Urwatul-Wusqaa - Faatir : 28
وَ مِنَ النَّاسِ وَ الدَّوَآبِّ وَ الْاَنْعَامِ مُخْتَلِفٌ اَلْوَانُهٗ كَذٰلِكَ١ؕ اِنَّمَا یَخْشَى اللّٰهَ مِنْ عِبَادِهِ الْعُلَمٰٓؤُا١ؕ اِنَّ اللّٰهَ عَزِیْزٌ غَفُوْرٌ
وَمِنَ النَّاسِ : اور لوگوں سے۔ میں وَالدَّوَآبِّ : اور جانور (جمع) وَالْاَنْعَامِ : اور چوپائے مُخْتَلِفٌ : مختلف اَلْوَانُهٗ : ان کے رنگ كَذٰلِكَ ۭ : اسی طرح اِنَّمَا : اس کے سوا نہیں يَخْشَى : ڈرتے ہیں اللّٰهَ : اللہ مِنْ : سے عِبَادِهِ : اس کے بندے الْعُلَمٰٓؤُا ۭ : علم والے اِنَّ اللّٰهَ : بیشک اللہ عَزِيْزٌ : غالب غَفُوْرٌ : بخشنے والا
اور اس طرح انسانوں ، جانوروں اور چوپایوں میں بھی مختلف رنگ (ہوتے) ہیں ، بلاشبہ اللہ سے تو اس کے بندوں میں سے علم والے (صاحب بصیرت) ہی ڈرتے ہیں ، بلاشبہ اللہ غالب ہے بخشنے والا
انسانوں ، جانوروں اور چارپایوں کی مختلف رنگتوں کا بیان 28 ۔ قدرت کی نیر نگیوں اور قدرت آفرینیوں کا باب گنتی کی چند چیزوں کو شمار کرکے بند نہیں کیا جاسکتا کشادہ عقل کے لوگ اس کشادگی پر غور کریں جو اللہ تعالیٰ نے اس دھرتی ، اس فضا اور ان بلندیوں میں رکھی ہے تو ان کی عقل تھک جائے لیکن اس خالق کی مخلوق نہ گنی جاسکتی ہے اور نہ ہی نظروں میں پھرائی جاسکتی ہے اس مخلوق خداوندی سے ان ہی چیزوں کا نام لیا جاتا ہے جو ہر وقت انسان کی آنکھوں کے سامنے رہتی ہیں تاکہ اس کی سوچ بچار مخلوق ہی میں نہ الجھی رہے اور وہ اس کی تلاش میں اپنی عقلی صلاحیتوں کو ختم کرتا رہے بلکہ اس خالق کی طرف دھیان کرے جس خالق نے اس مخلوق کو بنایا ہے اس لئے زیر نظر آیت میں انسانوں ، چارپایوں اور جانوروں کا ذکر کرکے توحید الٰہی کی دلیل بیان کی گئی ہے کہ ان تینوں چیزوں پر غور کرو کہ ان میں مختلف رنگتیں اس طرح آراستہ پیراستہ کررہی ہیں کہ دل ان کی طرف خود بخود کھنچے جاتے ہیں اور بعض اوقات تو دلوں پر قابو پانا ہی مشکل ہوجاتا ہے اور آنکھیں ہزار بار دیکھنے کے باوجود سیر نہیں ہوتیں اور ان کی ایک بار اور کی آرزو پوری ہی ہیں ہوتی اور پھر ان تینوں ہی قسموں میں قدوقامت ، خدوخال اور سیاحت وملاحت میں اس قدر اختلاف پائے جاتے ہیں کہ شمار میں نہیں آسکتے لیکن ان اختلافات کے باوجود مختلف طرح کی جاذبیت ان میں پائی جاتی ہے اور پھر اسی پر بس نہیں بلکہ انسانوں میں ان کی باطنی قوتیں ، زمینی صلاحیتیں اور فطری استعداد بھی ہے کہ اپنی جگہ ایک حیرت انگیز تنوع پیش کرتی ہیں اور ایسا کیوں نہ ہوتا جب کہ عروس کائنات کے گیسو سنوارنے کی ذمہ داری اس کو سونپی جانے والی تھی اور ان لق ودق صحرائوں کو چمنستان بنانے کا کام اس کے سپرد کیا جانے والا تھا اور یہی وہ ظلوم وجول تھا جس نے اس ذمہ داری کو اپنے سر پر اٹھانے کی ذمہ داری قبول کی تھی۔ علماء کون ہیں ؟ وہی جو کسی نہ کسی اسلامی مدرسہ سے فارغ ہوں اور عربی زبان کے ماہر ہوجائیں اور صرف ونحو اور فنون بلاغت کے جاننے والے ہوں اور جس مکتب فکر سے تعلق رکھتے ہوں اس مکتب فکر کے رسم و رواج کو پختہ کرنے کے دلائل سے خوف واقف ہوں پھر اس میں بھی ان کے درجات ہیں جو مقررین ہیں ان کو اپنی خصوصیات ہیں ، جو مدرسین ہیں ان کو اپنی خصوصیات ہیں ، اسی طرح مناظرین کا اپنا ایک رنگ ڈھنگ ہے اور جن سر سیاسی پان چڑھائی گئی ہو ان کا ایک اپنا مقام ہے جو اس وقت سب سے اونچا تسلیم کیا جاتا ہے اور اگر اپنے خیال کو ذرا نیچے لاسکتے ہیں تو ہمارے دیہات میں ہماری مسجدوں کے جتنے امام و پیشوا ہیں جن کا کم مسجدوں میں امامت اور مسجد سے باہر نکاح کا ایجاب ، پیدا ہونے والے کے کان میں اذان ، مرنے والے کے نہلانے ، کفنانے اور جنازہ کی امامت کرکے قبر پر اتارنے کی ذمہ داری ہے اور اگر مردے کو بخشوانے کے لئے اہل میت کے خاندان چاہیں تو ہمت کرکے ان کو قبرستان میں مردے کے سرہانے قرآن پڑھنے کا کام سپرد ہے اور اس کے بعد تیسرے ، چوتھے ، ساتویں ، دسویں اور چالیسویں کی رسومات کے ادا کرنے میں اہم کردار ادا کرنے والے سب زمرہ علماء میں داخل ہیں ہاں ! فرق ہے تو یہ کہ پشت درپشت یہ کام کرنے والے اصل علماء ہیں اور جدید دور میں اس پیشہ کو اختیار کرنے والے ذرا کم درجہ رکھتے ہیں کیونکہ ان کو سارے گر نہیں آتے جو اصل علماء کرام کو آتے ہیں۔ کیا یہی وہ علماء ہیں جو اللہ سے ڈرتے ہیں جن کے متعلق قرآن کریم اس جگہ بیان کررہا ہے ؟ ہرگز نہیں زیر نظر آیت میں ان پیشہ ور علماء کا بالکل ذکر نہیں کیا گیا اگر کسی اندھے کو نور عالم کہہ دینے سے وہ عالم کا نور نہیں ہوجاتا تو اسی طرح ان پیشہ ور لوگوں کو علماء کہہ دینے سے یہ علماء نہیں ہوجاتے ۔ اگر کسی غریب ونادار آدمی کو سیٹھ کہنا شروع کردیا جائے اور پھر سب لوگ اس کو سیٹھ کے نام سے یاد کرنے لگیں تو اس سے وہ سیٹھ نہیں ہوجاتا اگر کسی نحیف ولاغر اور اٹھنے بیٹھنے سے لاچار انسان کو پہلوان کہنا شروع کردیں تو وہ پہلوان نہیں ہوجائے گا بالکل اسی طرح اگر کسی کو عالم کہنا شروع کردیں تو وہ عالم کیونکر ہوجائے گا۔ علم را برتن زنی مارے بود علم رابر دل زنی یارے بود زیر نظر آیت میں علماء ان کو کہا گیا ہے جو ان تغیرات عالم میں غوروفکر کرتے ہیں اور زیر نظر آیت اور گزشتہ آیت میں جن چیزوں کا مخصوص طور پر ذکر کیا گیا ہے ان چیزوں میں فکر کرکے ان چیزوں کے پیدا کرنے والے اور ان سب کو ایک ضابطہ میں باندھ دینے والے رب ذوالجلال والاکرام کی ذات اور اس کی صفات کا تہہ دل سے اقرار کرتے ہیں اور اللہ کا ڈرتے اور ان کو آخرت کی فکر ہر وقت دامن گیررہتی ہے۔ کائنات کی ان اشیاء میں غور وفکر کرکے ان سے نئی نئی ایجادات کے لئے کوشاں رہتے ہیں اور رب کائنات سے اپنا خاص تعلق ہونے کے باعث ان بندھنوں سے وہ کبھی آزاد نہیں ہوتے جو انسانی زندگی کے لئے اللہ نے باندھ دیئے ہیں جو وہ جانتے ہیں کہ قرآن کریم اللہ تعالیٰ کا کلام ہے اور یہ بھی سمجھتے ہیں کہ یہ کائنات اللہ تعالیٰ کا فعل یعنی کام ہے تو ان کو پختہ یقین ہوجاتا ہے کہ اللہ کے کلام اور اللہ کے کام میں فرق نہیں ہوسکتا اور پھر جہاں ان کو فرق نظر آتا ہے تو وہ سمجھ جاتے ہیں کہ ہم سے کوئی غلطی سرزد ہوئی ہے یا تو کلام الٰہی کے مفہوم کو ہم صحیح نہیں سمجھے اور یا پھر یہ کام اس طرح نہیں جیسے ہم نے سمجھ لیا ہے اس طرح جب وہ فکر کرتے ہیں تو یقینا حقیقت کو پالیتے ہیں اور اس نہج کی فکر ہی کانا خشیت ہے جو علماء کی صفت بتائی گئی ہے اور قرآن کریم نے علماء کرام کا ذکر بہت سے مقامات پر کیا ہے جو غوروفکر کرنے والے ہیں جیسا کہ عروۃ الوثقی ، جلد دوم میں سورة آل عمران کی آیت 191 ، جلد سوم سورة الاعراف 176 ، جلد چہارم سورة یونس کی آیت 42 ، سورة الرعد کی آیت 3 ، جلد پنجم سورة النمل کی آیت 69 , 44 , 11 جلد ہذا سورة الروم آیت 21 میں ہم بیان کرچکے ہیں۔ عین ممکن ہے کہ ہماری اس رائے سے آپ کو اتفاق نہ ہو لیکن ہم آپ کے اتفاق کی خاطر حقیقت سے چشم پوشی نہیں کرسکتے جو تعریف اوپر علماء کرام کی بیان کی گئی ہے اگر اس تعریف پر پرکھ کر دیکھا جائے تو صحابہ کرام ، تابعین اور تبع تابعین رحمہم اللہ میں سے ایک بھی ایسا نہیں جس کو ہم عالم تسلیم نہ کرسکیں اور ہم کسی حال میں یہ تسلیم نہیں کرسکتے کہ صحابہ کرام ، تابعین اور تبع تابعین کے یہ لوگ علماء نہیں تھے اور اگر ان کو علماء تسلیم کریں تو اوپر بیان کی گئی درس نظامی کی تعریف خود بخود غلط ہوجاتی ہے۔ فافہم فتدبر۔
Top