Urwatul-Wusqaa - Al-Israa : 18
مَنْ كَانَ یُرِیْدُ الْعَاجِلَةَ عَجَّلْنَا لَهٗ فِیْهَا مَا نَشَآءُ لِمَنْ نُّرِیْدُ ثُمَّ جَعَلْنَا لَهٗ جَهَنَّمَ١ۚ یَصْلٰىهَا مَذْمُوْمًا مَّدْحُوْرًا
مَنْ : جو کوئی كَانَ يُرِيْدُ : چاہتا ہے الْعَاجِلَةَ : جلدی عَجَّلْنَا : ہم جلد دیدیں گے لَهٗ فِيْهَا : اس کو اس (دنیا) میں مَا نَشَآءُ : جتنا ہم چاہیں لِمَنْ : جس کو نُّرِيْدُ : ہم چاہیں ثُمَّ : پھر جَعَلْنَا : ہم نے بنادیا لَهٗ : اس کے لیے جَهَنَّمَ : جہنم يَصْلٰىهَا : وہ داخل ہوگا اس میں مَذْمُوْمًا : مذمت کیا ہوا مَّدْحُوْرًا : دور کیا ہوا (دھکیلا ہوا)
جو کوئی فوری فائدہ (اس دنیا کے اندر) چاہتا ہے تو جس کسی کو ہم دینا چاہیں اس دنیا میں دے دیتے ہیں پھر آخر اس کیلئے جہنم بنا دی ہے اس میں داخل ہوگا بدحال ، ٹھکرایا ہوا
جو شخص دنیا کی زندگی کے لئے کوشش کرے اس کو دنیا ہی دی جائے گی : 24۔ قانون الہی کی مزید وضاحت فرما دی کہ یاد رکھو نتائج عمل کے لحاظ سے انسان کے دو گروہ ہوگئے ہیں ایک وہ ہے جس کی ساری طلب دنیا کی چند روزہ زندگی ہی کے لئے ہے دوسرا وہ ہے جو یقین رکھتا ہے کہ اس زندگی کے بعد بھی ایک زندگی ہے اس لئے اس دوسری زندگی کی سعادت کا بھی طالب ہے جہاں تک دنیا کی زندگی کا تعلق ہے ہمارا قانون یہ ہے کہ دونوں کے آگے یکساں طریقہ پر دنیوی نتائج کا دروازہ کھول دیا ہے اور سب کو کارخانہ ربوبیت کا فیضان مل رہا ہے انہیں بھی جو صرف دنیا کے ہو رہے ہیں انہیں بھی جو آخرت کے بھی طالب ہوئے جہاں تک آخرت کی سعادتوں کا تعلق ہے پہلے کے لئے محرومیاں ہوں گی دوسرے کے لئے کامرانیاں ۔ زیر نظر آیت میں بہت بڑی عبرت کا مضمون بیان کیا گیا آج دنیا میں کثرت سے ایسے لوگ پائے جاتے ہیں کہ وہ اپنے آپ کو مختلف منصوبوں میں کامیاب پاکر اپنے آپ کو برسرحق اور مقبول سمجھنے لگے ہیں اور بجائے اس کے کہ ضمیر کی خلش محسوس کریں اپنے ہر کامیابی کے ساتھ اور زیادہ غافل ومطمئن اور بےفکر ہوجاتے ہیں کوئی رشوت لے کر اپنی حرص پوری کر رہا ہے کوئی سود لے کر اپنا خزانہ جمع کر رہا ہے اور چونکہ دولت کھٹاکھٹ چلی آرہی ہے اس لئے اپنے حال پر اور زیادہ نازاں ہوتا جاتا ہے اور اپنے عمل پر احتساب ونظر ثانی کی ضرورت ہی سرے سے نہیں سمجھتا ۔ آیت زیر نظر میں بتایا گیا ہے کہ فوری کامیابی مطلق صورت میں ہرگز خوش ہونے والی چیز نہیں ، دیکھنا تو یہ چاہئے کہ غایب عمل کیا ہے اور مقصود سعی کیا ہے ؟ اگر محض دنیا ہے تو انجام تمام تر خواب ہی ہونا ہے ، جب نظریہ وطلب پست ہے تو نتیجہ ومال بلند کیسے ہو سکتا ہے ؟ دنیا کی زیب وزینت اور مال و دولت دوزخ کی لپیٹ سے کیونکر محفوظ کرسکتے ہیں پھر وہ اعمال جن کے صلہ میں دوزخ حصے میں آئے کیونکر سرا ہے جاسکتے ہیں ؟ صرف دنیا کی طلب جس کے ساتھ آخر کی طلب نہ ہو باطل کی طلب ہے ۔
Top