Al-Qurtubi - Aal-i-Imraan : 14
زُیِّنَ لِلنَّاسِ حُبُّ الشَّهَوٰتِ مِنَ النِّسَآءِ وَ الْبَنِیْنَ وَ الْقَنَاطِیْرِ الْمُقَنْطَرَةِ مِنَ الذَّهَبِ وَ الْفِضَّةِ وَ الْخَیْلِ الْمُسَوَّمَةِ وَ الْاَنْعَامِ وَ الْحَرْثِ١ؕ ذٰلِكَ مَتَاعُ الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا١ۚ وَ اللّٰهُ عِنْدَهٗ حُسْنُ الْمَاٰبِ
زُيِّنَ : خوشنما کردی گئی لِلنَّاسِ : لوگوں کے لیے حُبُّ : محبت الشَّهَوٰتِ : مرغوب چیزیں مِنَ : سے (مثلاً ) النِّسَآءِ : عورتیں وَالْبَنِيْنَ : اور بیٹے وَالْقَنَاطِيْرِ : اور ڈھیر الْمُقَنْطَرَةِ : جمع کیے ہوئے مِنَ : سے الذَّھَبِ : سونا وَالْفِضَّةِ : اور چاندی وَالْخَيْلِ : اور گھوڑے الْمُسَوَّمَةِ : نشان زدہ وَالْاَنْعَامِ : اور مویشی وَالْحَرْثِ : اور کھیتی ذٰلِكَ : یہ مَتَاعُ : سازوسامان الْحَيٰوةِ : زندگی الدُّنْيَا : دنیا وَاللّٰهُ : اور اللہ عِنْدَهٗ : اس کے پاس حُسْنُ : اچھا الْمَاٰبِ : ٹھکانہ
لوگوں کو ان کی خواہشوں کی چیزیں یعنی عورتیں اور بیٹے اور سونے چاندی کے بڑے بڑے ڈھیر اور نشان لگے ہوئے گھوڑے اور مویشی اور کھیتی بڑی زینت دار معلوم ہوتی ہیں (مگر) یہ سب دنیا ہی کی زندگی کے سامان ہیں، اور خدا کے پاس بہت اچھا ٹھکانہ ہے
آیت نمبر : 14۔ اس میں گیارہ مسائل ہیں : مسئلہ نمبر : (1) قولہ تعالیٰ : (آیت) ” زین للناس “۔ زین تزیین سے ہے اور آراستہ کرنے والے کے بارے میں لوگوں کا اختلاف ہے، ایک گروہ نے کہا ہے : اللہ تعالیٰ نے اسے آراستہ کیا ہے اور حضرت عمر بن خطاب ؓ کے قول کا ظاہر معنی یہی ہے، اسے بخاری نے ذکر کیا ہے اور قرآن کریم میں ہے : (آیت) ” انا جعلنا ما علی الارض زینۃ لھا “۔ (الکہف : 7) ترجمہ : بیشک ہم نے بنایا ان چیزوں کو جو زمین پر ہیں ان کے لئے باعث زینت) اور جب حضرت عمر نے کہا : اے میرے رب ! اس وقت تو نے اسے ہمارے لئے آراستہ کیا ہے پھر یہ آیت نازل ہوئی۔ (آیت) ” قل اؤنبئکم بخیر من ذلکم (آل عمران 15) ترجمہ : آپ فرمائیے کیا بتاؤں میں تمہیں اس سے بہتر چیز) اور ایک گروہ نے کہا ہے : آراستہ کرنے والا شیطان ہے اور حضرت حسن (رح) کے قول کا ظاہر یہی ہے، کیونکہ انہوں نے کہا : کس نے اسے آراستہ کیا ہے ؟ اس کے خالق سے زیادہ شدید اس کی مذمت کرنے والا کوئی نہیں، پس اللہ تعالیٰ کی تزیین یہ ہے کہ اس نے وسوسہ اندازی کی دھوکے میں مبتلا کیا اور بغیر اسباب کے انہیں لینے کو حسین قرار دیا، اور آیت دونوں وجہوں پر مشتمل ہے ابتداء میں تمام لوگوں کے لئے وعظ ونصیحت ہے اور اس کے ضمن میں حضور نبی کریم ﷺ کے ہمعصر یہود وغیرہ کے لئے زجر وتوبیخ ہے (1) (المحرر الوجیز، جلد 1، صفحہ 408 دارالکتب العلمیہ) جمہور نے مفعول کا فعل ہونے کی بنا پر زین (یعنی مجہول) پڑھا ہے، اور حب کو رفع دیا ہے اور حضرت ضحاک (رح) اور مجاہد (رح) نے فاعل کا فعل ہونے کی بنا پر زین (یعنی معروف) پڑھا ہے اور حب کو نصب دی ہے، (المحرر الوجیز، جلد 1، صفحہ 408 دارالکتب العلمیہ) اور الشھوت میں اسم اور صفت میں فرق کرنے کے لئے صا کو حرکت دی گئی ہے۔ اور الشھوات شھوۃ کی جمع ہے اور یہ معروف ہے اور آدمی کسی شے کی خواہش رکھنے والا ہوتا ہے (کہا جاتا ہے رجل شھوان للشیئ) اور شے کی خواہش رکھی جاتی ہے (لہذا کہا جاتا ہے شی شھی ای شتھی، اور شہوات (خواہشات) کی اتباع وپیروی سرکش بنا دیتی ہے اور ان کی اطاعت اسے ہلاک کردیتی ہے، اور صحیح مسلم میں ہے :” جنت کا احاطہ مصائب ومکروہات سے کیا گیا ہے اور جہنم کا احاطہ خواہشات سے کیا گیا ہے “ اسے حضرت انس ؓ نے حضور نبی مکرم ﷺ سے روایت کیا ہے۔ (1) (صحیح مسلم، کتاب الجنۃ وصغہ نعیما واھلھا، جلد 2، صفحہ 378) اور اس تمثیل کا فائدہ یہ ہے کہ جنت حاصل نہیں کی جاسکتی مگر تبھی جب مصائب ومکروہات کے جنگل کو کاٹ دیا جائے اور ان پر صبر کیا جائے اور جہنم سے نجات حاصل نہیں کی جاسکتی مگر تب جب شہوات کو چھوڑ دیا جائے اور نفس کو ان سے چھٹکارا دلا دیا جائے۔ اور آپ ﷺ سے یہ بھی مروی ہے کہ آپ نے فرمایا : ” جنت کا راستہ ٹیلوں کے سبب کٹھن اور دشوار ہے اور جہنم کا راستہ نرم زمین ہونے کے سبب سہل ہے۔ “ اور آپ ﷺ کے اس اور کا معنی یہی ہے : خفت الجنۃ بالمکارہ وحفت النار بالشھوات (2) (ایضا، صحیح باب، حجت النار بالشھوات، حدیث نمبر 6006، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) یعنی جنت کا راستہ مشکل ہے کیونکہ اس میں چلنے کے لئے کئی ٹیلوں سے اوپر چڑھنا پڑھتا ہے اور جہنم کا راستہ آسان ہے اس میں نہ کوئی ناہمواری ہے اور نہ دشوار گزاری۔ اور یہی معنی اس قول کا ہے سھل بسھوۃ اور یہ لفظ سین مہملہ کے ساتھ ہے۔ مسئلہ نمبر : (2) قولہ تعالیٰ : (آیت) ” من النسآئ “۔ ان کی عادت اور رویہ کی وجہ سے لوگوں کا کثرت سے ان کی طرف میلان اور جھکاؤ ہوتا ہے، کیونکہ وہ شیطان کا جال (پھندا) اور مردوں کے لئے فتنہ ہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : ” میں نے اپنے بعد مردوں کے لئے عورتوں سے بڑھ کر کوئی شدید فتنہ نہیں چھوڑا۔ (3) (صحیح بخاری، باب ما یتقی من شوم المراۃ حدیث 4706، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) اسے بخاری ومسلم (رح) نے روایت کیا ہے پس عورتوں کا فتنہ تمام اشیاء سے زیادہ شدید اور سخت ہے، اور کہا جاتا ہے : عورتوں میں دو فتنے ہیں اور اولاد میں ایک فتنہ ہے، پس وہ دو عورتوں میں ہیں ان میں ایک یہ ہے کہ وہ قطعی رحمی تک پہنچا دیتا ہے، کیونکہ عورت اپنے خاوند کو ماؤں اور بہنوں سے تعلقات منقطع کرنے کا حکم دیتی ہے اور دوسرا یہ ہے کہ آدمی کو حلال و حرام مال جمع کرنے میں مبتلا کردیا جاتا ہے اور رہے بیٹے، تو ان میں صرف ایک فتنہ ہے اور وہ یہ ہے کہ آدمی کو ان کے لئے مال جمع کرنے میں مبتلا کردیا جاتا ہے، حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ نے بیان فرمایا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : لا تسکنوا نسآئکم الغرف ولا تعلموھن الکتاب “۔ (4) (کنز العمال، جلد 16، صفحہ 380، حدیث نمبر 44999) (تم اپنی عورتوں کو بالاخانوں میں سکونت نہ دو اور تم انہیں لکھنا نہ سکھاؤ) رسول اللہ ﷺ نے لوگوں کو ڈرایا (اور محتاط رہنے کی تلقین فرمائی) کیونکہ ان کے لئے بالاخانوں میں سکونت اختیار کرنے میں مردوں کی طرف دیکھنا (آسان) ہے اور اس میں ان کے لئے نہ حفاظت ہے اور نہ پردہ، کیونکہ وہ مردوں پر جھانکتی رہیں گی نتیجتا فتنہ اور آزمائش کھڑی ہوجائے گی اور کیونکہ یہ مرد سے پیدا کی گئی ہیں۔ لہذا ان کی خواہش اور قصد مرد کی جانب ہوتی ہے، اور مرد میں شہوت پیدا کردی گئی ہے اور عورت کو مرد کے لئے باعث راحت تسکین بنا دیا گیا ہے، پس دونون میں سے ہر ایک دوسرے سے محفوظ ومامون نہیں اور انہیں لکھنے کی تعلیم دینے میں یہ فتنہ بھی ہے بلکہ اس سے بھی زیادہ شدید ہے۔ اور کتاب الشہاب میں حضور نبی مکرم ﷺ سے حدیث موجود ہے : اعرو النساء یلزمن الحجال “۔ (1) (کنزالعمال، جلد 16، صفحہ 374، حدیث نمبر 44962) (تم عورتوں کو چھوڑ دو وہ اپنے خاص کمروں کو لازم پکڑے رکھیں گی) پس آدمی پر لازم ہے جب وہ ان زمانوں میں صبر نہ کرسکے تو وہ کسی دیندار عورت کو تلاش کرے تاکہ وہ اپنے دین کو محفوظ رکھ سکے، حضور ﷺ نے فرمایا ” علیک بذات الدین تریب یداک “۔ (2) (صحیح مسلم، کتاب الرضاع، جلد 1، صفحہ 474، ایضا صحیح بخاری، الاکفاء فی الدین، حدیث 4700، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) (تجھ پر کسی دیندار عورت کو تلاش کرنا لازم ہے تیرے ہاتھ خاک آلود ہوں) اسے مسلم نے حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا ہے۔ اور سنن ابن ماجہ میں حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : ” لا تزوجوا النساء لحسنھن فعسی حسنھن ان یردیھن ولا تزوجوھن لا موالھن فعسی اموالھن ان تطغیھن ولکن تزوجوھن علی الدین ولا مۃ سوداء خرماء ذات دین افضل “۔ (3) (سنن ابن ماجہ، کتاب النکاح، صفحہ ایضا ابن ماجہ، کتاب النکاح، حدیث 1848، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) (تم عورتوں سے ان کے حسن کی وجہ سے شادی نہ کرو کیونکہ قریب ہے ان کے مال انہیں سرکش بنادین البتہ تم دین کی بنا پر ان سے شادی کرو اور سیاہ رنگ چھیدے ہوئے کانوں (کٹی ہوئی ناک) والی دیندار کنیزافضل ہے۔ ) مسئلہ نمبر : (3) قولہ تعالیٰ : (آیت) ” ولبنین “۔ اس کا عطف اپنے ماقبل پر ہے اور بنین کا واحد ابن ہے، اللہ تعالیٰ نے حضرت نوح (علیہ السلام) کی جانب سے خبر دیتے ہوئے فرمایا (ان ابنی من اھلی) (بےشک میرا بیٹا میری اہل میں سے ہے) اور اس کی تصغیر ” بنی “ ہے جیسا کہ لقمان نے کہا ہے اور حدیث طیبہ میں ہے کہ حضور نبی مکرم ﷺ نے حضرت اشعث بن قیس ؓ کو فرمایا : ” کیا حمز ہ ؓ کی بیٹی سے تیری کوئی اولاد ہے “ ؟ انہوں نے عرض کی : جی ہاں میرا اس سے ایک بیٹا ہے اور میں یہ پسند کرتا ہوں کہ اس کے لئے میرے پاس طعام کا ایک کنواں ہو اور بنی جبلہ کا جو فرد بھی باقی رہے وہ اسے کھلاتا رہے تو حضور نبی مکرم ﷺ نے فرمایا : ” اگر تو نے ایسا کیا ہے تو بلاشبہ وہ (بیٹے) دلوں کی الفت اور راحت اور آنکھوں کی ٹھنڈک ہیں۔ اور اس کے ساتھ ساتھ بزدل بنا دینے والے، بخیل بنا دینے والے اور غمزدہ کردینے والے ہیں۔ لئن قلت ذالک انھم لشر القلوب وقرۃ الاعین وانھم مع ذالک لمجبنۃ مبخلۃ محزنۃ۔ (4) (مسنداحمد بن حنبل جلد 5، صفحہ 211) مسئلہ نمبر : (4) قولہ تعالیٰ : (آیت) ” والقناطیر “۔ القناطیر قنطار کی جمع ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : وآتیتم احدھن قنطارا۔ اور اس سے مراد مال کی بہت گانٹھ ہے (5) (المحرر الوجیز، جلد 1، صفحہ 408 دارالکتب العلمیہ) اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ ایک پیمانے کا نام ہے جس کے ساتھ وزن کیا جاتا ہے، جیسا کہ رطل اور ربع وغیرہ اور جوشی اس خاص وزن تک پہنچ جائے اس کے لئے کہا جاتا ہے : ھذا قنطار یعنی یہ قنطار کے مساوی اور برابر ہے، اور عرب کہتے ہیں : قنطرالرجل، جب اس کا مال اس حد کو پہنچ جائے کہ قنطار کے ساتھ وہ اس کا وزن کرے، اور زجاج نے کہا ہے : القنطار ماخوذ ہے عقد الشیء واحکامہ (6) (المحرر الوجیز، جلد 1، صفحہ 409 دارالکتب العلمیہ) سے (یعنی کسی شے کو باندھنا اور اسے مضبوط کرنا، عرب کہتے ہیں : قنطرت الشیء۔ جب تو اسے خوب پختہ اور مضبوط کر دے اور اسی سے القنطرہ ہے کہ اس کے پختہ ہونے کی وجہ سے اس کا نام قنطرہ رکھا گیا ہے جیسا کہ طرفۃ نے کہا ہے : کقنطرۃ الرومی اقسم ربھا لتکتئفن حتی تشاد بقرمد : اور القنطرہ سے مراد وہ شے ہے جس کا عقد کیا جائے تو گویا قنطار مال کا عقد کرنا ہے (1) (المحرر الوجیز، جلد 1، صفحہ 409 دارالکتب العلمیہ) اور علماء نے اس کی حد بیان کرنے میں اختلاف کیا ہے کہ وہ کتنی ہے، اس کے بارے متعدد اقوال ہیں۔ سو حضرت ابی بن کعب ؓ نے حضور نبی مکرم ﷺ سے روایت کیا ہے کہ آپ نے فرمایا : ” ایک قنطار ایک ہزار دو سو اوقیہ کا ہے۔ “ اور اسی کے مطابق حضرت معاذ بن جبل، حضرت عبداللہ بن عمر، اور حضرت ابوہریرہ رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین اور علماء کی ایک جماعت نے قول کیا ہے، ابن عطیہ نے کہا ہے اور یہی صحیح ترین قول ہے : لیکن شہروں میں اوقیہ کی مقدار مختلف ہونے کے سبب قنطار بھی مختلف ہوتا ہے۔ (2) (المحرر الوجیز، جلد 1، صفحہ 408 دارالکتب العلمیہ) اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ قنطار بارہ ہزار اوقیہ کا ہے، اسے البستی نے اپنی مسند صحیح میں حضرت ابوہریرہ ؓ سے بیان کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ” ایک قنطار بارہ ہزار اوقیہ کا ہے اور ایک اوقیہ اس سے بہتر ہے جو کچھ زمین و آسمان کے مابین ہے۔ (3) (سنن ابن ماجہ کتاب الادب صفحہ 268، ایضا مسند امام احمد حدیث 8758) اور یہی قول حضرت ابوہریرہ ؓ نے بھی بیان کیا ہے اور مسند ابی محمد الدارمی میں ہے کہ حضرت ابو سعید خدری ؓ نے بیان فرمایا : ” جس نے ایک رات میں دس آیات پڑھیں اسے ذاکرین میں لکھ دیا جائے گا اور جس نے سو آیات پڑھیں اسے قانتین (بندگی پر قائم ودائم رہنے والے) میں لکھ دیا جائے گا اور جس نے پانچ سو سے ہزار آیات تک پڑھیں تو وہ صبح اس حال میں کرے گا کہ اس کے لئے ایک قنطار اجر ہوگا۔ “ عرض کی گئی : قنطار کیا ہے ؟ تو آپ نے فرمایا : مل مسک ثور ذھبا (مشکیزہ سونے سے بھرا ہوا ہو) یہ روایت موقوف ہے اور ابو نضرۃ العبدی نے یہی کہا ہے اور ابن سیدہ نے بیان کیا ہے ،: یہ سریانی زبان میں اسی طرح ہے اور نقاش نے ابنی کلبی سے بیان کیا ہے کہ یہ لغت روم کے مطابق بھی اسی طرح ہے۔ (4) (المحرر الوجیز، جلد 1، صفحہ 409 دارالکتب العلمیہ) اور حضرت ابن عباس، حضرت ضحاک اور حضرت حسن رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین نے کہا ہے : قنطار کی مقدار، بارہ سو مثقال چاندی ہے، اسے حسن نے مرفوع ذکر کیا ہے، اور حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے : چاندی کے بارہ ہزار درہم اور سونے میں سے ایک ہزار دینار مسلم آدمی کی دیت ہے، اور حسن اور ضحاک سے یہی مروی ہے اور حضرت سعید بن مسیب ؓ نے فرمایا : اسی ہزار ہیں۔ حضرت قتادہ ؓ نے کہا : سونے کے ایک سو رطل یا چاندی کے اسی ہزار درہم (5) (ایضا المحرر الوجیز، جلد 1، صفحہ 408 دارالکتب العلمیہ) اور ابو حمزہ الثمالی نے بیان کیا ہے : افریقہ اور اندلس میں ایک قنطار سے مراد آٹھ ہزار مثقال سونا یا چاندی ہے، سدی نے کہا ہے : چارہ ہزار مثقال کا ہے۔ حضرت مجاہد (رح) نے کہا ہے : ستر ہزار مثقال کا، اور یہی حضرت ابن عمر ؓ سے مروی ہے۔ (6) (ایضا المحرر الوجیز، جلد 1، صفحہ 408 دارالکتب العلمیہ) اور مکی نے ایک قول بیان کیا ہے کہ ایک قنطار چالیس اوقیہ سونا یا چاندی ہے اور یہی قنطار سے مراد مال کثیر ہے جو بعض بعض پر پڑا ہو (1) (ایضا المحرر الوجیز، جلد 1، صفحہ 409 دارالکتب العلمیہ) اور عربوں کے نزدیک یہی معروف ہے۔ اور اسی کے مطابق یہ ارشاد ہے : (آیت) ” واتیتم احدھن قنطارا “۔ (النسآئ : 20) یعنی تم نے ان میں سے ایک کو مال کثیر دیا۔ اور اسی معنی میں حدیث طیبہ ہے :” بیشک صفوان بن امیہ زمانہ جاہلیت میں ایک قنطار کو پہنچ گیا اور اس کا باپ بھی قنطار کو پہنچ گیا ، “ یعنی اس کا مال قنطار ہوگیا، اور حکم سے روایت ہے : قنطار وہ ہے جو آسمان زمین کے درمیان ہے۔ اور المقنطرۃ کے معنی میں علماء نے اختلاف کیا ہے، پس طبری وغیرہ نے کہا ہے : اس کا معنی ہے المضعفہ (دو چند کیا ہوا) گویا قناطیر سے مراد تین قنطار اور منقطرہ سے مراد نو ہیں۔ (2) (ایضا المحرر الوجیز، جلد 1، صفحہ 409 دارالکتب العلمیہ) اور فراء سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا : قناطیر قنطار کی جمع ہے اور منقطرہ جمع الجمع ہے، پس وہ نو قنطار ہوجائیں گے، سدی نے کہا ہے : مقنطرہ سے مراد ڈھالا ہوا سونا یا چاندی ہے یہاں تک کہ دنانیر یا دراہم ہوجائے، مکی نے کہا ہے : یہ المقنطرہ المکملۃ (یعنی جمع کئے ہوئے خزانے “۔ (3) (ایضا المحرر الوجیز، جلد 1، صفحہ 409 دارالکتب العلمیہ) مکمل قنطار “ ) اور اسے ہر وی نے بیان کیا ہے، جیسا کہ کہا جاتا ہے : بدر مبذرۃ (دس ہزار کی تھیلی جو ان سے بھری ہوئی ہو) اور الاف مؤلفۃ (ہزاروں جو جمع کئے گئے ہوں) اور بعض نے کہا ہے : اور اسی لئے بنا (عمارت) کو اس کی بناوٹ ایک دوسرے کے اوپر گھنی اور مضبوط ہونے کی وجہ سے قنطرہ کہا جاتا ہے۔ ابن کیسان اور فراء نے کہا ہے : نوقنطار سے کم مقنطرہ نہیں ہوتا، اور یہ بھی کہا گیا ہے : المنقنطرہ حضور مال اور اس کے بھاری بھر کم ہونے کی طرف اشارہ ہے۔ (4) (ایضا المحرر الوجیز، جلد 1، صفحہ 409 دارالکتب العلمیہ) اور صحیح البستی میں حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے کہ رسول ﷺ نے فرمایا : ” جس نے دس آیات کے ساتھ قیام کیا وہ غافلین میں سے نہیں لکھا جائے گا اور جس نے سو آیات کے ساتھ قیام کیا اسے قانتین میں لکھا جائے گا اور جس نے ہزار آیتوں کے ساتھ قیام کیا تو اسے مقنطرین (خزانہ جمع کرنے والے) میں لکھا جائے گا (5) (سنن ابی داؤد کتاب الصلوۃ جلد 1، صفحہ 198) مسئلہ نمبر : (5) قولہ تعالیٰ : (آیت) ” من الذھب والفضۃ “۔ الذھب مونث ہے کہا جاتا ہے : ھی الذھب الحسنۃ (یہ حسین سونا ہے) اس کی جمع ذھاب اور ذھوب آتی ہے اور یہ بھی جائز ہے کہ یہ ذبھۃ کی جمع ہو، اور جمع اذھاب بنائی جائے اور ذھب فلان مذھبا حسنا (فلاں خوب اچھی طرح گزر گیا) اور الذھب اہل یمن کا ایک پیمانہ بھی ہے اور رج ذھب جب کوئی آدمی سونے کی کان دیکھے اور حیران رہ جائے۔ اور الفضۃ یہ تو معروف ہے اور اس کی جمع فضض ہے پس الذھب الذھاب سے ماخوذ ہے۔ اور الفضۃ یہ انفض الشی (شے کا متفرق ہونا) سے ماخوذ ہے اور اسی سے فضضت القوم فانفضوا ہے، یعنی میں نے قوم کو تقسیم کیا تو وہ تقسیم ہوگئی اور یہ مادہ اشتقاق ان دونوں کے زوال اور انکے عدم ثبوت کا احساس دلاتا ہے، جیسا وجود میں کیا گیا ہے، اور اس معنی میں جو سب سے اچھا کہا گیا ہے اور وہ بعض کا یہ قول ہے۔ النار آخر دینار نطقت بہ والھم اخر ھذا الدرھم الجاری۔ جس دینار کے بارے تو نے گفتگو کی ہے اس کا آخر آگ ہے اور اس جاری درہم کا آخر غم ہے۔ والمرء بینھما ان کان ذا ورع معذب القلب بین لھم والنار : اگر آدمی کمزور دل ہو تو وہ ان دونوں کے درمیان اس حال میں ہوتا ہے کہ اس کا دل غم اور آگ کے درمیان عذاب میں مبتلا رہتا ہے۔ مسئلہ نمبر : (6) قولہ تعالیٰ : (آیت) ” والخیل “۔ الخیل مؤنث ہے، ابن کیسان نے کہا ہے : ابو عبیدہ سے بیان کیا گیا ہے کہ انہوں نے کہا : خیل کا واحد خائل ہے، جیسا طیر کا واحد طائر اور ضین کا واحد ضائن ہے اور گھوڑے کو یہ نام اس لئے دیا گیا ہے کیونکہ وہ اپنی چال میں اکڑ اور تکبر کا اظہار کرتا ہے اور دوسروں نے کہا ہے کہ یہ اسم جمع ہے لفظوں میں اس کا کوئی واحد نہیں۔ (1) (ایضا المحرر الوجیز، جلد 1، صفحہ 409 دارالکتب العلمیہ) (بلکہ) اس کا واحد فرس ہے، جیسا کہ یہ الفاظ القوم، الرھط، النساء اور الابل وغیرہ، اور حضرت علی ؓ سے حدیث مروی ہے کہ انہوں نے حضور نبی مکرم ﷺ سے روایت کیا : ” بیشک اللہ تعالیٰ نے گھوڑے کو ہوا سے پیدا کیا ہے اور اسی لئے اسے بغیر پروں کے اڑنے والا بنا دیا “ (مراد اس کی تیز رفتاری ہے۔ ) اور وہب بن منبہ ؓ نے بیان کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اسے جنوب کی ہوا سے تخلیق فرمایا ہے۔ حضرت وہب ؓ نے کہا ہے : کوئی تسبیح، تکبیر اور تہلیل نہیں ہے جسے پڑھنے والا پڑھتا ہے مگر وہ (گھوڑا) اسے سنتا بھی ہے اور اسے اسی کی مثل کے ساتھ جواب بھی دیتا ہے، گھوڑے کا ذکر اور اس کے وصف کا بیان سورة الانفال میں آئے گا جو اس میں کافی ہوگا انشاء اللہ تعالیٰ ۔ اور حدیث طیبہ میں ہے : ” بیشک اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم (علیہ السلام) پر تمام جانور پیش فرمائے اور آپ کو کہا گیا : ان میں سے ایک پسند کرلو، تو انہوں نے گھوڑا چنا، تو آپ کو فرمایا گیا : تم نے اپنی عزت کو اختیار کیا ہے، پس اسی وجہ سے اس کا نام الخیر پڑگیا اور اس کا نام خیل رکھا گیا کیونکہ یہ (گھوڑا) العز سے موسوم ہے اور جو اس پر سوار ہوجائے اتو وہ اللہ تعالیٰ کی عطا سے عزت پالیتا ہے، اور وہ اس کے سبب اللہ تعالیٰ کے دشمنوں پر اظہار فخر کرتا ہے، اور اس کا نام فرس رکھا گیا ہے کیونکہ یہ شیر کے جھپٹنے کی طرح اچھلتے کودتے فضا کی مسافتوں کو طے کرلیتا ہے اور وہ زور سے روندتے ہوئے انہیں اس طرح کاٹتا ہے جیسا کہ اپنے ہاتھ سے کوئی شے دبوچ لی جائے، اور اس کا نام عربی رکھا گیا ہے کیونکہ اسے حضرت آدم (علیہ السلام) کے بعد حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کے لئے کعبہ معظمہ کی بنیادیں اٹھانے کی جزا کے طور پر لایا گیا اور حضرت اسماعیل (علیہ السلام) عربی ہیں، پس چونکہ یہ اللہ تعالیٰ کی جانب سے آپ کو عطا ہوا اس لئے اس کا نام عربی رکھا گیا۔ اور حدیث طیبہ میں حضور نبی مکرم ﷺ سے روایت ہے : ” شیطان اس گھر میں داخل نہیں ہوگا جس میں عتیق گھوڑا ہو (2) (المطالب العالیہ لابن حجر، حدیث نمبر 3630) گھوڑی ترکی ہو اور گھوڑا عربی ہو تو ان سے پیدا ہونے والے گھوڑے کو ھجین کہا جاتا ہے۔ ) اور آپ نے فرمایا : ” بہترین گھوڑا وہ سیاہ رنگ کا گھوڑا ہے جس کی پیشانی میں تھوڑی سی سفیدی ہو اور اس کی ناک اور اوپر والا ہونٹ بھی سفید ہو۔ (پھر وہ جس کی پیشانی اور چاروں پاؤں سفید ہوں) طلق الیمین ہو (یعنی اس کا دایاں پاؤں سفید نہ ہو) اور اگر سیاہ (ادھم) گھوڑا نہ ہو تو پھر کمیت (جس کا رنگ سیاہی مائل ہو) گھوڑا جو اسی وضع پر ہو (1) (جامع ترمذی، کتاب الجہاد جلد 1، صفحہ 202، ایضا ترمذی، باب کتاب الجہاد حدیث 1619، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) اسے ترمذی نے حضرت ابو قتادہ ؓ سے بیان کیا ہے اور مسند دارمی میں آپ ہی سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے عرض کی : یا رسول اللہ ﷺ میں گھوڑا خریدنے کا ارادہ رکھتا ہوں (میں کون سا گھوڑا خریدوں ؟ ) تو آپ ﷺ نے فرمایا : ” تو سیاہ رنگ کا گھورا خرید جس کی ناک اور اوپر والا ہونٹ سفید ہوں اور معجل طلق الیمین ہو۔ (یعنی اس کی پیشانی اور تین پاؤں سفید ہوں) یا پھر اسی صورت پر کمیت گھوڑا خرید لے تو نفع پائے گا اور تو سلامت رہے گا (2) (سنن دارمی کتاب الجہاد، جلد 2، صفحہ 131، حدیث نمبر 2433) اور نسائی نے حضرت انس ؓ سے روایت بیان کی ہے کہ انہوں نے فرمایا : رسول اللہ ﷺ کے نزدیک عورتوں کے بعد گھوڑے سے زیادہ پسندیدہ شے کوئی نہ تھی۔ (3) اور ائمہ نے حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : گھوڑے تین قسم کے ہیں۔ ایک آدمی کے لئے باعث اجر ہوتا ہے اور ایک آدمی کے لئے باعث ستر (پردہ) ہوتا ہے اور ایک آدمی کے لئے بوجھ ہوتا ہے۔ (4) “۔ (السنن الکبری للبیہقی، کتاب السبق والرمی، جلد 10، صفحہ 15، صحیح بخاری باب شرب الناس والدواب من الانھار، حدیث 2198، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) یہ حدیث طویل اور مشہور ہونے کے سبب ذکر سے مستغنی ہے، گھوڑوں کے احکام کا ذکر سورة الانفال اور النحل میں آئے گا جو کافی ہوگا انشاء اللہ تعالیٰ ۔ مسئلہ نمبر : (7) قولہ تعالیٰ : (آیت) ” المسومۃ “۔ مراد چراگاہوں میں چرنے والے، حضرت سعید ابن جبیر ؓ نے یہ کہا ہے۔ کہا جاتا ہے : سامت الدابۃ والشاۃ جب گھوڑا اور بکری چرنے کے لئے جائے تسوم سومافھی سائبۃ (5) (المحرر الوجیز، جلد 1، صفحہ 409 دارالکتب العلمیہ) اور اسم تھا انا جب تو انہیں روایت ہے، انہوں نے بیان کیا : رسول اللہ ﷺ نے طلوع آفتاب سے پہلے جانور چرانے سے اور دودھ والے جانور ذبح کرنے سے منع فرمایا ہے (6) (سنن ابن ماجہ، کتاب التجارت، صفحہ 160) (اس حدیث میں السوم کا لفظ چرنے کے معنی میں ہے) اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا (آیت) ” فیہ تسیمون (النحل) (جس میں تم (مویشی) چراتے ہو) اخطل نے کہا ہے : مثل ابن بزعۃ اوکاخر مثلہ اولی لک ابن مسیمۃ الاجمال : مراد اونٹ کو چرانے والے کا بیٹا ہے اور السوام سے مراد ہر چرنے والا جانور ہے اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس سے مراد وہ جانور ہیں جنہیں جہاد کے لئے تیار کیا جائے، ابن زید نے یہی کہا ہے۔ (7) (المحرر الوجیز، جلد 1، صفحہ 410 دارالکتب العلمیہ) حضرت مجاہد نے کہا ہے : ” المسومۃ وہ ہوتا ہے جو بہت موٹا اور خوبصورت ہو، اور حضرت عکرمہ ؓ نے کہا ہے : سومھا الحسن (1) (المحرر الوجیز، جلد 1، صفحہ 409 دارالکتب العلمیہ) (اس نے اسے خوبصورت نشانات لگائے یا اس نے اسے اچھی طرح چرنے کے لئے چھوڑا) اور نحاس نے اسے اختیار کیا ہے، انہی کے قول سے ہے : رجل وسیم خوبصورت چہرے والا آدمی، اور حضرت ابن عباس ؓ سے مروی ہے کہ انہوں نے کا ہ : المسومہ ایسے گھوڑے جن کے چہروں پر ایسے نشانات لگائے گئے ہوں جن سے انکی پہچان ہو سکے (2) (المحرر الوجیز، جلد 1، صفحہ 409 دارالکتب العلمیہ) یہ السیما سے ہے اور اس کا معنی علامت اور نشانی ہے، اور یہی کسائی اور عیبدہ کا مذہب ہے۔ میں (مفسر) کہتا ہوں : جو کچھ ذکر کیا گیا ہے لفظ ان تمام کا احتمال رکھتا ہے، پس وہ گھوڑا جو چرنے والا ہو، اچھی طرح تیار کیا ہوا ہو اور اسے ایسے نشانات لگائے گئے ہوں جن کے سبب دوسروں سے اس کی پہچان ہو سکے (وہی مراد ہوگا۔ ابو زید نے کہا ہے : اس کی اصل یہ ہے کہ تو اس پر ایسی اون اور علامت بنا دے جو اس کے سارے بدن میں نمایاں ہو تاکہ چراگاہ میں وہ اسے ماسوی سے ممتاز اور الگ کر دے۔ ابن فارس اللغوی نے اپنی مجمل میں بیان کیا ہے : المسومۃ سے مراد وہ گھوڑا ہے جو چھوڑا جائے اور اس پر اس کا سوار بھی ہو، اور مورج نے کہا ہے : المسومہ کا معنی ہے داغ دیا ہوا، مبرد نے کہا ہے : وہ جو شہروں میں معروف ہو، ابن کیسان نے کہا ہے : جس میں سیاہ وسفید داغ ہوں، یہ تمام معانی سیما کے متقارب ہیں۔ نابغہ نے کہا ہے : وضمیر القداح مسومات علیھا معشر اشباہ جن۔ (3) (المحرر الوجیز، جلد 1، صفحہ 410 دارالکتب العلمیہ) مسئلہ نمبر : (8) قولہ تعالیٰ : (آیت) ” والانعام “۔ ابن کیسان نے کہا ہے جب تو کہے نعم تو اس کا اطلاق صرف اونٹ پر ہوتا ہے اور جب کہے انعام تو اس میں اونٹ اور تمام چرنے والے جانور آجاتے ہیں۔ فراء نے کہا ہے : یہ لفظ مذکر ہے اس کی مونث نہیں آتی، وہ کہتے ہیں : ھذا نعم وارد (یہ اونٹ آ رہا ہے) اس کی جمع انعام آتی ہے، ہر وی نے کہا ہے : نعم مذکر ومونث دونوں کے لئے آتا ہے اور الانعام سے مراد اونٹ گائے اور بکری وغیرہ جانور ہیں اور جب کہا جائے : النعم تو پھر صرف اونٹ مراد ہوتا ہے اور حسان نے کہا ہے : وکانت لایزال بھا انیس خلال مروجھا نعم وشاء : اس میں نعم سے مراد اونٹ ہیں۔ سنن ابن ماجہ میں عروہ البارقی سے مرفوع روایت ہے انہوں نے بیان کیا : ’ اونٹ اپنے مالکوں کے لئے (باعث) عزت ہے اور بکریاں باعث برکت ہیں اور خیر وبھلائی یوم قیامت تک گھوڑے کی پیشانی میں رکھ دی گئی ہے (4) “ (سنن ابن ماجہ، کتاب التجارت صفحہ 168، ابن ماجہ، کتاب التجارت، حدیث نمبر 2295، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) ۔ اور اس میں حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ” بکری جنت کے جانوروں میں سے ہے (5) (سنن ابن ماجہ، کتاب التجارت صفحہ 168، ابن ماجہ، کتاب التجارت، حدیث نمبر 2296، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) اسی میں حضرت ابوہریرہ ؓ سے مروی ہے کہ انہوں نے بیان فرمایا : ” رسول اللہ ﷺ نے اغنیاء کو بکریاں رکھنے کا اور فقراء کو مرغیاں رکھنے کا حکم ارشاد فرمایا اور فرمایا : اغنیاء کے مرغیاں رکھنے کے وقت اللہ تعالیٰ شہروں کو ہلاک وبرباد کرنے کی اجازت دے دیتا ہے (1) (سنن ابن ماجہ، کتاب التجارت، حدیث نمبر 2297، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) اور اسی میں حضرت ام ہانی ؓ سے روایت ہے کہ حضور نبی مکرم ﷺ نے انہیں فرمایا : تو بکریاں رکھ لے کیونکہ ان میں برکت ہے (2) (سنن ابن ماجہ، کتاب التجارت، حدیث نمبر 2294، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) انہوں نے اسے ابوبکر بن ابی شیبہ عن وکیع عن ہشام بن عروہ عن ابیہ عن ام ھانی کی سند سے بیان کیا ہے اور یہ اسناد صحیح ہے۔ مسئلہ نمبر : (9) قولہ تعالیٰ : (آیت) ” والحرث “۔ یہاں حرچ ہر اس شے کا نام ہے جسے کاشت کیا جاتا ہے اور یہ مصدر ہے جس کے ساتھ نام رکھا گیا ہے، تو کہتا ہے : حرث الرجل حرثا جب وہ کھیتی باڑی کے لئے زمین کو پھاڑے (اس میں ہل چلائے) اور حراثہ کا اسم دانے کاشت کرنے، باغات لگانے اور دیگر کاشتکاری کی انواع پر بولا جاتا ہے اور حدیث میں ہے :” تو اپنے دنیا کے لئے کھیتی باڑی کر گویا کہ تو ہمیشہ زندہ رہے گا ، “ کہا جاتا ہے حرثت اور احترثت (میں نے کھیتی باڑی کی) اور حضرت عبداللہ ؓ کی روایت میں ہے :” تم اس قرآن میں خوب غور وفکر اور تحقیق کرو “۔ ابن عرابی (رح) نے کہا ہے : الحرث کا معنی تفتیش کرنا، تحقیق کرنا ہے۔ اور حدیث میں ہے : اصدق الاسماء الحارث (3) (البدایۃ والنہایہ، جلد 12، صفحہ 192) ناموں میں سے اصدق نام حارث ہے کیونکہ حارث وہ ہوتا ہے جو کمانے والا ہو اور احتراث المال کا معنی مال کی کمائی ہے اور المحراث : آگ کو بھڑکانے اور ہلانے والی سیخ ہے اور الحراث قوس میں تانت کی جگہ ہے، اس کی جمع احرثہ ہے۔ اور احرث الرجل ناقتہ آدمی نے ناقہ کو خوب تھکا دیا، کمزور کرو یا۔ اور حضرت معاویہ کی حدیث میں ہے : مافعلت نواضحکم ؟ تمہارے پانی پلانے والے اونٹوں نے کیا کیا ہے ؟ انہوں نے جواب دیا : حرثنا ھا یوم بدر۔ ہم نے انہیں بدر کے دن خوب کمزور کیا اور تھکایا (اشارہ اس طرف ہے کہ ان کے اشیاخ کو قتل کیا ہے۔ النھایہ) ابو عبید نے کہا ہے : وہ اس سے ھزلناھا (ہم نے انہیں کمزور کیا ہے) کہا جاتا ہے : حرثت الدابۃ اور احرث تھا دونوں لغتیں ہیں، اور صحیح بخاری میں حضرت ابو امامہ باہلی ؓ سے روایت ہے، انہوں نے بیان فرمایا کہ انہوں نے ہل کا لوہا (جس کے ساتھ زمین پھاڑی جاتی ہے) اور کوئی شے دیکھی تو کہا : میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے : ” یہ کسی قوم کے گھر میں داخل نہیں ہوتی مگر ذلت اس کے ساتھ داخل ہوتی ہے۔ (4) (صحیح بخاری، کتاب الحرث والمزارعۃ، جلد 1، صفحہ 312، ایضا، بخاری حدیث نمبر 2153، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) “ کہا گیا ہے کہ اس ارشاد میں ذل سے مراد زمین کے ان حقوق کی مشقت ہے جن کی ادائیگی ہل چلانے والوں پر لازم ہوتی ہے اور ائمہ اور سلاطین ان کا مطالبہ کرتے ہیں۔ اور مہلب نے کہا ہے : اس حدیث طیبہ میں آپ ﷺ کے ارشاد کا حقیقی معنی تو واللہ اعلم بہرحال یہ بلند احوال اور باعزت اور اشراف ترین کاموں سے رزق طلب کرنے پر برانگیختہ کرنا ہے اور یہ اس لئے ہوا کہ حضور نبی مکرم ؓ کو اپنی امت کے بارے ہل چلانے میں مشغول ہونے، گھوڑوں کی سواری اور اللہ تعالیٰ کی راہ میں جہاد کرنے کو ضائع کرنے کا خدشہ لاحق ہوا۔ کیونکہ اگر یہ ہل چلانے میں مشغول ہوگئے تو پرھ ان پر وہ امم اور گروہ غالب آجائیں گے جو گھوڑوں کی سواری ان کی کمائی سے اسباب زندگی تلاش کرنے کے لئے کرتے ہیں۔ “ پس آپ ﷺ نے انہیں جہاد سے اسباب زندگی تلاش کرنے پر ابھارا نہ کہ مسلسل زمین کی آبادی اور مشقت کو لازم پکڑنے سے، کیا آپ جانتے نہیں کہ حضرت عمر ؓ نے فرمایا : جوان بنو اور خوب مضبوط اور طاقتور بنو اور اونٹوں کی سواری چھوڑ دو اور گھوڑوں پر کود کر بیٹھو تو پر اونٹ چرانے والے غالب نہیں آئیں گے، پس آپ نے انہیں مسلسل گھوڑے رکھنے اور ان پر اچھل کر بیٹھنے کے لئے اپنے ابدان کی ورزش کرنے کا حکم ارشاد فرمایا۔ اور صحیحین میں ہے حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے کہ حضور نبی مکرم ﷺ نے فرمایا : ” جس کسی مسلمان نے کوئی درخت لگایا یا کوئی فصل کاشت کی اور اس سے کوئی پرندہ یا انسان یا کوئی جانور کھائے تو اس کے لئے وہ صدقہ ہوگا (1) (صحیح بخاری، کتاب الحرث، والمزارعۃ، جلد 1، صفحہ 312، ایضا بخاری حدیث نمبر 2152، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) علماء نے کہا ہے : اللہ تعالیٰ نے مال کی چار قسمیں ذکر کی ہیں اور مال کی ہر نوع کے سبب لوگوں کی ایک قسم خوشحال اور متمول ہوتی ہے، پس سونے اور چاندی سے تاجر لوگ خوشحال ہوتے ہیں اور نشان زدہ گھوڑوں کے سبب بادشاہ اور امراء خوشحال ہوتے ہیں اور رہے چوپائے تو ان سے شہروں میں بسنے والے خوشحال ہوتے ہیں اور جہاں تک کھیتی باڑی کا تعلق ہے تو اس سے دیہات میں رہنے والے خوشحال حاصل کرتے ہیں اور ہر قسم کی آزمائش اسی نوع کے لئے ہوتی ہے جو اس سے خوشحال ہوتی ہے اور جہاں تک عورتوں اور اولاد کا تعلق ہے تو یہ تمام کے لئے آزمائش اور فتنہ ہیں۔ مسئلہ نمبر : (10) قولہ تعالیٰ : (آیت) ” ذلک متاع الحیوۃ الدنیا “۔ یعنی وہ سامان جس سے دنیا میں لطف اندوز ہوا جاتا ہے پھر وہ ختم ہوجاتا ہے اور وہ باقی نہیں رہتا، اس میں دنیا سے کنارہ کشی اختیار کرنے اور آخرت کے بارے ترغیب ہے، ابن ماجہ وغیرہ نے حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت بیان کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ” بلاشبہ دنیا سامان ہے اور سامان دنیا میں سے کوئی شے نیک اور صالحہ عورت سے افضل نہیں۔ (2) (سنن ابن ماجہ، کتاب النکاح، صفحہ 134، ایضا ابن ماجہ، حدیث نمبر 1844، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) اور ایک حدیث میں ہے : ” تو دنیا میں زہد اختیار کر اللہ تعالیٰ تجھ سے محبت فرمائے گا (3) (سنن ابن ماجہ، کتاب الزہد، صفحہ 311، ایضا ابن ماجہ، حدیث نمبر 4091، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) یعنی دنیوی سازو سامان میں جاہ و حشمت اور ضرورت سے زائد مال کو چھوڑ دے۔ حضور نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا : ” سوائے ان خصال کے ابن آدم (انسان) کا کوئی حق نہیں ہے، گھر جو اسے سکونت دیتا ہے، کپڑا جو اس کی شرمگاہ کو چھپاتا ہے اور خشک روٹی اور پانی (4) “ (جامع ترمذی، کتاب الزہد، جلد 2 صفحہ 57، ایضاجامع ترمذی، حدیث نمبر 2263، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) ترمذی نے اسے مقدام بن معد یکرب کی حدیث سے نقل کیا ہے۔ حضرت سہل بن عبداللہ سے پوچھا گیا : بندے پر دنیا اور تمام شہوات کو چھوڑنا کیونکر آسان ہوجاتا ہے ؟ تو آپ نے فرمایا آدمی کے ان کاموں میں مشغول ہوجانے کے ساتھ جن کا اسے حکم دیا گیا ہے۔ مسئلہ نمبر : (11) قولہ تعالیٰ : (آیت) ” واللہ عندہ حسن الماب “۔ یہ مبتدا اور خبر ہے۔ اور الماب کا معنی لوٹنے کی جگہ ہے، آب یودب ایابا کہا جاتا ہے جب کوئی لوٹ کر آئے امر والقیس نے کہا : وقد طوفت فی الافاق حتی رضیت من الغنیمۃ بالایاب (1) (المحرر الوجیز، جلد 1، صفحہ 410 دارالکتب العلمیہ) تحقیق میں آفاق میں گھوما پھرا یہاں تک کہ میں غنیمت کی بجائے لوٹ آنے پر راضی ہوگیا۔ اور ایک دوسرے شاعر نے کہا : وکل ذی غیبۃ یؤوب و غائب الموت لا یؤوب (2) ہر غیب ہونے والا لوٹ آتا ہے۔ (لیکن) موت کے سبب غائب ہونے والا لوٹ کر نہیں آتا، مآب کی اصل ماوب ہے واؤ کی حرکت نقل کرکے ما قبل ہمزہ کو دی اور واؤ کو الف سے بدل دیا گیا، جیسا کہ مقال میں کہا گیا ہے اور آیت کا معنی یہ ہے کہ اس میں دنیا کی قتل اور اس کی حقارت کو بیان کرنا ہے اور آخرت میں اللہ تعالیٰ کی طرف حسین انداز میں لوٹنے کی ترغیب ہے۔
Top