Tafseer-e-Madani - Al-Anbiyaa : 17
لَوْ اَرَدْنَاۤ اَنْ نَّتَّخِذَ لَهْوًا لَّاتَّخَذْنٰهُ مِنْ لَّدُنَّاۤ١ۖۗ اِنْ كُنَّا فٰعِلِیْنَ
لَوْ اَرَدْنَآ : اگر ہم چاہتے اَنْ : کہ نَّتَّخِذَ : ہم بنائیں لَهْوًا : کوئی کھلونا لَّاتَّخَذْنٰهُ : تو ہم اس کو بنا لیتے مِنْ لَّدُنَّآ : اپنے پاس سے اِنْ كُنَّا : اگر ہم ہوتے فٰعِلِيْنَ : کرنے والے
اگر ہم کوئی کھیل تماشا بنانا چاہتے بھی تو اپنے یہاں کی کسی اور چیز سے بنا لیتے اگر ہمیں ایسا کرنا ہوتا
19 کائنات کی تخلیق بےمقصد نہیں ہوسکتی : سو ارشاد فرمایا گیا کہ " اگر کہیں ہمیں کھیل تماشا ہی مقصود ہوتا تو ہم اس کیلئے اور کوئی چیز بنالیتے "۔ اور اس کے لئے ہمیں حکمتوں بھری اس عظیم الشان کائنات کو پیدا کرنے کی ضرورت نہ ہوتی۔ سو یہ سب کچھ کھیل تماشہ کے طور پر ہرگز نہیں ہوسکتا۔ (ابن کثیر، مراغی، محاسن التاویل وغیرہ) ۔ بلکہ اس کی تخلیق عظیم الشان حکمتوں پر مبنی ہے جن میں سب سے اہم اور بنیادی مقصود دو چیزیں ہیں۔ ایک یہ کہ اس کائنات میں اور اس میں پائے جانے والے عجائب وغرائب میں غور و فکر سے کام لیکر انسان اپنے خالق ومالک کی معرفت حاصل کرے اور پھر اسی کی ہدایت وتعلیمات کے مطابق دل و جان سے اس کے حضور جھک جائے۔ جبکہ دوسرا اہم مقصد یہ ہے کہ اس کائنات میں پائی جانے والی گوناگوں نعمتوں سے مستفید و فیضیاب ہو کر انسان دل و جان سے اس واہب مطلق کا شکر بجا لائے تاکہ اس طرح وہ دارین کی سعادت و سرخروئی سے بہرہ ور و ہمکنار ہوسکے ۔ وباللہ التوفیق لما یحب ویرید وعلی ما یحب ویرید ۔ سبحانہ و تعالیٰ - 20 کار عبث شان خداوندی کے لائق نہیں : سو اس ارشاد سے واضح فرمایا گیا کہ کار عبث ہماری شان کے لائق نہیں بلکہ اس کے منافی و متضاد ہے۔ لیکن اگر بالفرض ہمیں ایسا کرنا ہوتا بھی تو اس طرح نہ کرتے بلکہ اس کے لیے اپنے یہاں سے کوئی اور سامان کرلیتے { ان کنا فاعلین } کے جملہ شرطیہ کی جزاء محذوف ہے۔ جس پر قرینہ سیاق وسباق ہے۔ نیز یہ بھی ہوسکتا ہے کہ " ان " یہاں پر نافیہ ہو۔ یعنی ہم ایسا کرنے والے نہیں کہ یہ ہماری شان کے لائق ہی نہیں۔ تو یہ نتیجہ ہے نفی ماقبل کا۔ (محاسن التاویل وغیرہ) ۔ بہرکیف اس سے واضح فرما دیا گیا کہ اس کائنات کی تخلیق محض کھیل تماشے کیلئے نہیں ہوسکتی۔ اگر ایسا کرنا ہوتا تو ہم اس کے لیے اپنے بندوں اور بندیوں اور دوسری مخلوق کو خواہ مخواہ مبتلائے مصیبت نہ کرتے۔ سو ایسا ہرگز نہیں۔ بلکہ یہ کائنات نہایت ہی بامقصد اور پر حکمت ہے۔ سو اگر بالفرض ہمیں کوئی کھیل تماشا ہی مقصود ہوتا تو اس کا سامان ہم اپنے یہاں ہی سے کرلیتے۔ اس کے لیے آدم و ابلیس، حق وباطل، خیر و شر، عدل وظلم اور ہدایت و ضلالت وغیرہ کے ان سلسلوں کی کیا ضرورت ہوتی۔ سو ایسا نہیں اور ہرگز نہیں بلکہ کائنات کی اس رزمگاہ کو پیدا کرنے اور اس میں بندوں اور بندیوں کو اتارنے کا اصل اور حقیقی مقصد ابتلاء و آزمائش ہے تاکہ جو لوگ اس میں اپنے خالق ومالک کے بندے بن کر رہیں اور جہاد زندگی کے اس معرکے میں کامیاب ہوں ان کو جنت کی حقیقی وابدی اور سدابہار نعمتوں سے نوازا جائے۔ اور جو اس میں ناکام ہوں ان کو اپنے کیے کرائے کی سزا ملے تاکہ اس طرح اس حکمتوں بھری کائنات کے مقصد تخلیق کی تکمیل ہو سکے۔ اور عدل وانصاف کے تقاضے پورے ہو سکیں اور علی وجہ التمام والکمال پورے ہو سکیں ۔ والحمد للہ رب العالمین -
Top