Tafseer-e-Usmani - Faatir : 28
وَ مِنَ النَّاسِ وَ الدَّوَآبِّ وَ الْاَنْعَامِ مُخْتَلِفٌ اَلْوَانُهٗ كَذٰلِكَ١ؕ اِنَّمَا یَخْشَى اللّٰهَ مِنْ عِبَادِهِ الْعُلَمٰٓؤُا١ؕ اِنَّ اللّٰهَ عَزِیْزٌ غَفُوْرٌ
وَمِنَ النَّاسِ : اور لوگوں سے۔ میں وَالدَّوَآبِّ : اور جانور (جمع) وَالْاَنْعَامِ : اور چوپائے مُخْتَلِفٌ : مختلف اَلْوَانُهٗ : ان کے رنگ كَذٰلِكَ ۭ : اسی طرح اِنَّمَا : اس کے سوا نہیں يَخْشَى : ڈرتے ہیں اللّٰهَ : اللہ مِنْ : سے عِبَادِهِ : اس کے بندے الْعُلَمٰٓؤُا ۭ : علم والے اِنَّ اللّٰهَ : بیشک اللہ عَزِيْزٌ : غالب غَفُوْرٌ : بخشنے والا
اور آدمیوں میں اور کیڑوں میں اور چوپاؤں میں کتنے رنگ ہیں اسی طرح7 اللہ سے ڈرتے وہی ہیں اس کے بندوں میں جن کو سمجھ ہے، تحقیق اللہ زبردست ہے بخشنے والاف 8
7  یہ سب بیان ہے قدرت کی نیرنگیوں کا۔ پس جس طرح نباتات، جمادات، اور حیوانات میں رنگ برنگ کی مخلوق ہے، انسانوں میں بھی ہر ایک کی طرح جدا ہے۔ مومن اور کافر ایک دوسرا سا ہوجائے اور سب انسان ایک ہی رنگ اختیار کرلیں یہ کب ہوسکتا ہے۔ اس میں حضرت ﷺ کو تسلی دے دی کہ لوگوں کے اختلاف سے غمگین نہ ہوں۔ 8  یعنی بندوں میں نڈر بھی ہیں اور اللہ سے ڈرنے والے بھی مگر ڈرتے وہ ہی ہیں جو اللہ کی عظمت و جلال، آخرت کے بقاء و دوام، اور دنیا کی بےثباتی کو سمجھتے ہیں اور اپنے پروردگار کے احکام و ہدایات کا علم حاصل کر کے مستقبل کی فکر رکھتے ہیں۔ جس میں یہ سمجھ اور علم جس درجہ کا ہوگا اسی درجہ میں وہ خدا سے ڈرے گا۔ جس میں خوف خدا نہیں وہ فی الحقیقت عالم کہلانے کا مستحق نہیں۔ حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں " یعنی سب آدمی ڈرانے والے نہیں۔ اللہ سے ڈرنا سمجھ والوں کی صفت ہے اور اللہ کا معاملہ بھی دو طرح ہے وہ زبردست بھی ہے کہ ہر خطا پر پکڑے، اور غفور بھی کہ گنہگار کو بخشے۔ " پس دونوں حیثیت سے بندے کو ڈرنا چاہیے۔ کیونکہ نفع و ضرر دونوں اسی کے قبضہ میں ہوئے تو جب چاہے نفع کو روک لے اور ضرر لاحق کر دے۔
Top