Tafseer-e-Madani - Al-Qasas : 55
وَ اِذَا سَمِعُوا اللَّغْوَ اَعْرَضُوْا عَنْهُ وَ قَالُوْا لَنَاۤ اَعْمَالُنَا وَ لَكُمْ اَعْمَالُكُمْ١٘ سَلٰمٌ عَلَیْكُمْ١٘ لَا نَبْتَغِی الْجٰهِلِیْنَ
وَاِذَا : ور جب سَمِعُوا : وہ سنتے ہیں اللَّغْوَ : بیہودہ بات اَعْرَضُوْا : وہ کنارہ کرتے ہیں عَنْهُ : اس سے وَقَالُوْا : اور کہتے ہیں لَنَآ اَعْمَالُنَا : ہمارے لیے ہمارے عمل وَلَكُمْ : اور تمہارے لیے اَعْمَالُكُمْ : تمہارے عمل (جمع) سَلٰمٌ : سلام عَلَيْكُمْ : تم پر لَا نَبْتَغِي : ہم نہیں چاہتے الْجٰهِلِيْنَ : جاہل (جمع)
اور جب بےہودہ بات کان میں پڑجائے تو یہ اس سے منہ موڑ لیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہمارے لئے ہمارے اعمال ہیں اور تمہارے لئے تمہارے اعمال تم کو سلام ہے ہم جاہلوں کو منہ لگانا نہیں چاہتے
70 مخالفین کے طعن وتشنیع کے جواب میں سلامتی کے بول ہدایت : سو ارشاد فرمایا گیا کہ " یہ لوگ مخالفین سے کہتے ہیں ہمارے لیے ہمارے اعمال اور تمہارے لیے تمہارے اعمال "۔ تم لوگوں کو سلام ہے اور یہ سلام سلام متارکت کہلاتا ہے۔ یعنی تمہارا راستہ الگ ہمارا الگ۔ (المحاسن، البحر وغیرہ) ۔ اور یہ بھی ان حضرات کے مکارم اخلاق کا ایک نمونہ ہے کہ جاہلوں سے الجھنے کی بجائے سلامتی کا کلمہ کہہ کر ان سے الگ ہوجاتے ہیں۔ جیسا کہ حضرت ابراہیم نے کیا تھا کہ اپنے باپ کو پوری ہمدردی اور دلسوزی سے سمجھانے اور کلمہ حق پیش کرنے کے بعد جب دیکھا کہ وہ اپنے کفر و باطل کو ترک کرکے راہ حق و ہدایت کو قبول کرنے والا نہیں تو یہی سلامتی کا بول بول کر آپ نے اس سے علیحدگی اختیار کرلی۔ سو ہٹ دھرم قسم کے لوگوں سے جان چھڑانے اور ان سے علیحدگی اختیار کرنے کا یہ نہایت سنجیدہ، شائستہ، مہذب اور مبارک طریقہ ہے ۔ وباللہ التوفیق لما یحب ویرید وعلی ما یحب ویرید وہو الہادی الی سواء السبیل - 71 جاہلوں سے الجھاؤ سے احتراز و اجتناب کا درس : سو ان بندگان صدق وصفا کے بارے میں فرمایا گیا کہ وہ کہتے ہیں کہ ہم جاہلوں سے الجھنا نہیں چاہتے کہ جاہلوں سے الجھنا ہمارا طریقہ اور شیوہ نہیں۔ اور جب ایسے لوگ ہماری بات سننے ماننے کو بھی تیار نہیں تو ان کے ساتھ گھل مل کر رہنا بھی ہماری شان نہیں کہ ان سے علیحدگی اور کنارہ کشی کی اس راہ میں ہی سکون و اطمینان ہے ۔ فَالْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ ۔ بہرکیف { لا نبتغی الجاھلین } کا یہ جملہ ان حضرات کے باطن کی کیفیت کا عکاس و آئینہ دار اور انکے اعلان بیزاری کی تعبیر ہے۔ یعنی یہ حضرات اپنے دل میں یہ سوچتے اور سمجھتے ہیں کہ جب ایسے ہٹ دھرم لوگ کسی بات کو سننے اور ماننے ہی کیلئے تیار نہیں تو پھر ان سے بات کرنے اور ان سے الجھنے کا کیا فائدہ ؟۔ لہذا یہ سوچ کر ان سے علیحدگی اختیار کرلیتے ہیں۔ اور یہی سلامتی کی راہ ہے کہ اس طرح مومن صادق جاہلوں کی دلآزاریوں اور ان کی ایذارسانیوں سے بھی محفوظ رہتا ہے اور اپنے وقت کی متاع گرانمایہ کو بھی ضیاع سے بچا لیتا ہے ۔ وباللہ التوفیق لما یحب ویرید -
Top