Dure-Mansoor - Faatir : 28
وَ مِنَ النَّاسِ وَ الدَّوَآبِّ وَ الْاَنْعَامِ مُخْتَلِفٌ اَلْوَانُهٗ كَذٰلِكَ١ؕ اِنَّمَا یَخْشَى اللّٰهَ مِنْ عِبَادِهِ الْعُلَمٰٓؤُا١ؕ اِنَّ اللّٰهَ عَزِیْزٌ غَفُوْرٌ
وَمِنَ النَّاسِ : اور لوگوں سے۔ میں وَالدَّوَآبِّ : اور جانور (جمع) وَالْاَنْعَامِ : اور چوپائے مُخْتَلِفٌ : مختلف اَلْوَانُهٗ : ان کے رنگ كَذٰلِكَ ۭ : اسی طرح اِنَّمَا : اس کے سوا نہیں يَخْشَى : ڈرتے ہیں اللّٰهَ : اللہ مِنْ : سے عِبَادِهِ : اس کے بندے الْعُلَمٰٓؤُا ۭ : علم والے اِنَّ اللّٰهَ : بیشک اللہ عَزِيْزٌ : غالب غَفُوْرٌ : بخشنے والا
اور انسانوں میں اور چوپایوں میں اور جانوروں میں ایسے ہیں جن کے رنگ مختلف ہیں، اسی طرح اللہ سے وہی بندے ڈرتے ہیں جو علم والے ہیں، بیشک اللہ تعالیٰ غلبہ والا ہے بخشنے والا ہے۔
(آیت) ” ومن الناس والدوآب والانعام “ یعنی اسی طرح لوگوں جانوروں چوپائیوں کے رنگ مختلف ہیں جس طرح پہاڑوں کے مختلف رنگ ہیں پھر فرمایا (آیت) ” انما یخشی اللہ من عبادہ العلموا “ (بلاشبہ اس کے بندوں میں سے علمایء ہی اللہ سے ڈرتے ہیں) اس سے پہلے جن چیزوں کا ذکر کیا گیا ہے اس میں کوئی فضیلت نہیں۔ اللہ تعالیٰ کے خوف کے اعتبار سے لوگ مختلف ہیں : 9:۔ ابن المنذر نے ابن جریج (رح) سے روایت کیا کہ (آیت) ” ومن الجبال جدد بیض “ اس کے راستے مختلف ہیں جس طرح ان کا ذکر کیا گیا ہے لوگوں کے اسی طرح لوگوں جانوروں اور چوپائیوں کے رنگ مختلف ہیں جس طرح یہ جانور مختلف ہیں اسی طرح اللہ کے ڈرنے کے بارے میں بھی لوگ مختلف ہیں۔ 10:۔ ابن ابی حاتم نے سعید بن جبیر ؓ سے روایت کیا کہ اللہ سے ڈرنے ایمان لانے اور اطاعت میں مختلف ہیں۔ جیسے رنگوں میں مختلف ہیں۔ 11:۔ ابن المنذر نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ (آیت) ” انما یخشی اللہ من عبادہ العلموا “ یعنی اللہ تعالیٰ کے بارے میں علم رکھنے والے ہی اس سے ڈرتے ہیں۔ 12:۔ ابن جریر وابن المنذر وابن ابی حاتم نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ (آیت) ” انما یخشی اللہ من عبادہ العلموا “ میں ” العلماء “ سے مراد وہ لوگ ہیں جو یہ جانتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے۔ 13:۔ ابن ابی حاتم وابن عدی نے ابن مسعود ؓ سے روایت کیا کہ علم کثرت حدیث سے نہیں ہوتا بلکہ علم اللہ تعالیٰ کے ڈر سے ہوتا ہے۔ 14:۔ ابن المنذر نے یحییٰ بن ابی کثیر (رح) سے روایت کیا کہ عالم وہ ہے جو اللہ سے ڈرتا ہے۔ 15:۔ عبد بن حمید وابن ابی حاتم نے صالح ابوخلیل (رح) سے (آیت) ” انما یخشی اللہ من عبادہ العلموا “ کے بارے میں روایت کیا کہ لوگوں میں جو اللہ کے بارے میں زیادہ علم رکھتا ہو وہی اس سے زیادہ ڈرنے والا ہوتا ہے۔ 16:۔ ابن ابی حاتم نے سفیان کے طریق سے ابو حبان تیمی (رح) سے اور انہوں نے ایک آدمی سے روایت کیا کہ کہا جاتا ہے علماء تین قسم کے ہیں۔ ایک عالم باللہ ہے (یعنی اللہ کی ذات کو جاننے والا) اور دوسرا عالم بامر اللہ (یعنی اللہ کے امر کو جاننے والا) اور تیسرا اللہ تعالیٰ جاننے والا ہوتا ہے مگر اللہ تعالیٰ کے امر کو نہیں جانتا اللہ تعالیٰ کے امر کو جاننے والا ہے مگر اللہ تعالیٰ کو نہیں جانتا جو اللہ تعالیٰ کی ذات کو جانتا ہے مگر اللہ تعالیٰ کے امر کو نہیں جانتا وہ وہ ہے جو اللہ تعالیٰ سے ڈرتا ہے حدود فرائض کو نہیں جانتا اللہ تعالیٰ کے امر کو جاننے والا مگر اللہ تعالیٰ کو نہیں جانتا وہ وہ ہے جو حدود فرائض کو جانتا ہے اور اللہ تعالیٰ سے نہیں ڈرتا۔ 17:۔ ابن ابی حاتم وابن عدی نے مالک بن انس (رح) سے روایت کیا کہ علم کثرت روایت کا نام ہے بلاشبہ علم وہ نور ہے جو اللہ تعالیٰ دل میں ڈالتا ہے۔ بن دیکھے اللہ تعالیٰ سے ڈرنا : 18:۔ عبد بن حمید وابن ابی حاتم نے حسن (رح) سے روایت کیا کہ ایمان اللہ تعالیٰ کو بغیر دیکھے ڈرنے کا نام ہے اور ان چیزوں میں رغبت کرے جن چیزوں کی اللہ تعالیٰ نے رغبت دلائی اور ان چیزوں سے دور رہے جن پر اللہ ناراض ہوتے ہیں پھر یہ آیت تلاوت کی (آیت) ” انما یخشی اللہ من عبادہ العلموا “ 19:۔ عبد بن حمید نے مسروق (رح) سے روایت کیا کہ انسان کے لئے اتنا علم کافی ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ سے ڈرے اور کسی آدمی کے جاہل ہونے کے لئے یہ کافی ہے کہ وہ اپنے عمل پر فخر کا اظہار کرے۔ 20:۔ ابن ابی شیبہ واحمد فی الزھد وعبد بن حمید والطبرانی نے ابن مسعود ؓ سے روایت کیا کہ اللہ تعالیٰ سے ڈرنا اتنا علم ہی کافی ہے انسان کا اپنے عمل سے دھوکہ کھانا اتنی جہالت ہی کافی ہے۔ 21:۔ ابن ابی شیبہ وعبد بن حمید نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ فقیہ وہ ہے جو اللہ سے ڈرتا ہے۔ 22:۔ ابن ابی شیبہ واحمد نے الزھد میں حضرت عباس ؓ سے روایت کیا کہ مجھ کو یہ بات پہنچی ہے کہ داؤد (علیہ السلام) نے یوں دعا فرمائی (اے اللہ) تیری ذات پاک ہے آپ اپنے عرش پر متمکن ہیں تو نے اپنی حیثیت اس پر لازم کردی۔ جو آسمانوں اور زمین میں ہے اور تیری مخلوق میں سے تیری طرف سب سے زیادہ قریب وہ ہے جو ان میں سے تجھ سے زیادہ ڈرنے والا ہے اور وہ عالم نہیں جو تجھ سے نہیں ڈرتا اور اس میں کوئی دانائی نہیں جو تیرے حکم کی اطاعت نہیں کرتا۔ 23:۔ احمد نے الزھد میں ابن مسعود ؓ سے روایت کیا کہ علم کثرت روایت کا نام نہیں لیکن علم ڈرنے کا نام ہے۔ 24:۔ ابن ابی شیبہ والترمذی اور حاتم نے حسن ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا علم کی دو قسمیں ہیں ایک علم جو دل میں ہے۔ اور وہ نفع دینے والا علم ہے اور دوسرا علم زبان پر ہے اور وہ اللہ کی دلیل ہے اس کی مخلوق پر۔ 25:۔ ابن ابی شیبہ نے حذیفہ ؓ سے روایت کیا کہ انسان کے لئے اتنا علم ہی کافی ہے جو اللہ تعالیٰ سے ڈرے۔ 26:۔ ابن ابی شیبہ نے عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت کیا کہ حامل قرآن کو چاہئے کہ وہ شب بیداری سے پہچانا جائے جب لوگ سو رہے ہوں اور وہ روزہ سے پہچانا جائے جب لوگ روزہ افطار کررہے ہوں اور اپنے غم سے پہچانا جائے جب لوگ خوش ہو رہے ہوں اور اپنے رونے کے ساتھ پہچانا جائے جب لوگ ہنس رہے ہوں اور اپنی خاموشی کے ساتھ پہچانا جائے جب وہ آپس میں باتیں کررہے ہوں اور وہ عاجزی سے پہچانا جائے جب لوگ تکبر کررہے ہوں اور حامل قرآن کو چاہئے کہ وہ شور مچانے والا چیخنے والا اور تیز طیبعت والا نہ ہو۔ 27:۔ الخطیب نے المتفق والمفترق میں وھب بن منبہ (رح) سے روایت کیا کہ میں عکرمہ کے ساتھ آیا اور میں ابن عباس کی رہبری کررہا تھا جبکہ آپ کی بینائی ختم ہوچکی تھی یہاں تک کہ آپ مسجد حرام میں داخل ہوگئے اچانک کچھ لوگ آپس میں جھگڑا کررہے تھے۔ اپنے حلقے میں بنو شیبہ کے دروازے کے پاس ابن عباس نے فرمایا ان جھگڑا کرنے والوں کے حلقہ کی طرف مجھے لے جاؤ میں آپ لے کر چلا یہاں تک میں میں ان کے پاس آگیا آپ نے ان کو سلام کیا انہوں نے ارادہ کیا کہ آپ ان کے ساتھ بیٹھو مگر آپ نے انکار کر کیا اور فرمایا مجھے اپنا نسب بتاؤ تاکہ میں تم کو پہچان لوں تو انہوں نے ان کی طرف اپنی نسبت ظاہر کی تو فرمایا کیا تم جانتے ہو کہ اللہ تعالیٰ کے ایسے بندے ہیں کہ ان کو اللہ کے خوف نے خاموش کردیا جبکہ وہ (بولنے سے) عاجز نہ تھے اور نہ گونگے تھے (محض اللہ کے خوف سے خاموش ہوگئے) حالانکہ ان کے عمدہ کلام کرنے والے، خوب بولنے والے، شرفا اور اللہ کے ایام کے عالم تھے۔ سوائے اس کے کہ جب انہوں نے اللہ عظمت کا ذکر کیا تو اس سے ان کی عقلیں بےبس ہوگئیں اور ان کے دل ٹوٹ گئے اور ان کی زبانیں بولنے سے رہ گئین جب وہ ان کیفیات سے سنبھلے تو انہوں نے اللہ کی طرف پاکیزہ اعمال کے ساتھ جلدی کی تمہارا ان سے کیا تعلق ؟ پھر آپ ان سے واپس ہوگئے پھر اس کے بعد دو آدمی بھی بیٹھے نہ دکھائی دیئے۔ 28:۔ الخطیب نے ایضا سعید بن المسیب (رح) سے روایت کیا کہ عمر بن خطاب ؓ نے اٹھارہ کلمات مرتب کئے لوگوں کے لئے جو سب کی سب حکمت کی باتیں تھیں جس نے تیرے بارے میں اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کی اس کے بارے میں تو اگر اللہ تعالیٰ کی اتنی ہی اطاعت کی تو تو نے اسے سزا نہیں دی۔ اپنے بھائی کے معاملہ میں اچھی تعبیر کی۔ یہاں تک کہ اس کی طرف سے ایسا فعل صادر ہو جو تجھ پر غالب آجائے اور ایس بات کو برا گمان نہ کر جو کسی مسلمان کے فتنہ سے نکلی ہے جب تک تو اس کے لئے اچھا محل پاتا ہے۔ اور جس نے اپنے آپ کو تہمت کے لئے پیش کردیا تو اس پر ملامت نہ کر جو آدمی اس کے بارے میں براگمان رکھتا ہے جو آدمی اپنا راز چھپائے رکھتا ہے تو بھلائی اس کے ہاتھ میں رہتی ہے سچے لوگوں کے ساتھ رہو ان کے پڑوس میں زندگی بسر کرو کیونکہ وہ لوگ خوشحالی میں زینت کا باعث ہوتے ہیں اور مصیبت میں سہارے کا باعث ہوتے ہیں اور سچ کو لازم پکڑو۔ اگرچہ وہ تجھ کو قتل کردیں ایسے کام کی طرف توجہ نہ کرو جو بےفائدہ ہو اور سوال نہ کر ایسی چیز کے بارے میں جو (موجود) نہ ہو۔ کیونکہ جو چیز موجود ہے اس میں مشغولیت ہے نہ کر جو چیز موجود نہیں اس سے اپنی حاجت طلب نہ کرو جو اس کا پانا تیرے لئے پسند نہیں کرتا۔ اور نہ ہلکا سمجھ جھوٹی قسم کو کہ اللہ تعالیٰ تجھ کو ہلاک کردے گا اور برے لوگوں کی صحبت اختیار نہ کر تاکہ وہ ان کی فسق وفجور کو جان لے اور اپنے دشمن سے دور رہ اور اپنے دوست سے ڈر مگر جو امین ہو اور کوئی امین نہیں ہے مگر جو اللہ سے ڈرتا ہے اور قبروں کے پاس عاجزی اختیار کر اور اطاعت کے وقت انکساری اختیار کر اور معصیت کے وقت اللہ تعالیٰ سے عصمت کو طلب کر اور جو لوگ اللہ سے ڈرتے ہیں ان سے مشورہ طلب کر کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں۔ (آیت) ” انما یخشی اللہ من عبادہ العلموا “ عالم کی فضیلت عابد پر : 29:۔ عبد بن حمید نے مکحول ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ سے سوال کیا گیا عالم اور عابد کے بارے میں تو آپ نے فرمایا عالم کی فضیلت عابد پر ایسی ہے جیسے میری فضیلت تم میں سے ادنی آدمی پر پھر نبی کریم ﷺ نے یہ آیت (آیت) ” انما یخشی اللہ من عبادہ العلموا “ تلاوت فرمائی پھر فرمایا کہ بلاشبہ اللہ تعالیٰ اس کے فرشتے آسمان والے اور زمین والے اور مچھلیاں سمندر میں خیر کے سکھانے والوں پر رحمت کی دعا بھیجتے ہیں۔
Top