Urwatul-Wusqaa - Al-Qasas : 55
وَ اِذَا سَمِعُوا اللَّغْوَ اَعْرَضُوْا عَنْهُ وَ قَالُوْا لَنَاۤ اَعْمَالُنَا وَ لَكُمْ اَعْمَالُكُمْ١٘ سَلٰمٌ عَلَیْكُمْ١٘ لَا نَبْتَغِی الْجٰهِلِیْنَ
وَاِذَا : ور جب سَمِعُوا : وہ سنتے ہیں اللَّغْوَ : بیہودہ بات اَعْرَضُوْا : وہ کنارہ کرتے ہیں عَنْهُ : اس سے وَقَالُوْا : اور کہتے ہیں لَنَآ اَعْمَالُنَا : ہمارے لیے ہمارے عمل وَلَكُمْ : اور تمہارے لیے اَعْمَالُكُمْ : تمہارے عمل (جمع) سَلٰمٌ : سلام عَلَيْكُمْ : تم پر لَا نَبْتَغِي : ہم نہیں چاہتے الْجٰهِلِيْنَ : جاہل (جمع)
اور (یہ لوگ) جب بیہودہ باتیں سنتے ہیں تو ان سے منہ پھیر لیتے ہیں اور کہتے ہیں ہمارے اعمال ہمارے لیے اور تمہارے اعمال تمہارے لیے ، سلامت رہو ہم (جاہل) ناسمجھ لوگوں کے خواستگار نہیں
وہ لوگ بیہودہ باتوں سے ہمیشہ کنارہ کش ہی رہتے ہیں : 55۔ ان لوگوں کی چوتھی صفت یہ بیان کی گئی ہے کہ یہ لوگ لغو دراصل چڑیوں اور چڑیوں کی طرح دوسرے پرندوں کی چوں چوں کی آواز کو کہتے ہیں جو بےارادہ وبغیر سوچے منہ سے نکلتی رہتی ہے اس لئے وہ ہر بیہودہ کلام اور فحش گفتگو کو کہا جاتا ہے جو بےمقصد اور خواہ مخواہ کی جائے ، لوگ جب فارخ اوقات گزارنے کے لئے مل کر بیٹھتے ہیں تو اس طرح کی فحش اور بےکار باتیں کرتے ہیں جن کا کوئی مقصد نہیں ہوتا اور وقت گزاری کے لئے بےکار کاموں میں انسان مصروف ہوجاتا ہے ، ان لوگوں کی صفت یہ بیان کی گئی ہے کہ یہ لوگ بیہودہ باتوں اور بےکار اور فضول بحثوں میں مبتلا نہیں ہوتے اور جب مخالفین اور معترضین ان سے الجھنے کی کوشش کرتے ہیں تو یہ لوگ ان سے پیچھا چھڑانے کے لئے زیادہ سے زیادہ جو کہتے ہیں وہ یہی ہوتا ہے کہ ہمارے بھائی ہم اپنے اعمال کے ذمہ دار ہیں تم اپنے اعمال کے ذمہ دار ہو ہمیں ہماری راہ چلنے دو اور تم اپنی راہ چلتے رہو (سلم علیکم) یہ سلام اس مفہوم میں ہے جس مفہوم میں ہمارے ہاں ” سلام “ ہے کا محاورہ عام چلتا ہے یعنی ہم نے چھوڑا ‘ ہم باز آئے ‘ دست بردار ہوئے ‘ خیر باد کہا ۔ گویا یہ سلام سلام مفارقت ہے (سلام علیکم) ہماری طرف سے تم پر سات سلام ہیں (لا نبتغی الجاھلین) ہم ناسمجھ لوگوں کی خواست گار نہیں ۔ ان کے طرز بیان اور طرز عمل کا ذکر کیا جا رہا ہے کہ وہ دل میں یہ خیال کرکے کہ جاہلوں سے الجھنے سے کچھ فائدہ نہیں ان کو سلام کہہ کر رخصت ہوجاتے ہیں جیسا کہ سیدنا ابراہیم (علیہ السلام) اپنے باپ سے رخصت ہوتے وقت کیا تھا ۔ ہمارے نبی اعظم وآخر ﷺ نے امت کے لوگوں کو یہ ہدایت کی گئی ہے کہ وہ ایک دوسرے کو ملاقات کے وقت ” السلام علیکم “ کی دعا سے ملاقات کیا کریں اور ” السلام علیکم “ کے الفاظ کو استعمال نہ کیا کریں لیکن جن لوگوں کو احادیث سے کد ہے انہوں نے ” السلام علیکم “ کو پسند نہیں کیا بلکہ وہ اپنی تحریرات میں ” سلام علیکم “ ہی کے الفاظ استعمال کرتے ہیں اور نہیں سمجھتے کہ یہ سلام قرآن کریم کی زبان میں کیسے اور کیونکر سلام ہوا ہے اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہم کو ضد سے ہٹ کر بھی سوچنے اور سمجھنے کی توفیق دے ۔
Top