Tafseer-e-Majidi - Al-Qasas : 55
وَ اِذَا سَمِعُوا اللَّغْوَ اَعْرَضُوْا عَنْهُ وَ قَالُوْا لَنَاۤ اَعْمَالُنَا وَ لَكُمْ اَعْمَالُكُمْ١٘ سَلٰمٌ عَلَیْكُمْ١٘ لَا نَبْتَغِی الْجٰهِلِیْنَ
وَاِذَا : ور جب سَمِعُوا : وہ سنتے ہیں اللَّغْوَ : بیہودہ بات اَعْرَضُوْا : وہ کنارہ کرتے ہیں عَنْهُ : اس سے وَقَالُوْا : اور کہتے ہیں لَنَآ اَعْمَالُنَا : ہمارے لیے ہمارے عمل وَلَكُمْ : اور تمہارے لیے اَعْمَالُكُمْ : تمہارے عمل (جمع) سَلٰمٌ : سلام عَلَيْكُمْ : تم پر لَا نَبْتَغِي : ہم نہیں چاہتے الْجٰهِلِيْنَ : جاہل (جمع)
اور جب کوئی لغو بات سنتے ہیں تو اسے ٹال جاتے ہیں اور کہہ دیتے ہیں۔ کہ ہمارے عمل ہمارے لئے اور تمہارے عمل تمہارے لئے تم پر سلام ہو ہم بےسمجھ لوگوں سے (تعلقات) نہیں چاہتے،73۔
73۔ (ہمیں ایسی صحبتوں سے تو معاف ہی رکھو) اے لانطلب مخالطتکم (بحر) (آیت) ” لنا ...... الجھلین “۔ اس پورے فقرہ سے مقصود ان کی سلامت روی کا اظہار ہے۔ یہ مقصود نہیں کہ یہ اپنے مخالفین کو سلام کرتے رہتے ہیں۔ (آیت) ” سلم علیکم “۔ سلام متارکت و علیحدگی مقصود ہے۔ سلام متعارف مراد نہیں۔ قال الزجاج سلام متارکۃ لاسلام تحیۃ (بحر) قال ابوبکر ھذا سلام متارکۃ ولیس بتحیۃ (جصاص) ومن الناس من یظن ان ھذا یجوز علی جواز ابتداء الکافر بالسلام ولیس کذلک لما وضعنا عن ان السلام ینصرف علی معیین احدھما المسالمۃ التیھی المتارکۃ والثانی التحیۃ التیھی دعاء بالسلامۃ والامن (جصاص) (آیت) ” اللغو “۔ سے مراد ہے ایسا قول جس کے سننے سے انہیں تکلیف ہوتی ہو قال مجاھد الاذی والسب (بحر) (آیت) ’ یدرء ون .... ینفقون “۔ مفسر تھانوی نے لکھا ہے کہ یدرء ون میں حب جاہ سے اور (آیت) ” مما رزقنھم “ میں حب مال سے ان کے خالی ہونے کی طرف اشارہ ہے۔
Top