دیدیں گے (یعنی دنیا ہی میں کچھ جزاء مل جاوے گی) پھر (آخرت میں خاک نہ ملے گا بلکہ وہاں) ہم اس کے لئے جہنم تجویز کردیں گے وہ اس میں بدحال راندہ (درگاہ) ہو کر داخل ہوگا اور جو شخص (اپنے اعمال میں) آخرت (کے ثواب) کی نیت رکھے گا اور اس کے لئے جیسی کوشش کرنی چاہئے ویسی ہی کوشش بھی کرے گا (مطلب یہ ہے کہ ہر کوشش بھی مفید نہیں بلکہ کوشش صرف وہی مفید ہے جو شریعت اور سنت کے موافق ہو کیونکہ حکم ایسی ہی کوشش کا دیا گیا ہے جو عمل اور سعی شریعت و سنت کے خلاف ہو وہ مقبول نہیں) بشرطیکہ وہ شخص مومن بھی ہو سو ایسے لوگوں کی یہ سعی مقبول ہوگی (غرض اللہ کے یہاں کامیابی کی شرطیں چار ہوئیں اول تصحیح نیت یعنی خالص ثواب آخرت کی نیت ہونا جس میں اغراض نفسانی شامل نہ ہوں دوسرے اس نیت کے لئے عمل اور کوشش کرنا صرف نیت و ارادہ سے کوئی کام نہیں ہوتا جب تک اس کے لئے عمل نہ کرے تیسرے تصحیح عمل یعنی سعی وعمل کا شریعت اور سنت کے مطابق ہونا کیونکہ مقصد کے خلاف سمت میں دوڑنا اور کوشش کرنا بجائے مفید ہونے کے مقصد سے اور دور کردیتا ہے چوتھی شرط جو سب سے اہم اور سب کا مدار ہے وہ تصحیح عقیدہ یعنی ایمان ہے ان شرائط کے بغیر کوئی عمل اللہ کے نزدیک مقبول نہیں اور کفار کو دنیا کی نعمتیں حاصل ہونا ان کے اعمال کی مقبولیت کی علامت نہیں کیونکہ دنیا کی نعمتیں بارگارہ کے لئے مخصوص نہیں بلکہ) آپ کے رب کی عطاء (دنیوی) میں سے تو ہم ان (مقبولین) کی بھی امداد کرتے ہیں اور ان (غیرمقبولین) کی بھی (امداد کرتے ہیں) اور آپ کے رب کی عطاء (دنیوی کسی پر) بند نہیں آپ دیکھ لیجئے کہ ہم نے (اس دنیوی عطاء میں بلا شرط ایمان و کفر کے) ایک کو دوسرے پر کس طرح فوقیت دی ہے (یہاں تک کہ اکثر کفار اکثر مومنین سے زیادہ نعمت و دولت رکھتے ہیں کیونکہ یہ چیزیں قابل وقعت نہیں) اور البتہ آخرت (جو مقبولین بارگاہ کے ساتھ خاص ہے وہ) درجات کے اعتبار سے بہت بڑی ہے اور فضیلت کے اعتبار سے بھی (اس لئے اہتمام اسی کا کرنا چاہئے)

معارف و مسائل
آیات مذکورہ میں اپنے عمل سے صرف دنیا کا ارادہ کرنے والوں کا اور ان کی سزاء کا جو بیان فرمایا ہے اس کے لئے تو الفاظ مَنْ كَانَ يُرِيْدُ الْعَاجِلَةَ استعمال فرمائے جو استمرار و دوام پر دلالت کرتے ہیں جس کا مطلب یہ ہے کہ یہ سزاء جہنم صرف اس صورت میں ہے کہ اس کے ہر عمل میں ہر وقت صرف دنیا ہی کی غرض چھائی ہوئی ہو آخرت کی طرف کوئی دھیان ہی نہ ہو اور ارادہ آخرت کرنے اور اس کی جزاء کے بیان میں لفظ اَرَادَ الْاٰخِرَةَ کا استعمال فرمایا جس کا مفہوم یہ ہے کہ مومن جس وقت بھی جس عمل میں آخرت کا ارادہ اور نیت کرے گا اس کا وہ عمل مقبول ہوجائے گا خواہ کسی دوسرے عمل کی نیت میں کوئی فساد بھی شامل ہوگیا ہو۔
پہلا حال صرف کافر منکر آخرت کا ہوسکتا ہے اس لئے اس کا کوئی بھی عمل مقبول نہیں اور دوسرا حال مومن کا ہے اس کا وہ عمل جو اخلاص نیت کے ساتھ آخرت کے لئے ہو اور باقی شرائط بھی موجود ہوں وہ مقبول ہوجائے گا اور اس کے بھی جس عمل میں اخلاص نہ ہو یا دوسری شرطیں مفقود ہوں وہ مقبول نہیں ہوگا۔
Top