Dure-Mansoor - Aal-i-Imraan : 14
زُیِّنَ لِلنَّاسِ حُبُّ الشَّهَوٰتِ مِنَ النِّسَآءِ وَ الْبَنِیْنَ وَ الْقَنَاطِیْرِ الْمُقَنْطَرَةِ مِنَ الذَّهَبِ وَ الْفِضَّةِ وَ الْخَیْلِ الْمُسَوَّمَةِ وَ الْاَنْعَامِ وَ الْحَرْثِ١ؕ ذٰلِكَ مَتَاعُ الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا١ۚ وَ اللّٰهُ عِنْدَهٗ حُسْنُ الْمَاٰبِ
زُيِّنَ : خوشنما کردی گئی لِلنَّاسِ : لوگوں کے لیے حُبُّ : محبت الشَّهَوٰتِ : مرغوب چیزیں مِنَ : سے (مثلاً ) النِّسَآءِ : عورتیں وَالْبَنِيْنَ : اور بیٹے وَالْقَنَاطِيْرِ : اور ڈھیر الْمُقَنْطَرَةِ : جمع کیے ہوئے مِنَ : سے الذَّھَبِ : سونا وَالْفِضَّةِ : اور چاندی وَالْخَيْلِ : اور گھوڑے الْمُسَوَّمَةِ : نشان زدہ وَالْاَنْعَامِ : اور مویشی وَالْحَرْثِ : اور کھیتی ذٰلِكَ : یہ مَتَاعُ : سازوسامان الْحَيٰوةِ : زندگی الدُّنْيَا : دنیا وَاللّٰهُ : اور اللہ عِنْدَهٗ : اس کے پاس حُسْنُ : اچھا الْمَاٰبِ : ٹھکانہ
خوش نما بنا دی گئی ہے لوگوں کے لئے خواہشوں کی محبت یعنی عورتیں اور بیٹے بڑے بھاری مال سونے کے اور چاندی کے، اور نشان لگائے ہوئے گھوڑے اور مویشی اور کھیتیاں، یہ دنیا والی زندگی کا فائدہ اٹھانا ہے اور اللہ کے پاس ہے اچھا ٹھکانہ۔
مال و دولت عورتیں فتنہ ہیں (1) ابن جریر نے ابن ابی حاتم نے ابوبکر بن حفص بن عمر بن سعد (رح) سے روایت کیا ہے کہ جب لفظ آیت ” زین للناس حب الشھوت “ نازل ہوئی (آخر تک) تو حضرت عمر ؓ نے فرمایا اے میرے رب ! اب آپ نے ہی ہمارے لیے اس کو مزین کو دیا اب کیا ہوگا ؟ تو (اس پر) یہ ساری آیت ” قل اؤنبئکم بخیر “ نازل ہوئی۔ (2) ابن المنذر نے اسی طرح روایت نقل کی ہے یہاں تک کہ جب ” قل اؤنبئکم بخیر “ تک پہنچے تو رونے لگے اور عرض کیا جب آپ نے ان (چیزوں) کو مزین کردیا ہے (اب کیا ہوگا) ۔ (3) ابن ابی شیبہ عبد بن حمید ابی حاتم نے سیار بن حکم (رح) سے روایت کیا ہے کہ حضرت عمر ؓ نے یہ آیت ” زین للناس حب الشھوت “ پڑھی پھر فرمایا ! اے میرے رب تحقیق تو نے اس کو دلوں میں مزین کیا (اب کیا ہوگا) ۔ (4) ابن ابی شیبہ عبد اللہ بن احمد نے زوائد الزھد میں ابن ابی حاتم نے اسلم (رح) سے روایت کیا ہے میں نے عبد اللہ بن ارقم ؓ کو دیکھا کہ وہ حضرت عمر ؓ کے پاس کچھ چاندی کے برتن اور زیورات لے کر آئے تو حضرت عمر ؓ نے کہا تو نے اس مال کو ذکر کیا ہے تو میں نے کہا لفظ آیت ” زین للناس حب الشھوت “۔ (5) عبد بن حمید ابن جریر ابن ابی حاتم نے حسن (رح) سے روایت کیا ہے کہ ” زین للناس “ کے بارے میں فرمایا کہ کس نے اس کو مزین کیا اس کے خالق سے زیادہ سخت کوئی ایک بھی اس کی سخت مذمت کرنے والا نہیں۔ (6) ابن ابی حاتم نے حسن (رح) سے روایت کیا ہے کہ ” زین للناس “ سے مراد ہے کہ شیطان نے ان کے لیے مزین کردیا۔ قولہ تعالیٰ : من النساء : (7) نسائی ابن ابی حاتم اور حاکم نے انس ؓ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا محبوب بنا دیا گیا میری طرف تمہاری دنیا سے عورتیں اور خوشبو اور میری آنکھوں کی ٹھنڈک کو نماز میں بنا دیا گیا۔ (8) احمد ابن ماجہ نے حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ” القنطار “ سے مراد بارہ ہزار اوقیہ ہے۔ (9) حاکم نے اس کو صحیح کہا انس ؓ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ سے اللہ تعالیٰ کے اس قول لفظ آیت ” والقناطیر المقنطرۃ “ کے بارے میں پوچھا گیا آپ نے فرمایا ” قنطار “ ایک ہزار اوقیہ ہے۔ (10) ابن ابی حاتم نے ابن مردویہ نے انس ؓ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ” قنطار “ ہزار دینار ہے۔ (11) ابن جریر نے ابی بن کعب ؓ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ” قنطار “ بارہ سو اوقیہ ہے۔ (12) ابن جریر نے حسن بصری (رح) سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ” قنطار “ سے مرادد بارہ سو دینار ہیں۔ (13) عبد بن حمید ابن ابی حاتم اور ابن مردویہ نے ابو درداء ؓ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جو شخص رات کو ایک سو آیتیں پڑھے تو وہ غافلین میں نہیں لکھا جائے گا اور جو شخص دو سو آیتیں پڑھے تو وہ اطاعت گذاروں میں سے اٹھایا جائے گا اور جو شخص پانچ سو سے ایک ہزار آیتوں تک پڑھے تو اس کے لیے ایک قنطار اجر ہوگا اور قنطار بڑے ٹیلے کو کہتے ہیں۔ (14) عبد بن حمید ابن جریر ابن ابی حاتم اور بیہقی نے (اپنی سنن میں) معاذ بن جبل ؓ سے روایت کیا ہے کہ قنطار سے بارہ سو اوقیہ مراد ہے۔ (15) ابن جریر نے ابن عمر ؓ سے روایت کیا ہے کہ قنطار بارہ سو اوقیہ ہے۔ (16) ابن جریر اور بیہقی نے عبد بن حمید ابن جریر اور بیہقی نے ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا ہے کہ حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا قنطار بارہ ہزار درہم یا ایک ہزار دینار ہیں۔ (17) ابن جریر اور بیہقی نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا ہے کہ قنطار بارہ سو دینار چاندی میں ہے اور بارہ سو مثقال ہیں۔ (18) عبد بن حمید ابن ابی حاتم اور بیہقی نے ابو سعید خدری ؓ سے روایت کیا ہے کہ قنطار سے مراد ہے بیل کی کھال سونے سے بھری ہوئی۔ (19) ابن جریر ابن ابی حاتم نے ابن عمر ؓ سے روایت کیا کہ ان سے پوچھا گیا قنطار سے مراد کیا ہے ؟ انہوں نے فرمایا ستر ہزار۔ (20) عبد بن حمید نے مجاہد (رح) سے روایت کیا ہے کہ قنطار سے مراد ستر ہزار دینار ہیں۔ (21) عبد بن حمید نے سعید بن المسیب (رح) سے روایت کیا ہے قنطار سے مراد اسی ہزار ہیں۔ (22) عبد بن حمید نے ابو صالح (رح) سے روایت کیا ہے کہ قنطار سے سو رطل مراد ہیں۔ (23) عبد بن حمید ابن جریر نے قتادہ (رح) سے روایت کیا ہے کہ ہم بیان کیا کرتے تھے کہ قنطار سے مراد سو رطل سونا ہے یا اسی ہزار (رطل) چاندی میں سے مراد ہیں۔ (24) الطستی نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا ہے کہ نافع بن ازرق (رح) نے ان سے پوچھا مجھ کو اللہ تعالیٰ کے اس قول ” والقناطیر “ کے بارے میں بتائیے تو انہوں نے فرمایا ہمارے اہل بیت والوں کا کہنا جو ہم کہتے ہیں کہ قنطار سے دس ہزار مثقال مراد ہے لیکن بنو حسل کہتے ہیں کہ بیل کی کھال سونے یا چاندی سے بھر جائے (پھر) عرض کیا، کیا عرب کے لوگ اس (معنی) کو جانتے ہیں ؟ فرمایا ہاں کیا تو نے عدی بن زید کا یہ قول نہیں سنا وہ کہتا ہے : لفظ آیت وکانوا ملوک الروم تجیئ الیہم قناطیرھا بین قل وزائد ترجمہ : کہ روم کے بادشاہوں کے پاس ان کے خزانے لائے جاتے تھے جو تھوڑے تھے یا زائد۔ (25) ابن ابی حاتم نے ابو جعفر (رح) سے روایت کیا ہے کہ ” قنطار “ پندرہ ہزار مثقال کا ہوتا ہے اور ایک مثقال چوبیس ہزار قیراط کا ہوتا ہے۔ (26) ابن جریر نے ضحاک (رح) سے روایت کیا ہے کہ لفظ آیت ” والقناطیر المقنطرۃ “ سے مال کثیر مراد ہے سونے سے ہو یا چاندی سے۔ (27) ابن جریر نے عوفی کے طریق سے ربیع (رح) سے روایت کیا ہے کہ ” والقناطیر المقنطرۃ “ سے مال کثیر مراد ہے جو ایک دوسرے پر بڑا ہوتا ہے۔ (28) سدی (رح) سے روایت کیا ہے کہ ” المقنطرۃ “ سے مراد ٹھپہ لگا ہوا یہاں تک کہ دینار یا درہم بن جاتا ہے۔ قولہ تعالیٰ : والخیل المسومۃ : (29) حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا ہے کہ لفظ آیت ” والخیل المسومۃ “ سے گھوڑے چرنے والے مراد ہیں۔ (30) ابن جریر نے علی کے طریق سے ابن المنذر نے مجاہد کے طریق سے ابن عباس ؓ سے اسی طرح روایت کیا کہ حضرت ابن عباس ؓ نے روایت کیا ہے کہ لفظ آیت ” والخیل المسومۃ “ سے گھوڑے تربیت یافتہ مراد ہیں۔ (31) ابن ابی حاتم نے عکرمہ کے طریق سے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا ہے کہ ” والخیل المسومۃ “ سے مراد ہے گھوڑے تربیت یافتہ مراد ہیں۔ (32) ابن ابی حاتم نے عکرمہ کے طریق سے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا ہے کہ ” والخیل المسومۃ “ سے مراد ہے گھوڑے چرنے والے موٹے تازے پھر (یہ آیت) پڑھی ” شجر فیہ تسیمون “۔ (33) عبد بن حمید ابن جریر نے مجاہد (رح) سے روایت کیا ہے کہ ” والخیل المسومۃ “ سے موٹے تازے خوبصورت گھوڑے مراد ہیں۔ (34) عبد بن حمید اور ابن جریر نے عکرمہ (رح) سے روایت کیا ہے کہ تسویم سے مراد اس کی خوبصورتی ہے۔ (35) ابن ابی حاتم نے مکحول (رح) سے روایت کیا ہے کہ ” والخیل المسومۃ “ سے مراد سفید پیشانی اور سفید ٹانگوں والے گھوڑے۔ قولہ تعالیٰ : ذلک متاع الحیوۃ الدنیا : (36) مسلم ابن ابی حاتم نے ابن عمر ؓ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا دنیا سامان ہے اور اس کا بہترین سامان نیک عورت ہے۔ (37) ابن جریر نے سدی (رح) سے فرمایا کہ لفظ آیت ” واللہ عندہ حسن الماب “ سے مراد ہے کہ اچھی لوٹنے کی جگہ اور وہ جنت ہے۔
Top