Dure-Mansoor - Al-Anbiyaa : 17
لَوْ اَرَدْنَاۤ اَنْ نَّتَّخِذَ لَهْوًا لَّاتَّخَذْنٰهُ مِنْ لَّدُنَّاۤ١ۖۗ اِنْ كُنَّا فٰعِلِیْنَ
لَوْ اَرَدْنَآ : اگر ہم چاہتے اَنْ : کہ نَّتَّخِذَ : ہم بنائیں لَهْوًا : کوئی کھلونا لَّاتَّخَذْنٰهُ : تو ہم اس کو بنا لیتے مِنْ لَّدُنَّآ : اپنے پاس سے اِنْ كُنَّا : اگر ہم ہوتے فٰعِلِيْنَ : کرنے والے
اگر ہم چاہتے کہ کوئی کھلونا بناتے تو ہم اپنے پاس سے بنا لیتے اگر ہم کرنے والے ہوتے۔
1:۔ عبد بن حمید، ابن منذر اور ابن ابی حاتم نے عکرمہ ؓ سے روایت کیا کہ (آیت) ” لواردنا ان نتخذ لھوا “ میں لہو سے مراد ہے بیٹا۔ 2:۔ ابن ابی حاتم نے سدی (رح) سے (آیت) ” لواردنا ان نتخذ لھوا “ کے بارے میں فرمایا کہ اگر میں ارادہ کرتا کہ اپنے لئے بیٹا بناوں تو میں فرشتوں کو اپنا بیٹا بناتا۔ 3:۔ عبد بن حمید اور ابن منذر نے حسن ؓ سے (آیت) ” لواردنا ان نتخذ لھوا “ کے بارے میں فرمایا کہ لھوا سے مراد ہے عورتیں۔ 4:۔ ابن ابی حاتم نے حسن ؓ سے روایت کیا کہ یمن کی زبان میں لھو سے مراد عورت ہے۔ 5:۔ ابن منذر اور ابن ابی حاتم نے قتادہ ؓ سے (آیت) ” لواردنا ان نتخذ لھوا “ کے بارے میں فرمایا کہ یمن والوں کی لغت میں لھو عورت کو کہتے ہیں ” ان کنا فعلین “ یعنی یہ ہمارے لئے مناسب نہیں۔ 6:۔ ابن ابی حاتم نے ابراہیم نخعی (رح) سے روایت کیا کہ (آیت) ” لواردنا ان نتخذ لھوا “ سے مراد ہے عورتیں (آیت) ” لاتخذنہ من لدنا “ یعنی ہم خود حورعین میں بیویاں بنالیتے۔ 7:۔ ابن منذر نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ (آیت) ” لواردنا ان نتخذ لھوا “ سے مراد ہے کھیل تماشہ۔ 8:۔ عبد بن حمید ابن منذر اور ابن ابی حاتم نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ (آیت) ” لواردنا ان نتخذ لھوا “ سے مراد ہے ہمارے پاس سے ” ان کنا فعلین “ یہاں ” ان “ ” ما “ کے معنی میں ہے ایسا ہم کرنے والے نہیں ہیں (پھر) فرماتے ہیں اور نہیں پیدا کیا ہم نے جنت کو اور نہ دوزخ کو اور نہ موت کو اور نہ دوبارہ اٹھنے کو اور نہ حساب کو اور وہ برا چیز جس کا ذکر قرآن میں ہے لھو لعب کے لئے پید انہیں کی ہے اور یہاں ان نافیہ ہے۔ حق و باطل کی تمیز : 9:۔ عبد الرزاق، عبد بن حمید، ابن منذر اور ابن ابی حاتم نے قتادہ ؓ سے روایت کیا کہ (آیت ) ’ بل نقذف بالحق علی الباطل “ یعنی قرآن علی الباطل یعنی حق کو باطل سے گڈ مڈ کردینا (آیت) ” فاذا ھو زاھق “ یعنی ہلاک ہونے والا ہے۔ 10:۔ ابن ابی شیبہ، عبد بن حمید، ابن منذر، ابن ابی حاتم اور بیہقی نے بعث میں حسن ؓ سے (آیت) ” ولکم الویل مما تصفون “ کے بارے میں فرمایا کہ اللہ کی قسم ایسے چھوٹے وصف بیان کرنے والے کے لئے قیامت کے دن تک ہلاکت ہی ہے۔ 11:۔ ابن ابی حاتم نے قتادہ ؓ سے روایت کیا کہ (آیت) ” ومن عندہ “ سے مراد ہیں فرشتے۔ 12:۔ ابن ابی حاتم نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ (آیت ) ’ لا یستحسرون “ سے مراد ہے کہ وہ نہیں لوٹیں گے۔ 13:۔ عبد بن حمید ابن منذر اور ابن ابی حاتم نے مجاہدرحمۃ اللہ علیہ سے روایت کیا کہ (آیت ) ’ لا یستحسرون “ سے مراد ہے کہ وہ نہیں تھکتے۔ 14:۔ ابن ابی حاتم نے سدی سے روایت کیا کہ کہ (آیت ) ’ لا یستحسرون “ سے مراد ہے کہ وہ عاجز نہیں آئے۔ 15:۔ ابن ابی حاتم نے سدی سے روایت کیا کہ کہ (آیت ) ’ لا یستحسرون “ سے مراد ہے کہ وہ عبادت سے جدا نہیں ہوتے۔ 16:۔ ابن منذر، ابن ابی حاتم نے، ابوالشیخ نے عظمہ میں اور بیہقی نے شعب میں عبداللہ بن حارث بن نوفل (رح) سے روایت کیا کہ انہوں نے کعب ؓ سے اللہ تعالیٰ کے اس قول (آیت) ” یسبحون الیل والنہار لا یفترون “ کے بارے میں پوچھا کیا کہ فرشتوں کی مشغولیت پیغام رسانی ہے یا عمل ہے ؟ تو انہوں نے فرمایا فرشتوں کے لئے تسبیح ایسے ہے جیسے تمہارے لئے تمہاری سانس کیا تم کھانے پینے اور آتے جاتے نہیں ہو جبکہ متواتر سانس چل رہی ہوتی ہے اسی طرح اللہ تعالیٰ نے ان کے لئے تسبیح کو بنا دیا ہے۔ 17:۔ ابوالشیخ نے عظمہ میں حسن ؓ سے (آیت) ” یسبحون الیل والنہار لا یفترون “ کے بارے میں فرمایا کہ ان کے سانس کو تسبیح بنادیا ہے۔ 18۔ ابوالشیخ نے یحی بن ابی کثیر (رح) سے روایت کیا کہ اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کو (چٹان کی طرح) پیدا فرمایا اور ان کے پیٹ نہیں ہیں۔
Top