Fahm-ul-Quran - Al-Qasas : 55
وَ اِذَا سَمِعُوا اللَّغْوَ اَعْرَضُوْا عَنْهُ وَ قَالُوْا لَنَاۤ اَعْمَالُنَا وَ لَكُمْ اَعْمَالُكُمْ١٘ سَلٰمٌ عَلَیْكُمْ١٘ لَا نَبْتَغِی الْجٰهِلِیْنَ
وَاِذَا : ور جب سَمِعُوا : وہ سنتے ہیں اللَّغْوَ : بیہودہ بات اَعْرَضُوْا : وہ کنارہ کرتے ہیں عَنْهُ : اس سے وَقَالُوْا : اور کہتے ہیں لَنَآ اَعْمَالُنَا : ہمارے لیے ہمارے عمل وَلَكُمْ : اور تمہارے لیے اَعْمَالُكُمْ : تمہارے عمل (جمع) سَلٰمٌ : سلام عَلَيْكُمْ : تم پر لَا نَبْتَغِي : ہم نہیں چاہتے الْجٰهِلِيْنَ : جاہل (جمع)
” اور جب وہ بےہودہ بات سنتے ہیں تو یہ کہہ کر اس سے کنارہ کش ہوجاتے ہیں کہ ہمارے اعمال ہمارے لیے اور تمہارے اعمال تمہارے لیے۔ تمہیں سلام ہو ہم جاہلوں کا سا طریقہ اختیار کرنا نہیں چاہتے۔ “ (55)
فہم القرآن ربط کلام : حق قبول کرنے والوں کی چوتھی خوبی۔ مفسرین نے اس آیت کا شان نزول لکھتے ہوئے وضاحت فرمائی ہے کہ جب عیسائیوں کے ایک وفد نے اسلام قبول کیا تو مشرکین مکہ نے انھیں طعنہ دیا کہ تم عجب لوگ ہو کہ تمہارے پچھلے لوگوں نے تمہیں حقیقت حال جاننے کے لیے بھیجا ہے اور تم انھیں اطلاع دیے اور ان سے مشورہ کیے بغیر اپنا دین چھوڑ رہے ہو یہ تمہاری کیسی جہالت ہے اس موقعہ پر مسلمان ہونے والوں نے جو جواب دیا اللہ تعالیٰ نے اسے اپنے الفاظ میں بیان فرماتا ہے۔ ” اللہ “ کے نیک بندے اور نصیحت قبول کرنے والوں کی یہ خوبی ہوتی ہے کہ وہ باطل دین اور اپنی ضد پر اڑے نہیں رہتے بلکہ جوں ہی ان کے سامنے حق بات واضح ہوتی ہے تو وہ بلا تردّد حق بات قبول کرتے ہوئے اس پر گامزن ہوجاتے ہیں۔ یہ ہر برائی چھوڑنے کی کوشش کرتے ہیں اور حق بات پر عمل پیرا ہونے کے ساتھ انفاق فی سبیل اللہ کرتے ہیں۔ ان کی چوتھی خوبی یہ ہوتی ہے کہ وہ بےہودہ اور بےمقصد باتوں اور کاموں سے پرہیز کرتے ہیں کوئی انھیں بےہودہ کام یا بات کی طرف بلائے تو یہ پوری ایمانی قوت کے ساتھ اس کا انکار کرتے ہیں۔ اگر ان کے ساتھ کوئی برائی کے معاملہ میں اصرار کرے تو یہ کہہ کر اپنا دامن بچالیتے ہیں کہ تمہارے عمل تمہارے لیے، ہمارے اعمال ہمارے لیے، تمہیں سلام ہو ہم جاہلوں سے الجھنے ان جیسا کردار اختیار کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ دوسرے مقام پر انھیں الرّحمن کے بندے قرار دے کر ان کے اوصاف کا ان الفاظ میں تذکرہ کیا گیا ہے۔ (وَعِبَاد الرَّحْمٰنِ الَّذِیْنَ یَمْشُونَ عَلَی الْاَرْضِ ہَوْنًا وَّاِِذَا خَاطَبَہُمُ الْجَاہِلُوْنَ قَالُوْا سَلاَمًا) [ الفرقان : 63 ] ” رحمان کے حقیقی بندے وہ ہیں جو زمین پر نرم چال چلتے ہیں جاہل ان سے جھگڑیں تو وہ ان کو سلام کہہ دیتے ہیں۔ “ (قَدْ اَفْلَحَ الْمُؤْمِنُوْنَ الَّذِیْنَ ہُمْ فِیْ صَلاَتِہِمْ خَاشِعُوْنَ وَالَّذِیْنَ ہُمْ عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُوْنَ وَالَّذِیْنَ ہُمْ للزَّکٰوۃِ فَاعِلُوْنَ وَالَّذِیْنَ ہُمْ لِفُرُوْجِہِمْ حَافِظُوْنَ )[ لمومنون : 1 تا 5 ] ” یقیناً مؤمن فلاح پا گے۔ وہ لوگ جو اپنی نمازوں میں خشوع اختیار کرتے ہیں۔ اور وہ لوگ فضولیات سے دور رہتے ہیں۔ اور وہ لوگ جو زکوٰۃ ادا کرنے والے ہیں۔ اور وہ لوگ جو اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرتے ہیں۔ “ (عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ ؓ قَالَ قَالَ رَسُول اللَّہِ ﷺ مِنْ حُسْنِ إِسْلَامِ الْمَرْءِ تَرْکُہُ مَا لَا یَعْنِیہٖ ) [ رواہ الترمذی : کتاب الزہد ] ” حضرت ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں رسول معظم ﷺ نے فرمایا بلاشبہ آدمی کے بہترین اسلام کی تعریف یہ ہے کہ وہ لا حاصل باتوں کو چھوڑ دے۔ “ مسائل 1۔ ” اللہ “ کے بندے لغو سے اجتناب کرتے ہیں۔ 2۔ ” اللہ “ کے بندے جاہلوں سے نہیں الجھتے۔ 3۔ بروں کے لیے برے اعمال اور نیکوں کے لیے نیک اعمال ہوتے ہیں۔ تفسیر بالقرآن جاہلوں سے اعراض کرنا چاہیے : 1۔ نبی محترم کو جاہلوں سے اعراض کی ہدایت تھی۔ (اعراف : 199) 2۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے جہالت سے پناہ مانگی۔ (البقرۃ : 67) 3۔ حضرت نوح کو جہالت سے بچنے کا حکم۔ (ہود : 46) 4۔ جاہلوں سے بحث کی بجائے اجتناب اور اعراض کرنا چاہیے۔ (الفرقان : 63) 5۔ اگر اللہ چاہتا تو انہیں ہدایت پر جمع فرما دیتا پس آپ جاہلوں میں سے نہ ہوں۔ (الانعام : 35)
Top