Maarif-ul-Quran - Al-Anbiyaa : 57
وَ تَاللّٰهِ لَاَكِیْدَنَّ اَصْنَامَكُمْ بَعْدَ اَنْ تُوَلُّوْا مُدْبِرِیْنَ
وَتَاللّٰهِ : اور اللہ کی قسم لَاَكِيْدَنَّ : البتہ میں ضرور چال چلوں گا اَصْنَامَكُمْ : تمہارے بت (جمع) بَعْدَ : بعد اَنْ : کہ تُوَلُّوْا : تم جاؤگے مُدْبِرِيْنَ : پیٹھ پھیر کر
اور قسم اللہ کی میں علاج کروں گا تمہارے بتوں کا جب تم جا چکو گے پیٹھ پھیر کر
معارف و مسائل
وَتَاللّٰهِ لَاَكِيْدَنَّ اَصْنَامَكُمْ ، الفاظ آیت سے ظاہر یہی ہے کہ یہ بات ابراہیم ؑ نے اپنی برادری کے سامنے کہی تھی مگر اس پر شبہ یہ ہوتا ہے کہ حضرت ابراہیم ؑ نے ان سے اِنِّىْ سَقِيْمٌ (میں بیمار ہوں) کا عذر کر کے ان کے ساتھ عید کے اجتماع میں جانے سے گریز کیا تھا اور جب بتوں کو توڑنے کا واقعہ پیش آیا تو برادری اس تلاش میں پڑی کہ یہ کس نے کیا۔ اگر ابراہیم ؑ کا یہ کلام پہلے ہی برادری کو معلوم تھا تو یہ سب باتیں کیسے ہوئیں اس کا جواب اوپر خلاصہ تفسیر میں یہ دیا گیا کہ ابراہیم ؑ اس خیال کے اکیلے آدمی تھے پوری برادری کے مقابلے میں ان کی کوئی حیثیت نہ سمجھ کر ممکن ہے کہ ان کے کلام کی طرف التفات نہ کیا ہو اور بھول بھی گئے ہوں (بیان القرآن) اور یہ بھی ممکن ہے کہ یہ تلاش و تحقیق کرنے والے دوسرے لوگ ہوں جن کو ابراہیم ؑ کی اس گفتگو کا علم نہیں تھا اور مفسرین میں سے مجاہد اور قتادہ کا قول یہ ہے کہ یہ کلام حضرت ابراہیم ؑ نے برادری کے سامنے نہیں کیا بلکہ اپنے دل میں کہا یا برادری کے جانے کے بعد ایک دو ضعیف آدمی جو رہ گئے تھے ان سے کہا پھر جب بت شکنی کا واقعہ پیش آیا اور برادری کو ایسا کرنے والے کی تلاش ہوئی تو ان لوگوں نے مخبری کردی (قرطبی)
Top