Anwar-ul-Bayan - Al-Qasas : 55
وَ اِذَا سَمِعُوا اللَّغْوَ اَعْرَضُوْا عَنْهُ وَ قَالُوْا لَنَاۤ اَعْمَالُنَا وَ لَكُمْ اَعْمَالُكُمْ١٘ سَلٰمٌ عَلَیْكُمْ١٘ لَا نَبْتَغِی الْجٰهِلِیْنَ
وَاِذَا : ور جب سَمِعُوا : وہ سنتے ہیں اللَّغْوَ : بیہودہ بات اَعْرَضُوْا : وہ کنارہ کرتے ہیں عَنْهُ : اس سے وَقَالُوْا : اور کہتے ہیں لَنَآ اَعْمَالُنَا : ہمارے لیے ہمارے عمل وَلَكُمْ : اور تمہارے لیے اَعْمَالُكُمْ : تمہارے عمل (جمع) سَلٰمٌ : سلام عَلَيْكُمْ : تم پر لَا نَبْتَغِي : ہم نہیں چاہتے الْجٰهِلِيْنَ : جاہل (جمع)
اور جب لغویات سنتے ہیں تو اس سے اعراض کرتے ہیں اور یوں کہتے ہیں کہ ہمارے لیے ہمارے اعمال اور تمہارے لیے تمہارے اعمال، ہم تم کو سلام کرتے ہیں ہم جاہلوں سے بات کرنا نہیں چاہتے
پانچویں آیت میں مؤمنین اہل کتاب کی ایک صفت بیان فرمائی (جو دیگر اہل ایمان کی صفات میں بھی مذکور ہے کہ) جب وہ کوئی لغویات سنتے ہیں تو وہ اس سے اعراض کرتے ہیں۔ یعنی اس طرح گزر جاتے ہیں جیسے سنا ہی نہیں اور جو لوگ ان کے ساتھ بیہودہ باتوں سے پیش آتے ہیں ان سے کہتے ہیں کہ (لَنَآ اَعْمَالُنَا وَ لَکُمْ اَعْمَالُکُمْ ) (ہمارے لیے ہمارے اعمال اور تمہارے لیے تمہارے اعمال) تم لغو باتیں کیوں کرتے ہو اپنے اعمال کو دیکھو اور اپنی جان کی خیر منانے کی فکر کرو۔ عذاب میں مبتلا ہونے کا کام کر رہے ہو اور ہم سے بلا وجہ الجھتے ہو (سَلٰمٌ عَلَیْکُمْ ) تم پر سلام ہو۔ یہ سلام وہ نہیں ہے جو اہل ایمان ملاقات کے وقت ایک دوسرے کو پیش کرتے ہیں بلکہ یہ جان چھڑانے کا ایک طریقہ ہے جیسے اہل اردو کسی بیہودہ آدمی سے جان چھڑانے کے لیے یوں کہہ دیتے ہیں کہ بھیا سلام کریں اور اس کا یہ معنی بھی ہوسکتا ہے کہ ہم تمہاری حرکتوں کا جواب نہ دیں گے بدلہ نہ لیں گے تم ہماری طرف سے با سلامت رہو، ہم تم سے کوئی انتقام نہیں لیں گے۔ (لَا نَبْتَغِی الْجٰھِلِیْنَ ) (ہم جاہلوں سے بات چیت کرنا الجھنا نہیں چاہتے۔ ) (تفسیر قرطبی ص 296: ج) میں حضرت عروہ بن زبیر سے نقل کیا ہے کہ آیت بالا نجاشی اور اس کے ساتھیوں کے بارے میں نازل ہوئی۔ نجاشی نے بارہ آدمی بھیجے یہ لوگ نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور ایمان لے آئے ابو جہل ان کے ساتھ ہی وہیں قریب تھا جب یہ لوگ ایمان قبول کر کے خدمت عالی سے اٹھے تو ابو جہل اور اس کے ساتھی ان کے پیچھے پڑگئے کہنے لگے کہ تم تو نامراد لوگ نکلے تمہاری یہ جماعت بری جماعت ہے تم نے محمد رسول اللہ ﷺ کی تصدیق کرنے میں ذرا بھی دیر نہ لگائی۔ سواروں کی کوئی جماعت ہم نے تم سے بڑھ کر احمق اور جاہل نہیں دیکھی ان حضرات نے جواب میں کہا کہ (سَلٰمٌ عَلَیْکُمْ ) (اور یہ بھی کہا کہ ہمارے سامنے جب ہدایت آگئی تو ہم نے اسے قبول کرلیا اور اپنی جانوں کی خیر خواہی میں کوتاہی نہیں کی، اور ساتھ ہی یوں بھی کہا کہ (لَنَآ اَعْمَالُنَا وَ لَکُمْ اَعْمَالُکُمْ ) (ہمارے لیے ہمارے اعمال ہیں اور تمہارے لیے تمہارے اعمال ہیں) ابو جہل اور اس کے ساتھیوں کو جواب دیا اور اللہ تعالیٰ نے ان کا یہ جواب نقل فرمایا اور ان کی توصیف فرمائی۔
Top