Al-Qurtubi - Faatir : 28
وَ مِنَ النَّاسِ وَ الدَّوَآبِّ وَ الْاَنْعَامِ مُخْتَلِفٌ اَلْوَانُهٗ كَذٰلِكَ١ؕ اِنَّمَا یَخْشَى اللّٰهَ مِنْ عِبَادِهِ الْعُلَمٰٓؤُا١ؕ اِنَّ اللّٰهَ عَزِیْزٌ غَفُوْرٌ
وَمِنَ النَّاسِ : اور لوگوں سے۔ میں وَالدَّوَآبِّ : اور جانور (جمع) وَالْاَنْعَامِ : اور چوپائے مُخْتَلِفٌ : مختلف اَلْوَانُهٗ : ان کے رنگ كَذٰلِكَ ۭ : اسی طرح اِنَّمَا : اس کے سوا نہیں يَخْشَى : ڈرتے ہیں اللّٰهَ : اللہ مِنْ : سے عِبَادِهِ : اس کے بندے الْعُلَمٰٓؤُا ۭ : علم والے اِنَّ اللّٰهَ : بیشک اللہ عَزِيْزٌ : غالب غَفُوْرٌ : بخشنے والا
انسانوں اور جانوروں اور چارپایوں کے بھی کئی طرح کے رنگ ہیں خدا سے تو اس کے بندوں میں سے وہی ڈرتے ہیں جو صاحب علم ہیں بیشک خدا غالب (اور) بخشنے والا ہے
آیت : ومنالناس والدوآب اسے والدواب تخفیف کے ساتھ بھی پڑھا گیا ہے اس تخفیف کی نظیر اس کی قراءت ہے جس نے پڑھا ولا الضالین کیونکہ ان میں سے ہر ایک اجتماع ساکنین سے بھا گا ہے۔ ولا الضالین میں اس نے پہلے ساکن یعنی الف کو حرکت دی اور والدواب میں اس نے دوسری باء کو حذف کردیا (3) ( تفسیرا لکشاف، جلد 3، صفحہ 610) ؛ یہ زمحشری کا قول ہے۔ آیت : والانعام مختلف الوانہ یعنی ان میں سرخ، سفید، سیاہ وغیرہ ہیں (4) (ایضا) ۔ ان میں سے ہر ایک صانع پر دال ہے جو مختار ہے۔ فرمایا : آیت : مختلف الوانہ من کی رعایت کرتے ہوئے ضمیر کو مذکر ذکر کیا ہے ؛ یہ مورج کا قول ہے۔ ابوبکر بن عیاش نے کہا : ضمیر مذکر ذکر کی کیونکہ یہ مام ضمرہ کی طرف منسوب ہے، تقدیر کلام یہ ہوگی ومنالناس امن الدواب، ومن الانعام ماھو مختلف الوانہ لوگوں، چوپائو اور جانوروں میں سے مختلف رنگوں کے ہیں، یعنی کچھ سفید، کچھ سرخ، کچھ سیاہ۔ آیت : وغیرابیب سود ابو عبید نے کہا : غربیب سے مراد سخت سیاہ ہے، کلام میں تقدیم و تاخیر ہے معنی ہے پہاڑوں میں سے سخت سیاہ ہیں۔ عرب شدید سیاہ چیز جس کا رنگ کوے کے رنگ جیسا ہو (5) (تفسیر الماوردی، جلد 4، صفحہ 471) اس بارے میں کہتے ہیں : اسو غربیب۔ جوہری نے کہا : تو کہتا ہے : ھذا اسود غربیب یہ سخت سیاہ ہے، جب تو کہے : غرابیب سود تو تو سود کو غرابیب سے بدل بنائے گا، کیونکہ رنگوں کی تاکید متقدم نہیں ہوتی۔ حدیث طیبہ میں ہے : ان اللہ یبغض الشیخ الغربیب (6) (ایضا) اللہ تعالیٰ اس بوڑھے کو ناپسند کرتا ہے جو سیاہ رنگ کا خضاب لگاتا ہے۔ امرء القیس نے کہا : العینطامحۃ والید سابحۃ والرجللافحۃ والوجۃ غربیب (1) (تفسیر الماوردی، جلد 4، صفحہ 471) نظر اٹھی ہوئی، اگلا پائوں تیر رہا ہے اور پائوں تیزی سے حرکت کر رہا ہے اور چہرہ سیاہ ہے۔ ایک اور شاعر کرم کی تعریف کرتا ہے : ومن تعاجیب خلق اللہ غاطیۃ یعصرمنھاملا حیوغربیب اللہ تعالیٰ کی مخلوق میں سے عجوبہ روز گار وہ درخت ہے جس کی شاخیں لمبی ہیں جس سے سفید اور سیاہ رس نچوڑا جاتا ہے۔ محل استدلال غربیب ہے۔ آیت : کذلک یہاں کلام مکمل ہوجاتی ہے یعنی اس طرح خشیت میں بندوں کے احوال مختلف ہوتے ہیں۔ پھر نئے سرے سے کلام کی اور فرمایا : آیت : انما یخشی اللہ من عبادہ العلموا ان اللہ عزیز غفور یعنی وہ علماء جو اللہ تعالیٰ کی قدرات ڈرتے ہیں جس آدی کو علم ہوا للہ تعالیٰ قدیر ہے تو اسے یقین ہوگا کہ وہ مصیت پر سزا دینے پر قادر ہے (2) (ایضا ) ، جس طرح علی بن ابی طلحہ نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت نقل کی ہے کہ یہاں علما سے مراد ہے جو یہ جانتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہر شے پر قادر ہے۔ ربیع سے انس نے کہا : جو اللہ تعالیٰ سے نہیں ڈرتا وہ عالم نہیں (3) ( زاد المسیر، جز 6، صفحہ 263 ) ۔ مجاہد نے کہا : بیشک علم وہ ہے جو اللہ تعالیٰ سے ڈرتا ہے۔ حضرت ابن مسعود ؓ سے مروی ہے : اللہ تعالیی کی خشیت کے لیے علم کافی ہے اور دھوکہ کھانے کے لیے جہالت کافی ہے۔ سعد بن ابراہیم سے کہا گیا : اہل مدینہ میں سے کون سب سے زیادہ فقیہ ہے (4) (سنن داری، جلد 1، صفحہ 76) ؟ فرمایا : جو ان میں سے سب سے زیادہ اللہ تعالیٰ سے ڈرنے والا ہو۔ مجاہد سے مروی ہے : فقیہ وہ ہے جو اللہ تعالیٰ سے ڈرتا ہے (5) (ایضا، حدیث نمبر 302) ۔ حضرات علی شیر خدا ؓ سے مروی ہے کہ حقیقی فقیہ وہ ہے جو لوگوں کو اللہ تعالیی کی رحمت سے مایوس نہیں کرتا، اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کی رخصت نہیں دیتا، انہیں اللہ تعالیٰ کے عذاب سے بےخوف نہیں کرتا اور قرآن چھوڑ کر کسی اور چیز میں رغبت نہیں کرتا۔ ایسی عبادت میں کوئی بھلائی نہیں جس میں علم نہ ہو۔ وہ علم علم نہیں جس میں فقہ نہ ہو، وہ قراءت قراءت نہیں جس میں تدبر نہ ہو (6) (ایضا، حدیث نمبر 303) ۔ داری ابو محمد نے مکحول سے رویت نقل کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا :ـ” عالم کی عابد پر فضیلت اس طرح ہے جس طرح میری فضیلت تم میں سے ادنی آدی پر ہے (7) (ایضا، صفحہ 75، حدیث نمبر 295) ، پھر اس آیت کی تلاوت کی : آیت : انما یخشی اللہ من عبادہ بیشک اللہ تعالیٰ اس کے فرشتے، اہل آسمان، اہل زمین اور سمندر میں مچھلیاں ان لوگوں پر درود پڑھتے ہیں جو لوگوں کو بھلائی کی تعلیم دیتے ہیں “۔ خبر مرسل ہے (8) ( جامع ترمذی، باب ما جاء فی الفضل الفقہ، حدیث نمبر 2609، ضیاء القرآن پبلی کیشنز ) ۔ داری نے کہا : ابو نعمان، حماد بن زید سے وہ یزید بن حازم سے وہ اپنے چچا جر یر بن زید سے وہ تبیع سے وہ حضرت کعب سے روایت نقل کرتے ہیں۔ میں ایسی قوم کی صفت پاتا ہوں جو عمل کے بغیر علم حاصل کرتے ہیں (1) ( سنن دارمی، صفحہ 77، حدیث نمبر 305) ، عبا دت کے بغیر تفقہ حاصل کرتے ہیں، آخرت کے عمل کے ساتھ دنیا طلب کرتے ہیں، وہ بھیڑوں کی جلد پہنتے ہیں جب کہ ان کے دل مصبر سے زیادہ کڑوے ہوتے ہیں وہ میری وجہ سے دھوکہ کھاتے ہیں اور میرے ساتھ دھوکہ کرتے ہیں، میں نے قسم اٹھا رکھی ہے میں ان کے لیے ایسا فتنہ مقدر کروں گا جو حلیم کو ان میں حیران و پریشان چھوڑے گا۔ امام ترمذی نے اسے ابو درداء سے مرفوع روایت کیا ہے ہم نے اسے کتاب کے مقدمہ میں لکھا ہے۔ زمحشری نے کہا : اگر تو کہے جو آدمی اس آیت میں لفظ اللہ پر رفع اور العلماء پر نصب پڑھتا ہے تو اس کی کیا تو جیہ ہو سکتی ہے (2) ْ ( تفسیر الکشاف، جلد 3، صفحہ 611) ؟ وہ قراءت کرنے والے حضرت عمر بن عبد العزیز ہیں، امام ابوحنیفہ سے بھی یہ قراءت بیان کی جاتی ہے۔ میں اس کا جواب دوں گا : اس قراءت میں خشیتہ، استعارہ ہے معنی ہے اللہ تعالیٰ سب لوگوں کے سامنے ان کی عزت برھائے گا، ان کو تعظیم عطا فرمائے گا جس طرح لوگوں میں سے اس کی عزت کی جاتی ہے جس سے ڈرا جاتا ہے۔ آیت : ان اللہ عزیز غفور یہ خشیتہ کے وجوب کی علت ہے، کیونکہ یہ نافرمانوں کی سزا اور ان کے قہر پر دلیل ہے۔ اور جو اہل طاعت ہیں ان کو اللہ تعالیٰ بدلہ عطا فرمائے گا، ان کو معاف کر دے گا جو سزا دے اور بدلہ دے اس کا حق ہے کہ اس سے ڈرا جائے۔
Top