Mualim-ul-Irfan - Aal-i-Imraan : 14
زُیِّنَ لِلنَّاسِ حُبُّ الشَّهَوٰتِ مِنَ النِّسَآءِ وَ الْبَنِیْنَ وَ الْقَنَاطِیْرِ الْمُقَنْطَرَةِ مِنَ الذَّهَبِ وَ الْفِضَّةِ وَ الْخَیْلِ الْمُسَوَّمَةِ وَ الْاَنْعَامِ وَ الْحَرْثِ١ؕ ذٰلِكَ مَتَاعُ الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا١ۚ وَ اللّٰهُ عِنْدَهٗ حُسْنُ الْمَاٰبِ
زُيِّنَ : خوشنما کردی گئی لِلنَّاسِ : لوگوں کے لیے حُبُّ : محبت الشَّهَوٰتِ : مرغوب چیزیں مِنَ : سے (مثلاً ) النِّسَآءِ : عورتیں وَالْبَنِيْنَ : اور بیٹے وَالْقَنَاطِيْرِ : اور ڈھیر الْمُقَنْطَرَةِ : جمع کیے ہوئے مِنَ : سے الذَّھَبِ : سونا وَالْفِضَّةِ : اور چاندی وَالْخَيْلِ : اور گھوڑے الْمُسَوَّمَةِ : نشان زدہ وَالْاَنْعَامِ : اور مویشی وَالْحَرْثِ : اور کھیتی ذٰلِكَ : یہ مَتَاعُ : سازوسامان الْحَيٰوةِ : زندگی الدُّنْيَا : دنیا وَاللّٰهُ : اور اللہ عِنْدَهٗ : اس کے پاس حُسْنُ : اچھا الْمَاٰبِ : ٹھکانہ
مزین کی گئی ہے لوگوں کے لیے مرغوب چیزوں کی محبت عورتوں سے ، اور بیٹوں سے اور سونے چاندی کے جمع کیے ہوئے خزانوں سے ، اور عمدہ نشان لگے ہوئے گھوڑوں سے اور مویشیوں سے اور کھیتی سے۔ یہ تو دنیا کی زندگی میں فائدہ اٹھانے کا سامان ہے اور اللہ کے ہاں بہترین ٹھکانا ہے۔
اسباب ضلالت : گذشتہ آیت میں یہ وعید سنائی گئی تھی کہ جو لوگ کفر کے پروگرام کو غالب دیکھنا چاہتے ہیں۔ ان کے مال اور اولاد ان کے کچھ کام نہ آئیں گے۔ اور ساتھ یہ بشارت بھی سنا دی کہ ایسے لوگ بالآخر مغلوب ہوں گے ، اور جہنم کی طرف اکٹھے کیے جائیں گے۔ آج کے درس میں اللہ تعالیٰ نے گمراہی کے اسباب بیان فرمائے ہیں۔ ارشاد ہوتا ہے زین للناس حب الشھوات مرغوب چیزوں کی محبت کو لوگوں کے لیے مزین کردیا گیا ہے۔ یعنی ان اشیاء کے لیے لوگوں کے دلوں میں محبت ڈال دی گئی ہے۔ دوسری جگہ قرآن پاک میں موجود ہے۔ انا جعلنا ما علی الارض زینۃ لھا۔ یعنی جو کچھ زمین پر موجود ہے۔ ہم نے اسے زینت بنایا ہے۔ اور زیب وزینت کے اس تمام ساز و سامان کی تخلیق کا مقصد کیا ہے۔ لیبلوکم ایکم احسن عملا۔ تاکہ لوگوں کو آزما سکیں کہ ان میں اچھے عمل کرنے والا کون ہے۔ اور برائی کا راستہ اختیار کرنے والا کون ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان تمام چیزوں کو امتحان کے لیے مزین کردیا ہے۔ قرآن کریم میں بعض مقامات پر تزئین کی نسبت شیطان کی طرف کی گئی ہے کہ وہ کم بخت مرغوب اشیاء کو مزین کرکے دکھاتا ہے۔ اس آیت کریمہ میں جن چیزوں کا ذکر کیا گیا ہے۔ وہ اکثر و بیشتر انسان کی گمراہی کا سبب بنتی ہیں ان چیزوں کے دو پہلو ہیں۔ ایک فطری اور دوسرا غیر فطری۔ اگر ان مرغوب اشیاء کو اسی انداز پر رکھا جائے جس پر انہیں رکھنا مقصود ہے۔ یعنی ان کی رغبت میں حد سے تجاوز نہ کیا جائے تو یہ فطری امر ہے۔ اور اس میں کوئی قباحت نہیں۔ البتہ جب ان چیزوں کی رغبت میں غلو اور زیادتی پیدا ہوجاتی ہے تو یہی اشیاء غیر فطری بن کر گمراہی کا ذریعہ بن جاتی ہیں۔ انہی چیزوں کی غیر فطری محبت میں مبتلا ہو کر لوگ اللہ تعالیٰ کی اطاعت کو چھوڑ دیتے ہیں جس کی وجہ سے وہ گمراہی کے گڑھے میں جا گرتے ہیں۔ وگرنہ یہی چیزیں فطرت کے مطابق اپنی حدود کے اندر رہیں تو ان سے فائدہ حاصل ہوتا ہے۔ ان اشیاء کو شہوات یعنی خواہشات کے لفظ سے تعبیر کیا گیا ہے۔ ان کا ذکر آگے آتا ہے۔ مرغوب اشیاء : 1۔ عورت : فرمایا مزین کی گئی ہے لوگوں کے لیے خواہشات کی محبت۔ من النساء ، عورتوں سے۔ اس فہرست میں سب سے پہلا نمبر عورت کا آیا ہے۔ یعنی عورتوں کی محبت انسانوں کے دلوں میں مزین کردی گئی ہے۔ اور جب لوگ اس محبت میں مبتلا ہو کر غفلت کا شکار ہوجاتے اور اطاعت الٰہی کا دامن چھوڑ دیتے ہیں تو گمراہی کے گڑھے میں جا گرتے ہیں۔ حضور ﷺ نے فرمایا کہ میں اپنی امت میں عورتوں سے بڑھ کر خطرناک فتنہ کوئی نہیں چھوڑ چلا۔ یعنی مردوں کے حق میں مجھے سب سے زیادہ خطرہ عورتوں کی طرف سے ہے۔ یہ بڑا خطرناک فتنہ ہے۔ ان کی محبت میں مبتلا ہو کر انسان اللہ سے غافل اور خیر سے بیگانہ ہوجاتا ہے۔ اور محض نفسانی خواہش کا بندہ بن کر رہ جاتا ہے۔ مرد و زن کا فطری رشتہ اللہ تعالیٰ نے بڑا عجیب بنایا ہے۔ فرمایا میں نے انسان کو مٹی سے پیدا کیا۔ پھر اس کا جوڑا اسی سے پیدا کیا۔ یعنی مرد کے مقابلہ میں دوسری صنف کو پیدا کیا۔ لتسکنوا الیھا۔ یعنی مرد ان کے ذریعہ سکون حاصل کرسکیں۔ غم واندوہ اور پریشانی کی صورت میں عورت مرد کے لیے مرہم کا کام دے ، اس کے بوجھ کو ہلکا کرنے کی کوشش کرے ، اسے سکون میسر ہوگا ، اور نفسانی خواہش کی تکمیل کا ذریعہ بنے گی ، اسی لیے قرآن پاک میں ارشاد ہے وجعل بینکم مودۃ و رحمۃ ۔ اللہ تعالیٰ نے مرد و زن کے درمیان محبت اور مہربانی کے جذبے کو پیدا کیا ، تاکہ یہ جوڑا پیار و محبت کی بہترین زندگی گزار سکے۔ دوسرے مقام پر فرمایا گن لباس لکم و انتم لباس لھن۔ عورتیں مردوں کے لیے بمنزلہ لباس کے ہیں اور مرد عورتوں کے لیے لباس ہیں دونوں ایک دوسرے کے لیے پردہ پوشی کا ذریعہ ہیں۔ عفت اور پاکدامنی کا سبب ہیں اور یہ فطری رشتہ ہے۔ حدیث شریف میں آتا ہے کہ عورت سے مقصود پاک دامنی اور اولاد صالحہ ہونی چاہئے۔ محض شہوت رانی مطلوب نہیں ہونی چاہئے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے۔ کہ جب عورتوں کے قریب جاؤ تو۔ وابتغوا ما کتب اللہ لکم۔ اس چیز کی تلاش کرو جو اللہ نے تمہارے مقدر میں کی ہے ، یعنی نیک اولاد کی تمنا ہونی چاہئے۔ الغرض ! اگر عورت سے مقصود عفت ، پاکدامنی اور اولاد ہو تو یہ بڑی اچھی چیز ہے ، حضور ﷺ کا ارشاد گرامی ہے۔ خیر متاع الدنیا المراۃ الصالحہ۔ دنیا کی مفید اشیاء میں سے نیک عورت سب سے زیادہ فائدے والی چیز ہے۔ اگر مرد اس کی طرف نگاہ کرے تو وہ اس کو خوش کرے گا اور اگر حکم دے گا تو بجا لائے گی۔ اگر خاوند گھر سے باہر جائیگا تو اس کے مال کی اور اپنی ناموس کی حفاظت کرے گی۔ انسان کے لیے حقیقی سعادت تو یہ ہے کہ اسے ایمان کی دولت نصیب ہو اور وہ اعمال صالحہ پر کار بند ہو۔ دنیاوی سعادت کے متعلق مسند احمد شریف کی روایت میں آتا ہے۔ حضور ﷺ نے فرمایا۔ جس کو دنیا میں تین چیزیں حاصل ہوگئیں۔ وہ سعادت مند ہوگا۔ ان اشیاء میں پہلا نمبر المراۃ الصالحۃ یعنی نیک عورت کا ہے۔ اس کے بعد رہنے کے لیے اچھا مکان اور سفر کے لیے اچھی سواری۔ یہ تین چیزیں سعادت کی نشانی ہیں۔ ان کے بغیر انسان شقی سمجھا جائیگا۔ کثرت اولاد : جیسا کہ عرض کیا گیا ہے۔ عورت سے مقصود کثرت اولاد بھی ہے۔ جو کہ ملت اسلامیہ میں اضافہ کا باعث ہے۔ حضور ﷺ نے فرمایا انی مکاثر بکم الامم۔ میں کثرت اولاد پر فخر کروں گا بشرطیکہ وہ نیک ہو۔ علمائے کرام فرماتے ہیں۔ کہ کثرت دو طریقے سے ہوتی ہے۔ ایک صورت تو نسل میں زیادتی ہے ، جتنی زیادہ اولاد ہوگی ، اتنا ہی اچھا ہے۔ امت محمدی میں اضافہ ہوگا۔ اسی لیے اسلام نے تعدد ازواج کی بھی اجازت دی ہے۔ کثرت امت کی دوسری صورت تبلیغ دین ہے جس قدر لوگ حلقہ بگوش اسلام ہونگے ان کی تعداد بڑھتی چلی جائے گی۔ اور یہ چیز حضور ﷺ کے لیے باعث فخر ہوگی۔ ایک عام مسلمان کے لیے یہی چیز باعث ثواب اور ذریعہ نجات ہوگی۔ شاہ ولی اللہ حجۃ اللہ البالغہ میں فرماتے ہیں کہ۔ جو لوگ کثرت اولاد کے راستے کو بند کرنا چاہتے ہیں۔ وہ اللہ تعالیٰ کے جاری کردہ منصوبہ کا مقابلہ کرکے اس کے نزدیک ملعون ٹھہریں گے۔ چناچہ خاندانی منصوبہ بندی ، برتھ کنٹرول اور عائلی قوانین جیسے غیر فطری بند جہاں بھی باندھے جاتے ہیں سب ملعون ہیں۔ اللہ تعالیٰ تو اولاد میں کثرت چاہتا ہے۔ مگر یہ اس کی حکمت میں دخل اندازی کرتے ہیں۔ حدیث شریف میں آتا ہے۔ کہ اگر کوئی بچہ کم سنی میں فوت ہوگیا ، یا کچا حمل ضائع ہوگیا۔ تو یہ بچہ قیامت کے دن اپنے مومن والدین کے حق میں شفاعت کریگا۔ وہ ماں باپ کے دامن کو پکڑلے گا ، اور جہنم میں نہیں جانے دے گا۔ اللہ تعالیٰ کے ہاں ایسی سفارش کرے گا کہ والدین کو ساتھ لے کر جنت میں جائے گا۔ اور اگر بچہ جوان ہوگیا۔ تو والدین کے مرنے کے بعد ان کے لیے دعا کریگا ، اور نیک کام کرے گا تو باعث فخر ہوگا۔ لہذا ہر لحاظ سے اولاد کا ہونا باعث سعادت ہے۔ ترمذی شریف کی روایت میں آتا ہے کہ ایک عورت نے حضور ﷺ کی خدمت میں عرض کیا۔ حضور ! میرے تین چھوٹے بچے فوت ہوچکے ہیں۔ میرا کوئی زندہ بچہ نہیں ہے۔ آپ (علیہ السلام) نے ارشاد فرمایا لقد حضرت بخضار شدید۔ تو نے تو جہنم کے آگے بڑی شدید باڑھ لگا دی ہے۔ ان بچوں کی بدولت تو جہنم کی آگ سے بچ جائیگی۔ خرابی کی بنیاد : برخلاف اس کے اگر عورت کی محبت حد سے بڑھ جائے تو پھر یہی چیز انسان کی تباہی کا باعث بن سکتی ہے۔ تاریخ میں کتنے واقعات محفوظ ہیں۔ جن کا مرکزی کردار عورت تھی۔ اسی کی وجہ سے بڑی بڑی سازشیں پیدا ہوئیں بڑی بڑی سلطنتیں تباہ ہوگئیں۔ بےحیائی کو اس قدر ترقی حاصل ہوئی۔ کہ اب یورپ والے بھی کان پکڑتے ہیں۔ آج بیشتر گمراہی اور نیکی سے دوری عورت کی وجہ سے ہے۔ اور اس کے ذمہ دار خود مرد ہیں جو عورت کو ہر میدان میں گھسیٹ لائے۔ ان کی رسائی تعلیمی اداروں تعلیمی اداروں تک تو درست تھی کہ بچیوں کو زیور تعلیم سے آراستہ کریں اور پردے اور شرافت کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑیں مگر جب یہی عورتیں دکانوں کی زینت بن گئیں ، دفتروں اور ہسپتالوں میں پہنچ گئیں ہوائی جہازوں میں ائرہوسٹس بن گئیں ، فوج میں بھرتی ہونے لگیں ، تو گمراہی کا ذریعہ بن گئیں۔ یہی کچھ انگریز نے کیا تھا۔ اور اب مشرق بھی مغرب کی تقلید میں بھاگا جا رہا ہے۔ حالانکہ حضور نبی کریم (علیہ السلام) کا فرمان ہے کہ عورت کو اس مقام پر رکھو جہاں اللہ نے اسے رکھا ہے نماز کے لیے عورت اگلی صف میں کھڑی نہیں ہوسکتی۔ اس کا مقام پچھلی صف حتی کہ بچوں سے بھی پیچھے ہے۔ عورت جس قدر عفت مآب ہوگی صاحب فضیلت اور صاحب کمال ہوگی۔ جوں جوں عریانی کے کاموں میں آگے بڑھے گی ، عورت عورت نہیں رہے کچھ اور چیز ہی بن جائیگی ۔ کھیل کے میدان میں عورت کو فٹ بال ، والی بال کرکٹ ، ہا کی وغیرہ کھلائی جا رہی ہے۔ مردوزن سب دیکھ رہے ہیں۔ خرابی نہیں آئیگی تو اور کیا ہوگا۔ مردوں کے خیالات پراگندہ ہوں گے۔ اور نتیجہ ظاہر ہے اس لیے اسباب ضلالت میں عورت کو پہلے نمبر پر رکھا گیا ہے۔ عورت کی نمائندگی : اب جمہوریت نے نیا گل کھلایا ہے۔ ہر سطح پر عورتوں کی نمائندگی بھی ضروری ہے۔ کہتے ہیں کہ مرد و زن ایک گاڑی کے دو پہیے ہیں۔ دونوں پہیوں کو برابر چلنا چاہئے ، ورنہ زندگی کی گاڑی جام ہو کر رہ جائے گی۔ لہذا مردوں کے ساتھ ساتھ عورتوں کو میونسپل کمیٹیوں کے ممبر بناؤ۔ صوبائی اور قومی اسمبلی میں نمائندگی۔ وزاررت و مشاورت کے قلمدان ان کے سپرد کرو۔ ان کے بغیر کام نہیں چل سکت۔ کس قدر گمراہی کی بات ہے۔ عورت سے مشورہ کرنے کی ممانعت نہیں۔ حضور ﷺ خود عورتوں کے مسائل میں اپنی عورتوں سے بات پوچھ لیتے تھے ، حضرت عمر ؓ مشورہ کرلیتے تھے ، مگر گھر میں ، اپنے مقام پر۔ مشورہ کے لیے اسمبلی اور مجلس مشاورت میں کھینچ لانا کہاں سے نکال لیا۔ حضور ﷺ نے فرمایا النساء حبالۃ الشیطن۔ یعنی عورتیں شیطان کا جال ہیں۔ انہی کے ذریعے شیطان لوگوں کو پھانستا ہے۔ اور پھر بڑے بڑے قبیح واقعات پیش آتے ہیں۔ بڑے بڑے سکینڈل بنتے ہیں۔ حتی کہ تاریخ کا رخ مڑ جاتا ہے۔ ترمذی شریف میں حضور خاتم النبیین ﷺ کا ارشاد گرامی ہے۔ اذا کان امراء کم خیارکم۔ جب تمہارے حکام پسندیدہ قسم کے لوگ ہوں۔ واغنیاء کم سمحاء کم۔ اور تمہارے دولت مندلوگ سخی ہوں۔ وامورکم شوری بینکم۔ اور تمہارے کام آپس میں مشورہ سے طے ہوں۔ فظہرالارض خیر لکممن طبنھا تو ایسی حالت میں تمہارا زمین کے اوپر رہنا زمین کے اندر چلے جانے سے بہتر ہے۔ نیز فرمایا اگر اس کا الٹ ہوجائے یعنی اذا کان امراء کم شرار کم۔ جب تمہارے حاکم شریر قسم کے لوگ ہوں۔ واغنیاء کم بخلاء کم اور تمہارے مالدار لوگ بخیل ہوجائیں و امورکم الی نساء کم۔ اور تمہارے معاملات عورتوں کے ذریعہ طے پائیں۔ تو پھر سمجھ لو۔ بطن الارض خیر الکم من ظھرہا ، تمہارے لیے زمین کے اندر چلے جانا زمین کے اوپر رہنے سے بہتر ہے۔ یعنی تمہارا مر جانا ہی بہتر ہے۔ ای لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ لوگوں کے لیے خواہشات (مرغوب چیزوں) کی محبت کو مزین کیا گیا ہے۔ اور ان خواہشات یا مرغوب چیزوں میں اول نمبر عورت کا ہے۔ 2 ۔ اولاد۔ انسان کی مرغوبات میں سے دوسری چیز فرمایا ۔ والبنین۔ یعنی اولاد ہے۔ اولاد کی محبت ایک خاص درجے تک فطری ہے۔ اور مال و اولاد کو دنیوی زندگی کے لیے زینت قرار دیا گیا ہے۔ المال والبنون زینۃ الحیوۃ الدنیا۔ مگر اللہ جل شانہ نے یہ بھی فرمایا۔ انما اموالکم واولادکم فنتۃ۔ یعنی تمہارے اموال اور اولاد میں سے تمہارے لیے فتنے کا باعث بھی ہیں۔ اولاد میں سے خصوصا بیٹیوں کے ساتھ محبت فطری امر ہے۔ انسان سمجھتا ہے کہ بیٹے کی وجہ سے اس کی نسل کا سلسلہ باقی رہے گا ، نیک ہوگا ، تو اس کا نام روشن ہوگا ، اس کے لیے باعث عزت ہوگا برخلاف اسکے اگر یہی اولاد خلاف توقع بری نکلے۔ اللہ کی حدود کو توڑ دے جائز اور ناجائز کا خیال نہ کرے ، فتنہ و فساد کا بازار گرم کرے ، تو انسان کے لیے سخت آزمائش کا باعث ہوگی ، اولاد کے ہاتھوں لوگ کس قدر تنگ آتے رہتے ہیں ، ہر روز اخباروں میں خبریں چھپتی ہیں۔ کہ والدین کے لیے نہ صرف بدنامی بلکہ ہلاکت کا سبب بھی بن جاتی ہے۔ بیٹا زبردستی باپ سے جائداد کا حصہ طلب کرتا ہے۔ جان سے مار دینے کی دھمکی دیتا ہے۔ قتل و اغواء کے مقدمات میں ملوث ہو کر بات کو ذلیل و خوار کردیتا ہے۔ والدین لاکھ کوشش کرتے ہیں کہ کسی طرح اولاد سنور جائے۔ اولاد کے لیے مال ، دولت ، مکان ، زمین ہر چیز مہیا کرنے کی کوشش کرتے ہیں خواہ انہیں ناجائز ذرائع ہی کیوں نہ اختیار کرنا پڑیں۔ مگر جب آزمائش آتی ہے تو یہی لاڈ پیار سے پالی ہوئی اولاد جان کی دشمن بن جاتی ہے۔ لہذا اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اولاد بھی فتنے اور گمراہی کے اسباب میں سے ایک سبب ہے۔ 3 ۔ مال و دولت : انسان کے لیے جو مرغوبات چیز مزین کی گئی ہیں ان میں سے تیسری چیز فرمایا والقناطیر المقنطرۃ من الذھب والفضۃ سونے چاندی کے جمع کیے ہوئے خزانے (ڈھیر مال) ہیں۔ یہ بھی انسان کے لیے گمراہی کا باعث بن سکتے ہیں۔ مال کی محبت بھی کسی حد تک فطری ہے۔ سورة عادیات میں فرمایا وانہ لحب الخیر لشدید انسان مال کی محبت میں بڑا پکا ہے۔ بلکہ فرمایا ھلوعا یعنی حریص اور بےصبرا بھی ہے۔ یہی محبت اگر حد سے تجاوز کرجائے تو گمراہی کا باعث بن کر باعث وبال ہوگی۔ قناطیر سے مراد بہت سارا مال ہے۔ عرب ایک لاکھ اشرفی یا درہم کو قناطیر کہتے تھے۔ مقصد یہ کہ یہ لفظ ڈھیر مال پر بولا جاتا ہے۔ اور اس کے حصول کے لیے انسان ہمیشہ سرگردان رہتا ہے۔ اس کے ذریعہ دنیا میں بھی آسائش ، عیش و آرام حاصل کرنا چاہتا ہے۔ اور گمان یہ کرتا ہے۔ ان مالہ اخلدہ ۔ کہ یہ مال اسے ہمیشہ حوادثات سے محفوظ رکھے گا۔ مگر ایسا نہیں ہوتا۔ جب مصیبت آتی ہے۔ تو مال و دولت کسی کام نہیں آتے پہلے گزر چکا ہے۔ لن تغنی عنھم اموالھم ولا اولادھم من اللہ شیئا۔ ان کے مال اور اولاد اللہ کے ہاں کچھ کام نہ آئیں گے۔ انسان مال کے حصول کے لیے کیسے کیسے ناجائز حربے اختیار کرتا ہے رشوت چوری ، ڈاکہ ، جوا ، چور بازاری غرض کیا کچھ نہیں کیا جاتا۔ مگر بسا اوقات یہ مال اس دنیا میں بھی کام نہیں آتا۔ تو اللہ کے ہاں تو یہ بجائے خود وبال جان بن جائے گا۔ اسی لیے فرمایا کہ گمراہی کے اسباب میں سے مال بھی ایک ہے۔ 4 ۔ گھوڑے اور مویشی : چوتھی چیز فرمایا والخیل المسومۃ والانعام۔ نشان زدہ گھوڑے یعنی خوب پالے پوسے اور طاقتور گھوڑے اور دیگر مال ڈنگ مویشی بھی اسباب ضلالت میں سے ہیں۔ یہ بھی انسان کی مرغوب اشیاء میں سے ہیں۔ انسان ان سے خوب نفع حاصل کرتا ہے۔ گائے بھینس ، بھیڑ ، بکر ، اونٹ وغیرہ سے دودھ حاصل کرتا ہے۔ اور ان کا گوشت کھاتا ہے۔ ان سے سواری اور بار برداری کا کام بھی لیتا ہے۔ یہ انسان کی اچھی خاصی جائداد ہوتی ہے۔ اور ان سے محبت بھی فطری ہے۔ تاہم اگر کوئی شخص ان کی محبت میں اس قدر غرق ہوجائے کہ ان کی دیکھ بھال میں نمازوں کی پروا نہ کرے۔ دیگر نیکی کے کاموں کی طرف توجہ ہی نہ دے سکے۔ گویا اخذتم باذناب البقر گائے بیل کی دم پکڑ کر بیٹھا رہے۔ تو یہی مال انسان کے لیے گمراہی کا سبب بن جائے گا۔ لہذا اس سے بھی خبردار کیا گیا ہے۔ 5 ۔ کھیتی : فرمایا اسباب ضلالت میں سے والحرث بھی ایک ہے۔ انسان کھیتی باڑی کے کام میں مصروف ہو کر بھی فرائض سے غافل ہوجاتا ہے جس کی وجہ سے یہی چیز اس کے لیے فتنہ بن جاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے تو فرمایا تھا ذلک متاع الحیوۃ الدنیا۔ یہ چیزیں تو دنیا کی زندگی میں فائدہ حاصل کرنے کا ذریعہ ہیں۔ مگر اصل مقصود تو آخرت کی زندگی ہے۔ اگر ان اشیاء کی محبت میں آخرت سے غافل ہوگیا۔ تو سخت خسارے کا سودا کیا ۔ قیامت کے دن خالی ہاتھ ہوگا۔ یہ تمام لوازمات اسی مادی زندگی تک محدود ہیں۔ یہ چیزیں اس زندگی کے ساتھ ہی ختم ہوجائیں گی۔ اور پھر آخرت کی زندگی شروع ہوگی۔ انسان کو عبرت دلائی گئی ہے کہ اس آئندہ زندگی کے لیے کوئی سامان پیدا کرے۔ کیونکہ اصل زندگی وہی ہے۔ واللہ عندہ حسن المآب اصل اور بہترین ٹھکانا تو مالک الملک کے پاس ہے۔ اور اس کے حصول کے لیے ، انسان کو ایمان اور اعمال صالحہ کی فکر کرنا چاہئے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ مرغوباتِ دنیا میں مبتلا ہو کر ایمان کی دولت سے محروم ہوجائے۔ اور پھر اس دنیا سے خالی ہاتھ جانا پڑے یہ سخت گھاٹے کا سودا ہوگا۔ متقین کے لیے انعام : جب حب الشہوات والی آیت نازل ہوئی۔ تو حضرت عمر فاروق نے اللہ کے حضور دعا کی۔ کہ مولا کریم ! کہ گمراہی کے ان اسباب کے پیش نظر ہمیں کیا کرنا چاہئے۔ تو اس کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا قل۔ اے پیغمبر (علیہ السلام) ان کو فرما دیجئے۔ اونبئکم بخیر من ذلکم۔ کیا میں تمہیں ان تمام مرغوبات سے بہتر چیز نہ بتاؤں۔ للذین اتقوا۔ ان لوگوں کے لیے جو اللہ سے ڈرتے رہے۔ ان کی طبیعتوں میں خوف خدا قائم رہا ہے۔ اور وہ کفر ، شرک ، نفاق اور برائی سے بچتے رہے۔ فرمایا عند ربھم جنت۔ ان کے رب کے ہاں باغات ہیں۔ تجری من تحتہا الانہار۔ جن کے سامنے نہریں بہتی ہیں ، خلدین فیھا۔ مومن لوگ ہمیشہ باغات میں رہیں گے۔ وہاں سے نکالے جانے کا انہیں کوئی کھٹکا نہیں ہوگا۔ یہ باغات دنیا کی ان مرغوب اشیاء سے کہیں بہتر ہیں۔ اور پھر یہ صرف باغات ہی نہیں ہوں گے بلکہ تقوی اختیار کرنے والوں کے لیے وہاں وازواج مطہرۃ پاکیزہ بیویاں ہوں گی۔ جو ہر قسم کی جسمانی و روحانی غلاظت سے پاک ہوں گی۔ اس دنیا کی بہترین عورتیں بھی ان کی طہارت کا مقابلہ نہیں کرسکیں گی۔ فرمایا اس کے علاوہ جنتیوں کو ، و رضوان من اللہ ، اللہ تعالیٰ کی خوشنودی حاصل ہوگی۔ جو سب سے بڑی نعمت ہوگی۔ جب لوگ دوزخ سے نکل کر جنت میں داخل ہوجائیں گے۔ اور انہیں ہر نعمت حاصل ہوجائے گی ، تو اللہ کریم ان سے فرمائیں گے ، کیا میں تمہیں کچھ اور زیادہ نہ دوں۔ وہ لوگ حیران ہوں گے۔ اور کہیں گے یا الٰہی ! ہم جنت میں پہنچ گئے ، کامیاب ہوگئے۔ ہر طرح کی نعمتیں حاصل ہوگئیں۔ اب اور کیا ملے گا۔ تو اللہ تعالیٰ فرمائیں گے۔ احل علیکم رضوانی۔ میں اپنی خوشنودی اور رضا تم کو دیتا ہوں۔ فلا اسخط علیکم بعدہ ابدا۔ اب آج کے بعد کبھی تم سے ناراض نہیں ہوں گا۔ گویا اللہ تعالیٰ جنتیوں سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے راضی ہوجائے گا۔ یہ انسان کی ابدی فلاح ہوگی۔ فرمایا واللہ بصیر بالعباد۔ اللہ تعالیٰ تمام بندوں کے حالات کو نگاہ میں رکھتا ہے۔ وہ جانتا ہے کہ کون کیا کر رہا ہے۔ اور کون کس برائی میں مبتلا ہے۔ لہذا اس کی گرفت سے کوئی شخص نہیں بچ سکتا۔ وہ یہ بھی جانتا ہے کہ کون ایماندار ہے اور اعمال صالحہ کر رہا ہے۔ ایسے لوگوں کے لیے اس کے ہاں صلے کی کمی نہیں ہے وہ انہیں آخرت میں بہترین ابدی زندگی عطا کرے گا۔
Top