Dure-Mansoor - At-Tawba : 91
لَیْسَ عَلَى الضُّعَفَآءِ وَ لَا عَلَى الْمَرْضٰى وَ لَا عَلَى الَّذِیْنَ لَا یَجِدُوْنَ مَا یُنْفِقُوْنَ حَرَجٌ اِذَا نَصَحُوْا لِلّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ١ؕ مَا عَلَى الْمُحْسِنِیْنَ مِنْ سَبِیْلٍ١ؕ وَ اللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌۙ
لَيْسَ : نہیں عَلَي : پر الضُّعَفَآءِ : ضعیف (جمع) وَلَا : اور نہ عَلَي : پر الْمَرْضٰى : مریض (جمع) وَلَا : اور نہ عَلَي : پر الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو لَا يَجِدُوْنَ : نہیں پاتے مَا : جو يُنْفِقُوْنَ : وہ خرچ کریں حَرَجٌ : کوئی حرج اِذَا : جب نَصَحُوْا : وہ خیر خواہ ہوں لِلّٰهِ : اللہ کیلئے وَرَسُوْلِهٖ : اور اس کا رسول مَا : نہیں عَلَي : پر الْمُحْسِنِيْنَ : نیکی کرنے والے مِنْ سَبِيْلٍ : کوئی راہ (الزام) وَاللّٰهُ : اور اللہ غَفُوْرٌ : بخشنے والا رَّحِيْمٌ : نہایت مہربان
ضعیفوں اور مریضوں اور ان لوگوں پر کوئی گناہ نہیں جو خرچ کرنے کے لئے نہیں پاتے جبکہ وہ اللہ اور اس کے رسول کے لئے خلوص دل سے حاضر ہوں، محسنین پر کوئی الزام نہیں ہے اور اللہ غفور ہے رحیم ہے
1:۔ ابن ابی حاتم والدارقطنی نے الافراد میں وابن مردویہ رحمہم اللہ نے زید بن ثابت ؓ سے روایت کیا کہ میں رسول اللہ ﷺ کے لئے سورة برات لکھ رہا تھا اور جو آپ پر نازل ہوتا تھا۔ میں اس کو لکھ لیتا تھا اور میں اپنا قلم اپنے کان پر رکھے ہوئے تھا اچانک آپ نے ہم کو قتال کا حکم دیا پھر رسول اللہ ﷺ نے احکام نازل ہونے کا اتنظار فرمانے لگے اچانک ایک اندھا آدمی آیا اور اس نے کہا یا رسول اللہ میرا معاملہ کیسے ہوگا میں تو اندھا ہوں تو (یہ آیت) نازل ہوئی۔ (آیت ) ” لیس علی الضعفآء “۔ (الآیہ) 2:۔ ابن جریر وابن منذر وابن ابی حاتم وابو الشیخ رحمہم اللہ نے قتادہ (رح) سے روایت کیا کہ (آیت ) ” لیس علی الضعفآء “۔ کے بارے میں فرمایا کہ یہ آیت عائز بن عمرو اور اس کے علاوہ دوسرے لوگوں کے بارے میں نازل ہوئی۔ 3:۔ ابن ابی حاتم (رح) نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ اس قول (آیت) ” عفا اللہ عنک “ سے لے کر (آیت) ” ماعلی المحسنین من سبیل واللہ غفور رحیم “ تک منافقین کے بارے میں نازل ہوئی۔ 4:۔ ابن ابی شیبہ واحمد نے زہد میں الحکیم الترمذی (رح) نے نوادرالاصول میں ابن ابی حاتم نے ابو ثمامہ الصائدی سے روایت کیا کہ حواریوں نے کہا اے روح اللہ ہم کو اللہ کے لئے نصیحت کرنے والے کے بارے میں بتائیے آپ نے فرمایا وہ آدمی جو اللہ کے حق کو لوگوں کے حق پر ترجیح دیتا ہے اور جب اس کے لئے دو امر پیش آجائیں۔ یا اس کے سامنے امر دنیا بھی ہو اور امر آخرت بھی تو آغاز اور آخرت سے کرنے اور اس سے فارغ ہونے کے بعد امر دنیا کی طرف توجہ کرے۔ مسلمانوں کے ساتھ خیرخواہی : 5:۔ مسلم وابو داود والنسائی رحمہم اللہ نے تمیم داری ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ دین نصیحت ہے کیا رسول اللہ ﷺ کس کے لئے تو آپ نے فرمایا اللہ کے لئے اس کے رسولوں کے لئے مسلمان آئمہ کے لئے اور عام مسلمانوں کے لئے۔ 6:۔ ابن عدی (رح) نے ابن عمر ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ دین خیرخواہی ہے پوچھا یا رسول اللہ ﷺ کس کے لئے ؟ فرمایا اللہ کے لئے اس کے رسول کے لئے اور مسلمان آئمہ کے لئے اور عام مسلمانوں کے لئے۔ 7:۔ بخاری ومسلم الترمذی رحمہم اللہ نے جریر ؓ سے روایت کیا کہ میں نے نبی کریم ﷺ سے نماز کے قائم کرنے پر زکوٰۃ کے ادا کرنے پر اور ہر مسلمان کے لئے خیر خواہی (چاہنے پر بیعت کی) 8:۔ احمد والحکیم الترمذی رحمہما اللہ نے ابوامامہ ؓ سے روایت کیا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ اللہ عزوجل فرماتے ہیں مجھے یہ زیادہ محبوب ہے کہ جو عبادت میرے بندے نے میرے لئے مخلص ہو کر کی۔ 9:۔ احمد (رح) نے الزہد میں وھب بن منبہ (رح) سے روایت کیا کہ ایک راہب نے ایک آدمی سے کہا میں تجھ کو نصیحت کرتا ہوں اللہ تعالیٰ سے انہیں اس طرح مخلص ہونے کی جیسے کتا مخلص ہوتا ہے۔ اپنے گھروالوں کے لئے بلاشبہ وہ اس کو بھوکا رکھتے ہیں اور اس کو دور بھی بھگاتے ہیں۔ اور وہ (باہر جانے سے) انکار کرتا ہے مگر وہ اللہ ان کی حفاظت کرتا ہے اور ان کی خیر خواہی کرتا ہے۔ 10:۔ ابوالشیخ (رح) نے ضحاک (رح) سے روایت کیا کہ اس قول (آیت) ” ماعلی المحسنین من سبیل “ کے بارے میں فرمایا ان لوگوں پر کوئی الزام نہیں جنہوں نے اللہ اور اس کے رسول کے لئے خیرخواہی کی مگر جہاد کی طاقت نہ رکھی تو اللہ تعالیٰ نے ان کے عذر کو قبول فرمایا اور ان کے لئے وہ اجر کردیا گیا جو مجاہدین کے لئے کیا گیا تھا کیا تو نے اللہ تعالیٰ کو یہ فرماتے ہوئے نہیں سنا (آیت) ” لا یستوی القعدون من المومنین غیر اولی الضرر “ (النساء آیت 95) پس جو لوگ عذر والے تھے ضعفاء میں سے اور تکلیف والوں میں سے اور ان لوگوں میں سے جو خرچ کرنے کو کچھ نہیں پاتے اللہ تعالیٰ نے ان کے لئے جہاد کرنے والوں کی طرح ہی اجر بنا دیا۔ معذور کے اجر وثواب : 11:۔ عبدالرزاق نے مصنف میں وابن ابی شیبہ واحمد والبخاری وابو الشیخ وابن مردویہ رحمہم اللہ نے انس ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ جب غزوہ تبوک سے واپس تشریف لائے اور مدینہ منورہ میں داخل ہونے کے قریب ہوئے تو آپ نے فرمایا والبتہ تحقیق تم نے مدینہ منورہ میں ایسے آدمی چھوڑے ہیں جو تمہارے ساتھ سفر پر نہیں تھے۔ ان کی کوئی چیز خرچ نہیں کی اور نہ تم ان کے ساتھ وادیوں کو عبور کیا مگر اس غزوہ میں وہ تمہارے ساتھ تھے صحابہ نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ وہ ہمارے ساتھ کس طرح ہوں گے حالانکہ وہ مدینہ منورہ میں تھے آپ نے فرمایا ان کو عذر نے روک لیا تھا (اس لئے ان کو ایسا ہی اجر ملے گا جیسے وہ تمہارے ساتھ تھے) 12:۔ احمد ومسلم وابن مردویہ رحمہم اللہ نے جابر ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تم نے مدینہ منورہ میں ایسے لوگ پیچھے چھوڑے ہیں جنہوں نے نہ تمہارے ساتھ وادیوں کو عبور کیا اور نہ انہوں نے تمہارے ساتھ سفر کیا وہ تمہارے اجر میں شریک ہیں کیونکہ ان کو مرض نے روک لیا تھا۔ 13:۔ ابو الشیخ (رح) نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ انہوں نے اللہ تعالیٰ کے اس قول ’(آیت) ما علی المحسنین من سبیل “ کے بارے میں فرمایا اور اللہ تعالیٰ گناہ کرنے والوں کے لئے مغفرت فرمانے والا ہے اور رحم فرمانے والا ہے۔
Top