Dure-Mansoor - Al-Anbiyaa : 57
وَ تَاللّٰهِ لَاَكِیْدَنَّ اَصْنَامَكُمْ بَعْدَ اَنْ تُوَلُّوْا مُدْبِرِیْنَ
وَتَاللّٰهِ : اور اللہ کی قسم لَاَكِيْدَنَّ : البتہ میں ضرور چال چلوں گا اَصْنَامَكُمْ : تمہارے بت (جمع) بَعْدَ : بعد اَنْ : کہ تُوَلُّوْا : تم جاؤگے مُدْبِرِيْنَ : پیٹھ پھیر کر
اور اللہ کی قسم میں اس کے بعد ضرور ضرور تمہارے بتوں کے بارے میں کوئی تدبیر کروں گا جب تم پشت پھیر کر چلے جاؤ گے۔
1:۔ ابن ابی حاتم نے ابن مسعود ؓ سے روایت کیا کہ جب ابراہیم (علیہ السلام) کی قوم اپنے میلے کی طرف نکلی تو یہ لوگ ابراہیم (علیہ السلام) کے پاس سے گذرے اور کہنے لگے اے ابراہیم کیا تو ہمارے ساتھ میلہ میں نہیں جائے گا ابراہیم (علیہ السلام) نے فرمایا میں بیمار ہوں آپ ایک دن پہلے بیمار تھے (آیت) ” وت اللہ لاکیدن اصنامکم بعد ان تولوا مدبرین “ کچھ لوگوں نے آپ کی یہ بات سن لی تھی جب وہ لوگ چلے گئے تو ابراہیم (علیہ السلام) اپنے گھروالوں کی طرف گئے کھانا اٹھایا پھر ان کے بتوں کی طرف چل دیئے کھانا ان کے قریب کیا اور فرمایا تم کیوں نہیں کھاتے ہو ؟ پھر ان کے بڑے بت کے علاوہ سب کو توڑ دیا پھر بڑے بت کے ہاتھ میں اس چیز کو باندھ دیا کہ جس سے ان کے بتوں کو توڑا تھا جب قوم اپنے میلہ میں سے واپس آئی (بت خانے میں) داخل ہوئے اچانک کیا دیکھتے ہیں کہ ان کے بتوں کو توڑا دیا گیا تھا کہنے لگے ہمارے بتوں کے ساتھ ایسا (معاملہ) کس نے کیا ہے ؟ ان لوگوں نے کہا جنہوں نے ابراہیم (علیہ السلام) سے سنا تھا (آیت) ” وت اللہ لاکیدن اصنامکم “ ہم نے سنا ایک نوجوان کو کہ وہ ہمارے (بتوں) کا برائی سے تذکرہ کرتا ہے پس اس وقت ابراہیم (علیہ السلام) نے ان سے یہ مناظرہ کیا۔ ابراہیم (علیہ السلام) بت شکن ہیں : 2:۔ ابن ابی شیبہ عبدبن حمید ابن جریر اور ابن منذر نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ (آیت) ” وت اللہ لاکیدن اصنامکم “ یہ ابراہیم (علیہ السلام) کا قول ہے جب ان کی قوم نے ان کو اپنے میلہ کی طرف بلایا تو انہوں نے انکار کیا اور فرمایا میں بیمار ہوں اور جو آپ نے بتوں کے متعلق دھمکی دی تھی اس میں سے ایک آدمی نے سن لیا جو پیچھے رہ گیا تھا اور یہ وہی تھا جس نے کہا (آیت) ” سمعنا فتی یذکرھم یقال لہ ابرھیم “ اور ابراہیم (علیہ السلام) نے اس کلہاڑے کو جس سے انہوں نے ان کے بتوں کو توڑا تھا ان کے بڑے بت کے سینے پر لٹکا دیا جس کو آپ نے چھوڑ دیا تھا۔ 3:۔ عبد بن حمید اور ابن منذر نے عکرمہ ؓ سے روایت کیا کہ ابراہیم خلیل الرحمن کے والد ان بتوں کو بناتے تھے پھر اس کو ایک رسی میں باندھتے تھے اور ابراہیم (علیہ السلام) اپنی گردن پر اس کو اٹھاتے تھے اور بازار میں بیچنے کے لئے اس کو گھماتے رہتے تھے ایک دفعہ ایک آدمی اس کو خریدنے کے لئے آیا ابراہیم (علیہ السلام) نے اس سے فرمایا جب تو اس کو خریدے گا تو اس کے ساتھ کیا کرے گا اس نے کہا میں اس کو سجدہ کروں گا ابراہیم (علیہ السلام) نے اس سے فرمایا تو شیخ ہے اور تو اس حقیر کو سجدہ کرتا ہے مناسب تو یہ تھا کہ چھوٹے کو چاہئے کہ بڑے کو سجدہ کرے اس وجہ سے انہوں نے کہا (آیت) ” سمعنا فتی یذکرھم یقال لہ ابرھیم “۔ 4:۔ ابن جریر ابن منذر اور ابن ابی حاتم نے قتادہ ؓ سے روایت کیا کہ (آیت) ” وت اللہ لاکیدن اصنامکم “۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اس وقت کہا تھا جب وہ سن نہیں رہے تھے (آیت) ” فجعلہم جذذا “ یعنی آپ نے بتوں کو ریزہ ریزہ کردیا (آیت) ” الا کبیرا لہم “ مگر ان کا بڑا معبود (یعنی بڑا بت) کہ اس کی بڑی عظمت تھی ان کے دلوں میں (اس کو نہ توڑا) (آیت ) “ لعلہم الیہ یرجعون “ آپ نے اس کے ساتھ تدبیر بنائی شاید کہ عبرت حاصل کریں اور غور فکر کریں (آیت) ” قالوا فاتوا بہ علی اعین الناس لعلھم یشھدون “ انہوں نے اس بات کو ناپسند کیا کہ بغیر گواہ کے اس کو پکڑیں پھر کہا (آیت) ” ءانت فعلت ھذا بالھتنا یابرھیم ‘ سے انتم الظلمون “ اسی وجہ سے آپ نے بڑے بت کو چھوڑ دیا تھا کہ ان کی عقلوں کو جنجھوڑا جائے (آیت) ” ثم نکسواعلی رء وسھم “ یعنی بڑی غیرت نے قوم کو گھیر لیا کہنے لگے (آیت) ” لقد علمت ما ھولآء ینطقون “ (یعنی تو جانتا ہے کہ یہ بت نہیں بولتے ) ۔ 5:۔ ابن جریر، ابن منذر اور ابن ابی حاتم نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ (آیت) ” جذذا “ سے مراد ہے حطاما (ریزہ ریزہ کرنا ) ۔ 6:۔ ابن ابی حاتم نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ (آیت) ” جذذا “ سے مراد ہے فتاتا یعنی پھاڑنا۔ 7:۔ ابن جریر اور ابن منذر نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ (آیت) ” بل فعلہ کبیرھم ھذا “ یعنی ان کا بڑا بت۔ 8:۔ ابوداود، ترمذی اور ابن مردویہ نے ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے ابراہیم (علیہ السلام) نے کبھی بھی کسی چیز میں جھوٹ نہیں بولا مگر تین چیزوں میں ان میں سے ہر ایک اللہ کی رضا میں تھا ان کا کہنا کہ میں بیمار ہوں حالانکہ وہ بیمار نہ تھے اور ان کا کہنا اپنی بیوی سارہ کے لئے کہ وہ میری بہن ہے اور ان کا کہنا (آیت) ” بل فعلہ کبیرھم ھذا (یعنی بڑے بت نے یہ حرکت کی) جھوٹ بولنا حرام تو ریہ جائز ہے : 9:۔ ابویعلی نے ابوسعید خدری ؓ سے روایت کیا کہ نبی ﷺ نے فرمایا لوگ ابراہیم (علیہ السلام) کے پاس آئیں گے اور ان سے کہیں گے ہمارے لئے اپنے رب سے سفارش کیجئے وہ کہیں گے میں نے تین جھوٹ بولے نبی کریم ﷺ نے فرمایا اس میں سے ایک بھی (حقیقۃ) جھوٹ نہ تھا مگر اس کے ذریعہ انہوں نے اللہ کے دین کا دفاع کیا ” قولہ انی سقیم “ (الصافات : 79) وقولہ (آیت) ” بل فعلہ کبیرھم ھذا۔ وقولہ لسارۃ انھا اختی “۔ 10:۔ ابن جریر اور ابن منذر نے ابن جریج (رح) سے روایت کیا کہ (آیت) ” فرجعوا الی انفسہم “ یعنی وہ ایک دوسرے کا منہ دیکھنے لگے۔ 11:۔ ابن ابی حاتم نے ابن زید (رح) سے روایت کیا کہ (آیت) ” ثم نکسوا علی رء وسھم “ یعنی پھر وہ اپنے رائے پر اوندھے گرگئے۔ 12:۔ ابن ابی حاتم نے ابومالک (رح) سے روایت کیا کہ اف یعنی ردی کلام۔
Top